Corona Virus: جنوبی کوریا میں کورونا وائرس چند لوگوں کے لیے ’معاشرتی بدنامی‘ کا باعث کیسے بن رہا ہے؟


کورونا

BBC
</figure>&#1580;&#1606;&#1608;&#1576;&#1740; &#1705;&#1608;&#1585;&#1740;&#1575; &#1605;&#1740;&#1722; &#1705;&#1608;&#1585;&#1608;&#1606;&#1575; &#1608;&#1575;&#1574;&#1585;&#1587; &#1587;&#1746; &#1605;&#1578;&#1575;&#1579;&#1585;&#1729; &#1575;&#1601;&#1585;&#1575;&#1583; &#1705;&#1740; &#1578;&#1593;&#1583;&#1575;&#1583; &#1605;&#1587;&#1604;&#1587;&#1604; &#1576;&#1681;&#1726; &#1585;&#1729;&#1740; &#1729;&#1746; &#1575;&#1608;&#1585; &#1593;&#1608;&#1575;&#1605; &#1705;&#1746; &#1578;&#1581;&#1601;&#1592; &#1705;&#1746; &#1662;&#1740;&#1588;&#1616; &#1606;&#1592;&#1585; &#1581;&#1705;&#1608;&#1605;&#1578; &#1604;&#1608;&#1711;&#1608;&#1722; &#1705;&#1608; &#1570;&#1711;&#1575;&#1729; &#1705;&#1585; &#1585;&#1729;&#1740; &#1705;&#1729; &#1570;&#1740;&#1575; &#1608;&#1729; &#1605;&#1575;&#1590;&#1740; &#1602;&#1585;&#1740;&#1576; &#1605;&#1740;&#1722; &#1705;&#1608;&#1608;&#1616;&#1672; 19 &#1587;&#1746; &#1605;&#1578;&#1575;&#1579;&#1585;&#1729; &#1705;&#1587;&#1740; &#1605;&#1585;&#1740;&#1590; &#1705;&#1746; &#1602;&#1585;&#1740;&#1576; &#1578;&#1608; &#1606;&#1729;&#1740;&#1722; &#1578;&#1726;&#1746;&#1748;

مگر وائرس سے متاثرہ افراد کی ذاتی معلومات عوام کو فراہم کرنا ایسے رد عمل کو بھی جنم دے رہا ہے جس کے باعث اب کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو معاشرتی بدنامی کا خوف بھی لاحق ہو گیا ہے۔

کورونا وائرس کے ساتھ معاشرتی بدنامی کا خوف کیسے؟ پڑھیے بی بی سی نیوز کوریا کے نمائندے یونگ کِم کی اس رپورٹ میں۔

میں گھر بیٹھی تھی جب میرے موبائل فون پر حکومت کی جانب سے ہنگامی الرٹ موصول ہونا شروع ہوئے۔

خطرے سے آگاہی کے اس پیغام میں لکھا تھا ’ڈسٹرکٹ نوؤن کے رہائشی 43 سالہ شخص میں کورونا وائرس کی تصدیق ہو گئی ہے۔‘

یہ بھی بتایا گیا تھا کہ یہ شخص وائرس سے اس وقت متاثر ہوا جب وہ ماپو ڈسٹرکٹ میں جنسی ہراسانی سے متعلق ہونے والی ایک کلاس میں موجود تھا۔ پیغام میں لکھا تھا کہ انھیں یہ وائرس اپنی کلاس کے انسٹرکٹر سے لگا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟

کورونا وائرس پر بی بی سی اردو کا خصوصی ضمیمہ

جنوبی کوریا کے پادری کی کورونا وائرس پھیلانے پر معافی

اس کے بعد فون پر مجھے رات 11 بجے تک اور بہت سے پیغامات موصول ہوئے جن میں بتایا گیا کہ وائرس سے متاثرہ نئے مریضوں کو یہ وائرس کس مقام پر لگا۔ ان مقامات میں مقامی شراب خانے بھی شامل تھے۔

یہ پیغامات ہر روز مسلسل موصول ہو رہے ہیں اور ان کے ذریعے متاثرہ افراد کی مخصوص مقامات پر موجودگی اور وقت کے بارے میں آگاہ کیا جا رہا ہے۔

جنوبی کوریا میں وزارتِ صحت اور سماجی بہبود کی ویب سائٹ پر بھی مریضوں کے حوالے سے معلومات دستیاب ہیں۔

اگرچہ ویب سائٹ پر متاثرہ افراد کے نام اور پتے نہیں دیے گئے مگر پھر بھی کچھ لوگ ظاہر کی گئی معلومات کو جوڑ کر متاثرہ افراد کی اصلیت جاننے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ ان معلومات کی بنیاد پر جنوبی کوریا کی عوام یہ جاننے میں بھی کامیاب رہی ہے کہ متاثرہ افراد میں سے دو مردوں کا عشق محبت کا چکر بھی چل رہا تھا۔

یہاں تک کہ اگر مریضوں کی اصل شناخت نہ بھی ہو پائے پھر بھی انھیں آن لائن تضحیک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

کورونا

BBC
کوریا کی عوام کو حکومت سے موصول ہونے والے خطرے سے آگاہی کے پیغامات

جب آپ آن لائن وائرس سے متاثرہ کسی شخص کا ’مریض نمبر‘ آن لائن سرچ کرتے ہیں تو اس سے متعلقہ سوالات میں مریض کی ’ذاتی معلومات، شکل، تصویر، خاندان‘ شامل ہوتے ہیں۔

چند آن لائن صارفین اس طرح کی آرا بھی دے رہے ہیں کہ ’مجھے معلوم ہی نہ تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ ’لوو ہوٹل‘ جاتے ہیں۔‘ لوو ہوٹل جوڑوں میں کافی مقبول ہیں جہاں پورے دن کے علاوہ مختصر دورانیے کے لیے بھی کمرے دستیاب ہوتے ہیں۔

صارفین مذاق میں یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ مرد جو اپنی بیویوں کے ساتھ دھوکہ دہی کرتے ہیں وہ آج کل زیادہ باہر نہیں نکل رہے ہیں۔

حکومت کی جانب سے بھیجے جانے والے آگاہی کے ایسے ہی پیغامات نے حال ہی میں گومی سے تعلق رکھنے والی ایک 27 سالہ خاتون کو پریشان کر دیا۔

18 فروری کو رات ساڑھے گیارہ بجے وہ اپنے بوائے فرینڈ سے ملیں۔ خاتون کو ملنے سے قبل ان کا بوائے فرینڈ شِنچیونجی نامی مذہبی فرقے کی ایک تقریب میں گیا تھا۔ یاد رہے کہ جنوبی کوریا میں اس مذہبی فرقے کو ملک میں کورونا وائرس بڑے پیمانے پر پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔

بعد ازاں شہر کے میئر جانگ سی یونگ نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ کے ذریعے مطلع کیا کہ ان خاتون کا خاندانی نام ’چا‘ ہے۔

یہ تفصیل سامنے آنے کے بعد گومی میں رہائش پذیر افراد میں خوف پھیل گیا اور انھوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے میئر سے پوچھا ’ہمیں اس خاتون کی بلڈنگ، اپارٹمنٹ کے بارے میں بتائیے۔‘

میئر کی جانب سے خاتون کا نام افشا کرنے اور عوام کی جانب سے مزید سوالات پوچھے جانے کے بعد متاثرہ خاتون نے اپنے فیس بک پر لکھا کہ ’برائے مہربانی میری ذاتی معلومات نہ پھیلائی جائیں۔‘

’میں اپنے دوستوں اور خاندان کے دیگر افراد کے لیے رنجیدہ ہوں کیونکہ انھیں اس سے تکلیف ہو گی۔ (جسمانی درد) سے کہیں زیادہ یہ نفسیاتی طور پر تکلیف دہ ہے۔‘

سنہ 2015 میں پھیلنے والے ایک وبائی مرض ’مرس‘ کے بعد جنوبی کوریا میں مریضوں کی معلومات عوامی سطح پر شیئر کرنے کے حوالے سے موجود قوانین میں نمایاں تبدیلی آئی تھی۔

سعودی عرب کے بعد جنوبی کوریا میں مرس کے سب سے زیادہ کیس تھے۔ اور جب یہ وبا پھیلی تھی تو جنوبی کوریا کی حکومت پر مریضوں کی تفصیلات خفیہ رکھنے کی وجہ سے کافی تنفید ہوئی تھی۔

اس کے بعد وباؤں پر ہونے والی تفتیش اور تحقیق کو بہتر کرنے کے لیے مریضوں کی معلومات کے حوالے سے موجود قوانین میں ترمیم کی گئی تھی۔

بی بی سی کوریا سے بات کرتے ہوئے ’کوریا سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول پریوینشن‘ کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ ’ہم (مریضوں کے) ذاتی ڈیٹا کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔ سب سے پہلے ہم مریضوں کے انٹرویو کرتے ہیں اور ان کی معلومات اکھٹی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس سے دیگر افراد کی صحت اور حفاظت متاثر ہوتی ہے۔‘

انھوں نے مزید بتایا ’اور پھر ان معلومات کو حاصل کرنے کے لیے، جو مریض ہمیں نہیں بتاتے، ہم جی پی ایس ڈیٹا، خفیہ کیمروں کی تصاویر اور کریڈٹ کارڈ کی ٹرانزیکشن کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ پتا چلایا جا سکے کہ مریض وبا کی علامات ظاہر ہونے سے قبل کہاں کہاں گیا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا وہ ہر اس جگہ کی معلومات افشا نہیں کرتے جہاں جہاں مریض گیا تھا۔

’ہم عوام کے ساتھ صرف ان ہی جگہوں کی تفصیلات شیئر کرتے ہیں جہاں سے انفیکشن پھیل سکتا ہے یا عوامی مقامات جہاں بہت سے لوگ موجود ہیں اور جہاں مریض نے ماسک نہیں پہنا ہوتا تھا۔‘

مگر بعض اوقات حکام مخصوص سٹور اور دکانوں کا نام عوامی سطح پر شیئر کر دیتے ہیں جس کے باعث بزنس مالکان کو مخصوص مدت کے لیے دکان بند کرنا پڑتی ہے اور معاشی نقصان ہوتا ہے۔

جنوبی کوریا میں کووِڈ وائرس کے پانچ ہزار سے زائد تصدیق شدہ کیس موجود ہیں جبکہ جنوبی کوریا میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 30 سے زیادہ ہے۔

تاہم اس وائرس کے صحت پر پڑنے والے اثرات کم ہونے کے باعث اب جنوبی کوریائی باشندے وائرس سے زیادہ بدنامی سے ڈرتے ہیں۔

کورونا

Getty Images
</figure><p>&#1587;&#1740;&#1608;&#1604; &#1606;&#1740;&#1588;&#1606;&#1604; &#1740;&#1608;&#1606;&#1740;&#1608;&#1585;&#1587;&#1657;&#1740; &#1587;&#1705;&#1608;&#1604; &#1570;&#1601; &#1662;&#1576;&#1604;&#1705; &#1729;&#1740;&#1604;&#1578;&#1726; &#1705;&#1740; &#1575;&#1740;&#1705; &#1585;&#1740;&#1587;&#1585;&#1670; &#1657;&#1740;&#1605; &#1606;&#1746; &#1581;&#1575;&#1604; &#1729;&#1740; &#1605;&#1740;&#1722; &#1575;&#1740;&#1705; &#1729;&#1586;&#1575;&#1585; &#1705;&#1608;&#1585;&#1740;&#1575;&#1574;&#1740; &#1576;&#1575;&#1588;&#1606;&#1583;&#1608;&#1722; &#1587;&#1746; &#1583;&#1585;&#1740;&#1575;&#1601;&#1578; &#1705;&#1740;&#1575; &#1705;&#1729; &#1575;&#1606;&#1726;&#1740;&#1722; &#1606;&#1740;&#1670;&#1746; &#1662;&#1608;&#1670;&#1726;&#1740; &#1711;&#1574;&#1740; &#1578;&#1740;&#1606; &#1576;&#1575;&#1578;&#1608;&#1722; &#1605;&#1740;&#1722; &#1587;&#1746; &#1587;&#1576; &#1587;&#1746; &#1586;&#1740;&#1575;&#1583;&#1729; &#1672;&#1585; &#1705;&#1587; &#1670;&#1740;&#1586; &#1587;&#1746; &#1604;&#1711;&#1578;&#1575; &#1729;&#1746;&#1748;</p>  <ul>    <li>&#1575;&#1606; &#1705;&#1746; &#1575;&#1585;&#1583; &#1711;&#1585;&#1583; &#1605;&#1608;&#1580;&#1608;&#1583; &#1608;&#1729; &#1575;&#1601;&#1585;&#1575;&#1583; &#1580;&#1608; &#1705;&#1608;&#1585;&#1608;&#1606;&#1575; &#1705;&#1746; &#1605;&#1585;&#1740;&#1590; &#1729;&#1608; &#1587;&#1705;&#1578;&#1746; &#1729;&#1740;&#1722;</li>    <li>&#1608;&#1575;&#1574;&#1585;&#1587; &#1587;&#1746; &#1605;&#1578;&#1575;&#1579;&#1585; &#1729;&#1608;&#1606;&#1746; &#1705;&#1740; &#1589;&#1608;&#1585;&#1578; &#1605;&#1740;&#1722; &#1729;&#1608;&#1606;&#1575; &#1608;&#1575;&#1604;&#1575; &#1605;&#1586;&#1740;&#1583; &#1606;&#1602;&#1589;&#1575;&#1606; &#1575;&#1608;&#1585; &#1578;&#1606;&#1602;&#1740;&#1583;</li>    <li>&#1588;&#1575;&#1740;&#1583; &#1575;&#1606; &#1605;&#1740;&#1722; &#1592;&#1575;&#1729;&#1585;&#1740; &#1593;&#1604;&#1575;&#1605;&#1575;&#1578; &#1605;&#1608;&#1580;&#1608;&#1583; &#1606;&#1729; &#1729;&#1608;&#1722; &#1605;&#1711;&#1585; &#1608;&#1729; &#1608;&#1575;&#1574;&#1585;&#1587; &#1705;&#1575; &#1588;&#1705;&#1575;&#1585; &#1729;&#1608;&#1722;</li>  </ul><p>&#1662;&#1585;&#1608;&#1601;&#1740;&#1587;&#1585; &#1740;&#1608; &#1605;&#1740;&#1740;&#1608;&#1606;&#1575;&#1711; &#1587;&#1608;&#1606; &#1705;&#1740; &#1587;&#1585;&#1575;&#1576;&#1585;&#1575;&#1729;&#1740; &#1605;&#1740;&#1722; &#1576;&#1606;&#1606;&#1746; &#1608;&#1575;&#1604;&#1740; &#1575;&#1587; &#1585;&#1740;&#1587;&#1585;&#1670; &#1657;&#1740;&#1605; &#1705;&#1608; &#1662;&#1578;&#1575; &#1670;&#1604;&#1575; &#1705;&#1729; &#1586;&#1740;&#1575;&#1583;&#1729; &#1578;&#1585; &#1575;&#1601;&#1585;&#1575;&#1583; &#1608;&#1575;&#1574;&#1585;&#1587; &#1587;&#1746; &#1605;&#1578;&#1575;&#1579;&#1585; &#1729;&#1608;&#1606;&#1746; &#1705;&#1740; &#1589;&#1608;&#1585;&#1578; &#1605;&#1740;&#1722; &#1729;&#1608;&#1606;&#1746; &#1608;&#1575;&#1604;&#1746; &#1605;&#1586;&#1740;&#1583; &#1606;&#1602;&#1589;&#1575;&#1606; &#1575;&#1608;&#1585; &#1578;&#1606;&#1602;&#1740;&#1583; &#1587;&#1746; &#1587;&#1576; &#1587;&#1746; &#1586;&#1740;&#1575;&#1583;&#1729; &#1582;&#1608;&#1601; &#1586;&#1583;&#1729; &#1729;&#1740;&#1722;&#1748; 

ایک شخص نے فیس بک پر ایک طویل اور جذباتی پوسٹ لکھ کر لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ان پر الزام تراشی بند کریں۔ اس شخص کی والدہ، اہلیہ اور دو بچے وائرس سے متاثر ہوئے تھے۔

انھوں نے لکھا ’مجھے معلوم نہیں تھا کہ میری والدہ شِنچیونجی (چرچ) کی پیروکار تھیں۔‘ انھوں نے اپنی اہلیہ کا دفاع بھی کیا۔ ان کی اہلیہ ایک نرس ہیں اور انھیں اس وجہ سے تنقید کا سامنا ہے کہ جب ان میں وائرس پنپ رہا تھا تو اس دوران وہ بہت سے جگہوں پر گئیں۔

ان کے شوہر نے لکھا بطور نرس ان کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ جسمانی طور پر معذور افراد کے ہمراہ کلینکس تک جائیں اور ان (اہلیہ) کو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ وائرس سے متاثرہ ہیں۔

’یہ سچ ہے کہ میری اہلیہ بہت سے جگہوں پر گئیں مگر برائے مہربانی انھیں برا بھلا کہنا بند کریں۔ ان کی واحد غلطی مجھ جیسے شخص سے شادی کرنا ہے، نوکری کرنا اور ہمارے بچوں کی دیکھ بھال کرنا ہے۔‘

ڈاکٹروں نے تنبیہ کی ہے کہ متاثرہ افراد کا آن لائن پیچھا کرنے کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

جنوبی کوریا میں آن لائن تبصروں کی موجودگی ایک طویل عرصے سے مسئلہ رہا ہے۔ ایسے ہی نامناسب تبصرے لوگوں کے خودکشی کرنے کا باعث بھی بنتے رہے ہیں۔

گویانگ میں مییانگجی ہسپتال کے ماہر نفسیات لِی سو یونگ نے بی بی سی کوریا کو بتایا کہ میرے بہت سے مریض ’وائرس کا شکار ہو کر مرنے سے زیادہ الزام تراشی سے خوف زدہ ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ بہت سے مریضوں نے انھیں بارہا بتایا ہے کہ ’میرا ایک جاننے والا میری وجہ سے وائرس سے متاثر ہوا‘ یا ’میری وجہ سے ایک شخص کو الگ تھلگ رکھا گیا ہے۔‘

یاد رہے کہ مییانگجی ہسپتال ہی وہ جگہ ہے جہاں دو ایسے افراد کا علاج کیا گیا ہے جن پر بدکاری کے الزامات لگے ہیں۔

اس حوالے سے ہونے والے آن لائن تبصروں کی وجہ سے ان میں سے ایک شخص کو شدید ذہنی دباؤ اور نیند کی کمی کا سامنا ہے۔

یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اور یہ بہت ضروری ہے کہ عوام کو وہ ضروری آگاہی فراہم کی جائے جس کی مدد سے وہ اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔

مگر ڈاکٹر لِی کا کہنا ہے کہ عوام کو دستیاب معلومات کی بنیاد پر عقلمندانہ ردعمل دینا چاہیے وگرنہ ’وہ افراد، جنھیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ مریض ہونے کی بنیاد پر ان کے بارے میں آرا قائم کی جائیں گی، وہ چھپ جاتے ہیں اور اپنے ارد گرد موجود تمام افراد کے لیے مزید خطرات کا باعث بن سکتے ہیں۔‘

کوریا سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول پریوینشن کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ حکومت نے متاثرہ اشخاص کی اتنی زیادہ معلومات عوامی سطح پر فراہم کی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’وائرس کے پھیلاؤ میں خاتمے کے بعد معاشرتی جائزے کے ذریعے دیکھا جائے گا کہ آیا (ایسا کرنا) مناسب اور مؤثر تھا؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp