بنگالی ہونا جرم بنا دیا گیا ہے


(عثمان کراچی کی لیاری یونیورسٹی میں بی اے فائنل ایئر کا طالب علم ہے لیکن یونیورسٹی میں اپنی شناخت چھپاتا ہے۔)

ہماری بنگالی کمیونٹی میں دینی تعلیم کا رواج زیادہ ہے۔ دنیاوی تعیلم پر کم فوکس ہے لیکن دس، بارہ سال سے لوگ دنیاوی تعلیم کی طرف توجہ دینے لگے ہیں۔

میں نے بھی پہلے اپنے مدرسے میں پڑھا۔ حافظِ قرآن ہوں، نو سال کی عمر میں حفظ کر لیا تھا۔ قاری بھی ہوں لیکن میں نے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم بھی جاری رکھی۔ چودہ، پندرہ سال کی عمر میں میں نے خود مدرسے میں پڑھانا شروع کر دیا۔

اب بھی بچوں کو آن لائن قرآن کی تعلیم دیتا ہوں۔ کینیڈا اور انگلینڈ میں میرے سٹوڈنٹ ہیں۔ کچھ ہفتے میں تین دن، کچھ پانچ دن درس لیتے ہیں۔ میں نے میٹرک مبشر چلڈرن اکیڈمی سے کیا۔ پھر ایف اے حاجی عبدل ہارون کالج سے کیا۔

ساری تعلیم اپنی مدد آپ کے تحت حاصل کی، پھر والد صاحب بوڑھے ہوئے تو تعلیم میں وقفہ آ گیا۔

اب لیاری یونیورسٹی میں بی اے فائنل ایئر میں ہوں، سیکنڈ ڈویژن آ ہی جائے گی۔

میرے والد صاحب کے پاس 1971 کا کراچی بورڈ کا میٹرک سرٹیفکیٹ ہے اسی لیے میرا کارڈ آرام سے بن گیا۔

پھر بھائی کے کارڈ کی باری آئی تو انھوں نے آئی بی کی انکوائری لگا دی۔ آئی بی نے کلیئر کر دیا اور بھائی کا کارڈ بن گیا۔ اب پچھلے سال بہنوں کے کارڈ بنوانے گیا تو انھوں نے کہا کہ میٹرک کا سرٹیفکیٹ جعلی ہے۔

بنگالی

’ہمارے لوگوں کے پاس دنیا جہان کے کاغذ ہیں۔ یہ لے کر ہم نادرا کے پاس جاتے ہیں تو ان کی آنکھیں باہر آ جاتی ہیں کہ جی دیکھو پھر بنگالی آ گیا‘

سنہ 2006 میں انکوائری ہو چکی تھی کہ میرے ابا نے کہاں کہاں نوکری کی ہے۔ سب صحیح ثابت ہو چکا تھا۔ اب بولے کہ سکینڈری بورڈ کراچی سے تصدیق کرواؤ۔

ایک مہینہ تصدیق میں لگا لیکن میرے سامنے جس افسر نے بیٹھ کر خط لکھا اس نے ڈیڑھ گھنٹہ یہ لکھنے میں لگا دیا کہ اس بنگالی کا میٹرک کا سرٹیفکیٹ صحیح ہے۔ وہ (افسر) ڈر رہا تھا کہ اس کی انکوائری نہ ہو جائے۔

مسئلہ صرف ایک ہے کہ ہم بنگالی ہیں۔

ہمارے لوگوں کے پاس دنیا جہان کے کاغذ ہیں۔ یہ لے کر ہم نادرا کے پاس جاتے ہیں تو ان کی آنکھیں باہر آ جاتی ہیں کہ جی دیکھو پھر بنگالی آ گیا۔ ہماری یہاں پر چوتھی نسل پل کر جوان ہو رہی ہے۔ لیکن ہم وہیں پر رکے ہوئے ہیں کہ ہم بنگالی ہیں ہمارا کچھ نہیں ہو سکتا۔

جس مسئلے کی وجہ سے بنگلہ دیش بنا تھا وہ تعصب آج بھی زندہ ہے

میں نے اپنی یونیورسٹی میں نہیں بتایا کہ میں بنگالی ہوں اگر بتاؤں گا تو تعلیم جاری نہیں رکھ سکوں گا۔ ہمیں اتنا ذہنی ٹارچر کیا گیا ہے کہ ہم اپنی زبان ظاہر نہیں کر سکتے۔ میرے بولنے سے لوگوں کو پتہ نہیں چلتا کہ میں بنگالی ہوں۔ میں اپنی زبان چھپا کر زندگی میں ترقی کر سکتا ہوں۔ جیسے ہی میں کہیں بتاؤں گا کہ میں بنگالی ہوں تو میری انکوائریاں شروع ہو جائیں گی۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہمارے اداروں کے کئی اہلکاروں کے گھر کا خرچہ ہماری دی ہوئی رشوتوں سے چلتا ہے۔

کئی ایسے خاندان ہیں جن کے سارے کاغذ کلیئر ہیں لیکن کسی ایک ممبر کا کارڈ بلاک کر دیتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ 1971 کے کاغذ لے کر آؤ۔

یہاں پر بنگالی ہونا جرم بن گیا ہے۔

ہمارے بڑوں نے کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اصل میں ہمارا کوئی بڑا ہے ہی نہیں۔ نہ کوئی افسر نہ کوئی ایلیٹ کلاس۔ کارڈّ نہیں بنے گا اور لوگ اپنی زبان چھپانے پر مجبور ہوں گے تو نوکری کہاں سے ملے گی۔ کوئی آگے کیسے بڑھے گا۔

بنگالی

بنگالی لڑکیوں میں تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے، کوئی ایک آدھ میٹرک یا انٹر پاس ہو گی (فائل فوٹو)

مچھر کالونی کے اس محلے میں ہم ڈھائی، تین لاکھ لوگ ہیں۔ میں گریجویٹ ہاتھ کی انگلیوں پر گِن سکتا ہوں۔ پانچ یا چھ ہوں گے مجھے ملا کر ہم نے بھی چھپ چھپ کر تعلیم حاصل کی۔ لڑکیوں کی تعلیم کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کوئی ایک آدھ میٹرک یا انٹر پاس ہو گی۔ اس لیے 90 فیصد لوگ فشریز یا فیکٹری میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔

میں نہیں چاہتا کہ اپنی زبان کو چھپا کر آگے جاؤں، میں کبھی نہیں کہوں گا کہ میں بنگالی نہیں ہوں۔ میں اردو بولتا ہوں۔ پاکستانی ہوں لیکن میں اپنی زبان کبھی نہیں چھپاؤں گا۔

ہماری کتنی ذہین بچیاں ہیں۔ نویں جماعت سے آگے نہیں پڑھ سکتیں۔

عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ ہمیں شہریت ملے گی۔ لوگوں میں امید پیدا ہوئی تھی جیسے پیاس سے مرنے والے کو پانی نظر آ جائے۔ لیکن پھر سب بھول گئے۔

آپ بتائیں کبھی کسی بنگالی کمیونٹی کے بندے نے پاکستان میں دہشت گردی کی ہو؟ کسی نے پاکستان میں رہ کر پاکستان کی مخالفت کی ہو۔ پھر ہمیں زندہ رہنے کیوں نہیں دیا جا رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).