عورت مارچ اور میرا جسم میری مرضی


پاکستان اس وقت ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ بے روزگاری، غربت، مہنگائی سے عوام بدحال ہیں اس پر کبھی طوفان برپا نہیں ہوا۔ لیکن جب بھی عورت مارچ ہونے لگتا ہے پاکستان میں طوفان برپا ہوجاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے قیامت برپا ہوگئی ہے۔ عورت مارچ ہوگیا تو پتہ نہیں کیا ہو جائے گا۔ خلیل الرحمان قمر اور ماروی سرمد کے درمیان ٹی وی پر جو لڑائی ہوئی اور جس طرح کی گالی گلوچ دیکھنے اور سننے کو ملی وہ مناظر پاکستان کے کروڑوں عوام بھرپور انداز میں انجوائے کررہے ہیں۔

خلیل الرحمان دی ریٹنگ مین اب میرے پاس تم ہو ڈرامہ کے بعد گالی گلوچ کی دنیا میں بھی بے تاج بادشاہ بن چکے ہیں۔ پورے پاکستان میں ان کی گالیاں دھڑا دھڑ فروخت ہورہی ہیں۔ یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر لاکھوں مرتبہ اعلی اخلاق سے مزین یہ کلپس چلائے جارہے ہیں۔ لوگ انجوائے کررہے ہیں کہ کیا کمال انسان ہے اور کس بہادری سے اس نے ایک خاتون کو تگڑی گالیاں دی اور دنیا بھر میں انہوں نے پاکستانی مردوں کا سر فخر سے بلند کردیا۔

خلیل الرحمان قمر صاحب نے ببانگ دہل فرمایا کہ میرا جسم میری مرضی ایک گھٹیا اور غلظ نعرہ ہے جس کے بہت ساری تشریحات کی جاسکتی ہیں۔ خلیل صاحب درست فرماتے ہیں کیونکہ ان کے دماغ میں اس نعرے کے حوالے سے گھٹیا تشریح نکل کے آئی اس لئے انہوں نے کہہ دیا یہ گھٹیا نعرہ ہے۔ سوشل میڈیا پر ماروی سرمد صاحبہ اور خلیل صاحب کے حامی ایک دوسرے سے تیسری جنگ عظیم لڑنے میں مصروف ہیں۔ اس جنگ میں بیچاری عورت کو خوب رگڑا جارہا ہے۔

میرا جسم میری مرضی پر گالم گلوچ کا بازار گرم ہے۔ مولانا فضل الرحمان صاحب جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے آزادی مارچ کا اہتمام کیا تھا انہوں نے تو اعلان جنگ کردیا ہے۔ جلسہ عام سے خطاب میں آزادی مارچ کے چیمپئن مولانا فضل ارحمان نے فرمایا کہ اس عورت مارچ کے خلاف ان کے کارکن ڈٹ جائیں اور ان عورت مارچ والوں سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہوجائیں۔ یہ ہیں آزادی مارچ والے مولانا صاحب جنہیں اس وقت جمپوریت اور آزادی رائے کا سب سے بڑا چیمپئین کہا جاتا ہے۔

اہم سوال یہ ہے کہ کیا جس طرح کی گالم گلوچ کا مظاہرہ خلیل صاحب نے فرمایا کیا یہ ٹھیک تھا؟ کیا عوام ٹی وی پر ایسی گالم گلوچ سننا چاہتے ہیں؟ کیا ٹی وی پر اس طرح کی شرمناک گالیاں عوام سنے گے تو ان کی تہذیب و ثقافت کو فروغ ملے گا؟ جس شو میں گالیاں دی گئی اس کی ریٹنگ تو بڑھ گئی کیونکہ عوام مزے لے لے کر سن رہے ہیں یہ گالیاں۔ کیا اس سے ہماری تہذیب و اخلاق بھی نشوونما پائے گی؟ خلیل صاحب کو ٹی وی پر بین کرنا چاہیے یا انہیں اپنے اعلی اخلاق پھیلانے کا مزید موقع فراہم کرنا چاہیے؟

میرا جسم میری مرضی کے خیال کے ساتھ فکری بددیانتی کا مظاہرہ ڈھٹائی کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ میرا جسم میری مرضی کی غلط تشریح کرکے جان بوجھ کر جس جہالت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے کیا اس پر گرینڈ ڈیبیٹ کرانے کی ضرورت نہیں ہے اور عوام کو آگاہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کا اصل مقصد کیا ہے اور اس سلوگن کی تشریح کیا ہے؟ کیوں ہم ایک خوبصورت سلوگن کو فحاشی کے زمرے میں لے رہے ہیں اس کی وجوہات کیا ہیں؟

انگریزی میں ایک فقرہ ہے جسے عالمی سلوگن کی حیثیت حاصل ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور یواین بھی اس فقرے کے سب سے بڑے سپورٹر ہیں وہ فقرہ ہے یہ ہے کہ My body my right۔ اب سوال ہے کہ اس سلوگن میں کیا ایشو ہے۔ کیا کہیں غلاظت یا بے شرمی اس فقرے سے ٹپک رہی ہے؟ یہ سلوگن تو بنیادی انسانی حقوق کا اظہار کرتا نظر آرہا ہے؟ یہ فقرہ تو تمام انسانوں مردوں، عورتوں کے لئے ہے کہ یہ آپ کا جسم ہے جس پر آپ کے حقوق ہیں اور آپ کی مرضی ہے اور جو بھی آپ کی مرضی ہے ا سکے ذمہ دار بھی آپ ہیں؟

اب بتایئے کہاں ہے وہ بے شرمی جو اس سلوگن سے ٹپک رہی ہے؟ آپ کے جسم پر آپ کے حقوق ہیں کسی اور کے نہیں تو سمجھ داری سے زندگی کے فیصلے کریں۔ کیا اس فقرے کا مطلب مادر پدر آزادی نکلتا ہے؟ کیا یہ مطللب نکل رہا ہے کہ میرا جسم میری مرضی ا سلئے میں ننگا ہوکر بھی جہاں چاہوں جاسکتا ہوں؟ میرا جسم میرا ہق میرا جسم میری مرضی میری زندگی میرے فیصلے ان تمام الفاظ میں کہاں غلاظت ہے؟ اگر خلیل صاحب کو غلاظت نظر بھی آئی تو کیسے اور کیوں اور کیا پاکستان کے ہر انسان کو خلیل صاحب کے دماغ سے اس سلوگن کی تشریح کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments