دعا زہرہ کیس سے کیا سبق لیا جائے


سپریم کورٹ نے بھی دعا زہرہ کیس پر قلم چلا دیا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عدالت کے فیصلے کو تسلیم کر لیا جائے، لیکن معاملہ یہ ہے کہ سماجی میڈیا اب بھی میدان جنگ بنا ہوا ہے، بلکہ شور اور لعن طعن کا سلسلہ دراز ہو گیا ہے۔ ملک کے دو بڑے فرقوں کے ماننے والے واضح طور پر گروہوں میں تقسیم ہو کر ساری انتہائیں پار کر چکے ہیں۔ خیر سماجی میڈیا پر اخلاقی گراوٹ کے یہ مظاہرے ہم پہلی بار نہیں دیکھ رہے لیکن یہ اپنی جگہ سچ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی لوگوں کا چیخنا چلانا سمجھ سے باہر ہے۔

یہ وہی لوگ ہیں جو عدالتی فیصلوں پر پہلے یہ کہہ کر چیختے تھے کہ قانون طاقت ور اور دولت مند کا ساتھ دیتا ہے، لیکن اس کیس میں اگر قانون نے ان کا ساتھ دیا جن کے پاس نہ پہننے کو ڈھنگ کے کپڑے اور نہ رہنے کو طریقے کی چھت میسر ہے، بولنے کا سلیقہ ہے نہ آنکھوں میں اعتماد، جس لڑکے کی کم تر حیثیت کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے عوام سے خواص تک سب مذاق اڑا رہے تھے۔ اگر عدالت نے غربت کو نظر انداز کر کے قانون کے مطابق فیصلہ کر دیا تو پھر موقع چلانے کا نہیں بلکہ اداروں پر مکمل یقین اور بھروسا کر کے آگے بڑھنے کا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے طور پر دعا زہرہ کا باب بند کر دیا ہے لیکن اس وقت کچھ اہم باتیں ہیں جن کو سمجھنا اور سبق لینا بنا کسی بغض اور مسلکی اختلاف کے ہم سب کے لیے ضروری ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ مستقبل میں بھی ایسے واقعات کے رونما ہونے پر کو کوئی بھی معاشرہ بند نہیں باندھ سکتا۔ دعا زہرہ کا کیس ہر گز کوئی نیا کیس نہیں اور نہ یہ کوئی چونکنے والی بات تھی ہاں اس کیس میں اگر کوئی نئی بات تھی تو وہ دعا کے والدین کا ردعمل تھا۔

انہوں نے اس معاملے پر سمجھوتا کرنے اور معاملہ فہمی کا ثبوت دینے کے بجائے شور مچانے کو ترجیح دی۔ اپنا کھونٹا کمزور ہونے کا اعتراف کرنے کے بجائے ان کی پہلی کوشش معاملے کو مسلکی اور پھر اغوا کا رنگ دینے کی رہی لیکن قانون اندھا ہونے کے باوجود شاید اتنا اندھا نہیں کہ کسی کی بھی پکڑائی ہوئی لاٹھی کے سہارے چلنا شروع کردے۔

رہی بات ان دستاویزات کی جو دعا کے والد پہلے دن سے دعا کی عمر کے حوالے سے بہ طور ثبوت پیش کر رہے ہیں تو ہم سب اس قوم کے المیے سے واقف ہیں کہ بچوں کے کاغذات میں درست عمر سے کئی سال کم اندراج کروانے کا روایت پوری طرح موجود ہے۔ دو تین سال کی ڈنڈی تو بہت آسانی سے مار دی جاتی ہے لہذا ان دستاویزات کے سامنے میڈیکل رپورٹ کے ذریعے عمر کے تعین کو ہی اہمیت دینا قانون کی ترجیح ہونا چاہیے تھی اور ایسا ہی کیا گیا۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہر سانحہ رونما ہونے کے بعد کوتاہی اور لاپروائی کا الزام لگا کر ملامت کی جاتی ہے لیکن اگر وہ کسی سانحے سے بچنے کے لیے پہلے سخت اقدامات کریں تو ان کو کوسا پیٹا جاتا ہے۔ یہی معاملہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب سخت سیکیورٹی میں بچی کو عدالت لایا گیا، حتٰی کہ والدین سے بھی اکیلے میں نہیں ملنے دیا گیا۔ سائے کی طرح پولیس اہل کار ساتھ لگے رہے۔ کیوں؟ اس سوال پر والدین کے جذبات کا احترام کرنے کے باوجود ماضی میں جھانکنا پڑے گا کہ کیا ہم نے اپنے گھٹن زدہ معاشرے کی تاریخ میں ایسے مناظر نہیں دیکھے کہ جب عدالت نے جوڑے کے حق میں فیصلہ دیا تو کتنے ہی واقعات میں ان کے گھر والوں میں سے ہی کسی نے ان کی لاش عدالت کے احاطے میں ہی بچھا کر وکٹری کا نشان بنایا اور غیرت مند ہونے کا زبردست ثبوت پیش کیا۔

دعا زہرہ کے واقعے میں بچوں کو ملامت کیجیے، بے شک کیجیے۔ لیکن ساتھ دعا کے والدین کے کردار پر بھی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے جنہوں نے میڈیا کے سامنے خود کو بہترین اور مثالی والدین کے روپ میں پیش کیا جب کہ ہم سب والدین کے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس دور میں کہیں نہ کہیں بچوں کی تربیت میں کوتاہی برت رہے ہیں ور ان کو وہ وقت اور اعتماد نہیں دے پاتے جو ان کی تربیت کا اہم جزو ہے۔ پھر بار بار میڈیا پر اس بات کا ذکر آنا کہ دعا زہرہ کا اسکول کئی سال پہلے چھڑوایا جا چکا تھا۔ اس بات کا کوئی شافی جواب والدین کی طرف سے نہیں دیا گیا بلکہ بار بار اس موضوع سے وہ کنی کترا کر نکل گئے، جب کہ خود کو تعلیم یافتہ اور مہذب قرار دینے والے والدین کا اپنی بیٹی کو آج کے دور میں اسکول نہ بھیجنا کوئی معمولی بات نہیں۔

والدین کی نیت کا کھوٹ اس پورے معاملے میں واضح طور پر جھلکتا رہا وہ بچی کی واپسی کے لیے آغاز سے ہی مسلکی حمایت کے خواہاں رہے۔ ابتدا میں یہ بیان کہ مسجد انتظامیہ نے گم شدگی کا اعلان کرنے سے منع کر دیا، اسی نیت کا صاف اظہار تھا۔ کتنی عجیب سی بات ہے کہ بچوں کی خوشیوں میں کبھی معاشرہ رکاوٹ بنتا ہے تو کبھی مذہبی اور مسلکی تفاوت آڑے آ جاتا ہے۔ میں نے اپنی اب تک کی زندگی میں کتنے ہی اہل تشیع گھرانے ایسے دیکھے جہاں سنی گھرانوں کی لڑکیاں بہ طور بہو بیاہ کر گئیں اور بہت آسودہ زندگی گزاری۔

بہو ہوں یا داماد، ان کے اور آپ کے معیار زندگی یا مسلک میں اختلاف ہی کیوں نہ ہو، بچوں کی خوشی ہی والدین کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ لیکن افسوس اب یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول نہیں کر سکتے، لہذا دونوں مسالک کے مفتیوں کو بٹھا کر فتوی لیا جائے گا۔ اس اعلان پر سمجھ نہیں آ رہا کہ ہنسوں یا روؤں۔

میرے نزدیک قانون سے متصادم ہو کر اپنی شریعت قائم کرنے سے بہتر ہے کہ اگر آپ کو قانون میں کوئی کمی یا کجی محسوس ہوتی ہے تو اس میں اصلاح کے لیے کوشش کی جائے۔ ہمارے یہاں ”اللہ کے فضل و کرم سے“ دینی طبقے کا قانون سازی میں ایک بڑا کردار رہا ہے اور دعا زہرہ کا کیس بہت سارے پہلوؤں سے سوالیہ نشان کھڑے کرچکا ہے، مستقبل میں کیا بعید کسی اور بچی کو ہمت ملے اور وہ سماج کی پروا کیے بغیر یہ قدم اٹھا کر پھر کوئی بحث چھڑنے کا باعث بن جائے تو کیوں نہ دونوں مسالک کے علما اپنے فروعی اختلافات بھلا کر قرآن اور سنت کی روشنی میں کسی ایک نکتے پر اتفاق کریں اور پھر اسے قانونی حیثیت دلوانے کی کوشش کریں تاکہ بعد میں کسی کی جگ ہنسائی نہ ہو، نہ قانون کی رٹ پامال ہو اور نہ شرعی اختلافات پر گریبان کھینچے جائیں۔

لیکن موجودہ دعا زہرہ کیس جو کہ اب رونما ہو چکا ہے، اور اس پر دونوں مسالک کے اپنے اپنے فتوے اور تحفظات موجود ہیں، کوئی کسی کی بات سننے اور ماننے کو تیار نہیں، تو بہتر ہے کہ عدالت کے فیصلے کا احترام کیا جائے۔ بچوں کو سکون سے ان کی زندگی جینے دی جائے۔ یہ سچ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر کتنی ہی بچیاں گھروں سے چلی جاتی ہیں، ان میں سے اکثر بچیاں عاشق کے ساتھ فرار نہیں ہوتیں بلکہ وہ اس گھٹن سے فرار ہوتی ہیں جس کا مظاہرہ ہم دعا کے والدین کی انا اور سوشل میڈیا پر عوامی سر پھٹول کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ ایسے معاشرے میں بچیوں کو اپنی طرف بڑھنے والا کوئی بھی ہاتھ نعمت سے کم نہیں لگتا اور بچیاں نادانی میں اسے مسیحا سمجھ کر دہلیز پار کر جاتی ہیں۔ یہ الگ بات کہ ان کے قدموں کے پیچھے کئی سوال معلق رہ جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments