بھوکے بچوں کا دست سوال کیا تقاضا کر رہا ہے؟


2000 میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں 32 فیصد بچوں کا قد عمر کے لحاظ سے چھوٹا تھا۔ کیونکہ ان میں سے اکثر کو مناسب خوراک نہیں مل سکی۔ 2018 میں یہ شرح کم ہو کر 22 فیصد رہ گئی۔ 2018 میں دنیا بھر کے پانچ سال سے کم عمربچوں میں 7 فیصد بچوں کا وزن ان کے قد کی نسبت کم تھا اور 6 فیصد کے قریب بچوں کا وزن ان کے قد کی نسبت زیادہ تھا۔ اور ایسے موٹے بچوں کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھ رہی ہے۔ دنیا میں چار کروڑ بچے ایسے ہیں جن کا وزن زیادہ ہے اور پانچ کروڑ بچے ایسے ہیں جن کا وزن کم ہے۔

اگر پہلے گروہ کی کچھ خوراک دوسرے گروہ کو منتقل کر دی جائے تو دونوں کا بھلا ہوجائے گا۔ دنیا میں جتنے چھوٹے قد کے بچے ہیں ان میں سے پانچ میں سے دو بچے جنوبی ایشیا میں رہتے ہیں۔ اور جنوبی ایشیا دنیا کا وہ واحد خطہ ہے جہاں پر 15 فیصد سے زائدہ بچوں کا وزن اپنے قد کی نسبت کم ہے۔ دنیا بھر میں جتنے ایسے بچے ہیں جن کا وزن ان کے قد کی نسبت کم ہے، ان میں سے آدھے سے زیادہ جنوبی ایشیا میں رہتے ہیں۔ گویا ہم اس لحاظ سے بد نصیب خطے میں رہ رہے ہیں۔

2018 میں ہی یہ اعداد و شمار سامنے آئے کہ پاکستان کے پانچ سال سے کم عمر بچوں میں سے چالیس فیصد کے قریب بچوں کا قد عمر کے لحاظ سے چھوٹا رہ گیا تھا۔ اور 18 فیصد بچوں کا وزن ان کے قد کی نسبت بھی کم تھا اور ملاحظہ کریں کہ پاکستان کے پانچ سال سے کم عمر بچوں میں سے 9 فیصد قد کے لحاظ سے موٹاپے کا شکار ہیں۔ گویا ہمارے فاقہ زدہ بچوں کی شرح بھی دنیا کی اوسط سے زیادہ ہے اور ہمارے موٹے بچوں کی شرح بھی دنیا کی اوسط سے زیادہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں بھارت کی طرح ہم اس میدان میں بھی دنیا کے کے لئے ایک بری مثال بن چکے ہیں۔ کسی اور کو اس کی فکر ہو یا نہ ہو ہمیں ضرور ہونی چاہیے۔ اگر ہم ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی مصروفیت سے کچھ وقت بچا کر اس مسئلہ کو دے دیں تو اس میں ہمارا ہی بھلا ہے۔

اب اس کا حل کیا ہے؟ کسی ماہر سے بھی پوچھ لیں وہ یہی کہے گا کہ کم بچے پیدا کرو اور ملک میں خوراک زیادہ پیدا کرو۔ پاکستانیوں کی آمد میں اضافہ کرو تو ہی یہ مسئلہ حل ہوگا۔ ٹھیک ہے یہ سب کچھ تو کرنا چاہیے۔ لیکن پہلے یہ جائزہ لے لیں کہ کیا دنیا میں اور ہمارے ملک میں ضرورت سے کم خوراک پیدا ہو رہی ہے؟ اب تک کے جائزے یہی بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ تو پھر کیا مسئلہ ہے؟

کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ دنیا بھر میں جتنی خوراک پیدا کی جاتی ہے اس کا کتنا حصہ انسانوں کے پیٹ میں جانے کی بجائے ضا ئع کر دیا جاتا ہے؟ ذرا تصور پیدا کریں کہ دنیا میں جتنی خوراک پیدا ہوتی ہے اس کا تیسرا حصہ ضائع کر دیا جاتا ہے۔ ضائع ہونے کا عمل کھیتوں سے شروع ہو کر گھر میں کھانے کی میز تک جاری رہتا ہے۔ کھیتوں میں پیداوار کو جمع کرنے کا عمل ناقص ہو تو پیداوار کا ایک حصہ وہاں پر ضائع ہو جاتا ہے۔ کھیتوں سے سٹور کرنے کی جگہ تک منتقلی کا انتظام صحیح نہیں ہوتا تو خوراک کا کچھ حصہ اس وجہ سے برباد ہوجاتا ہے۔

خوراک کو محفوظ کرنے کا عمل غیر سائنسی ہو تو ایک حصہ اس غفلت کی نذر ہوجاتا ہے۔ پھر خوراک کو پیک کرتے ہوئے معیار مقرر کیاجاتا ہے۔ ایک حصہ اس وجہ سے ضائع کیا جاتا ہے حالانکہ یہی خوراک کسی اور کے کام آسکتی ہے۔ سب سے اہم یہ کہ اس کے بعد گھر میں پکاتے ہوئے اور پھر کھاتے ہوئے کھانے کا ایک بڑا حصہ ہمارے پیٹ میں جانے کی بجائے کوڑے دان کی زینت بن جاتا ہے۔ اور جب یہ کچرا بڑھ جاتا ہے تو ہم شور مچانے لگتے ہیں کہ یہ ملک تو رہنے کے قابل نہیں۔

اسی طرح ایک تہائی ایسی خوراک تلف ہوجاتی ہے جسے بہت آسانی سے کسی کی بھوک مٹائی جا سکتی تھی۔ اس وقت بھی دنیا میں اتنی خوراک پیدا ہو رہی ہے جو دنیا بھر کے انسانوں کی ضرورت آسانی سے پورا کر سکتی ہے بلکہ زیادہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں 80 کروڑ افراد خوراک کی قلت کی چکی میں پس رہے ہیں۔

دنیا میں سب سے زیادہ خوراک شمالی امریکہ اور یورپ میں ضائع ہوتی ہے۔ امریکہ میں ایک شخص ایک سال میں تین سو کلو گرام خوراک ضائع کرتا ہے۔ اس میں سے تیسرا حصہ دکان میں پہنچنے کے بعد ضائع ہوتا ہے۔ ایشیا میں ایک شخص ایک سال میں 120 کلو گرام خوراک ضائع کرتا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں کم خوراک ضائع کی جاتی ہے لیکن اس وقت ترقی پذیر ممالک میں بھی ہر سال 310 ارب ڈالر کی خوراک ضائع کی جاتی ہے۔ اپنی دولت ضائع کرنے کے بعد ہم کشکول لے کر کبھی ایک دروازے پر جاتے ہیں اور کبھی دوسرے دروازے پر جاتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں ہر سال صرف سوا ارب ٹن خوراک ہی ضائع نہیں کی جا رہی۔ بلکہ اس خوراک کو حاصل کرنے کے لئے پانی کی کثیر مقدار خرچ ہوتی ہے، وہ بھی ضائع ہو جاتی ہے۔ اور دنیا میں اس وقت پانی کی شدید قلت ہے۔ ایک تہائی زراعت کے قابل رقبہ اور اس پر ہونے والی کوشش ضائع جاتی ہے۔

پاکستان میں 60 فیصد افراد ایسے ہیں جنہیں خوراک کی قلت کا کم از کم کبھی نہ کبھی خطرہ رہتا ہے۔ اس کے باوجود ایک تحقیق کی مطابق پاکستان میں پکنے والے کھانے میں سے چالیس فیصد خوراک ہمارے پیٹوں میں نہیں جاتی بلکہ ضائع ہوجاتی ہے۔ اس تحقیق سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں غربت کے با وجود خوارک کا بہت بڑا حصہ ضائع ہوجاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں ایک اعلیٰ درجے کے ریستوران میں روزانہ 56 کلو گرام خوارک ضائع کیا جاتی ہے۔

ہمارے ملک میں یہ مسئلہ تو بہر حال موجود ہے۔ لیکن ہمیں یہ عادت ہے کہ جب کوئی مسئلہ سامنے آئے تو حکومت کو برا بھلا کہہ کر فارغ ہوجاتے ہیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں اپنی ذات سے اصلاح کا کام شروع کرنا چاہیے۔ کھانا اس طرح بھی پکایا جا سکتا ہے کہ خوارک ضائع نہ جائے۔ کھانا اتنا ہی تیار کرنا چاہیے جتنا ہم کھا سکتے ہیں۔ تاکہ بعد میں اسے کوڑا دان میں پھینک کر ملک میں کچرے کے مسئلہ میں اضافہ نہ کرنا پڑے۔ کھانے کے معاملے میں اپنے خود ساختہ معیار کو اتنا اوپر نہ لے جائیں کہ ہمیں قیمتی خوارک کا ایک بڑا حصہ ضائع کرنا پڑے۔

جو چیز ہمیں نخروں کی وجہ اپنے لئے غیر معیاری لگ رہی ہے، وہ کسی اور انسان کے کام آ سکتی ہے۔ اگر ہم سوچیں تو اپنے گردو نواح میں کئی لوگ ایسے نظر آ جائیں گے جو اسے شوق سے استعمال کر یں گے۔ ایسی رضا کارانہ تنظیمیں زیادہ فعال ہو سکتی ہیں جو گھروں سے بچ جانے والا کھانا جمع کر کے فوری طور پر مستحقین تک پہنچا سکیں۔ خوارک کو بچانے کے لئے سائنسی طریقے بھی ضرور استعمال کیے جائیں لیکن آپ پہلا قدم آج سے بھی اُٹھا سکتے ہیں۔ اس کے لئے آپ کو کسی انقلاب کی ضرورت نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments