بہت شکریہ، خلیل الرحمٰن قمر


آج کل پھر بیچارے خلیل الرحمٰن قمر ہماری قوم کے اعتاب کا شکار ہیں۔ سوشل میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا، ہر جگہ پر ان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا۔ حالانکہ انھوں نے کون سا کوئی ایسا جرم کردیا ہے جس پر اتنی ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ ٹی وی کے ایک پروگرام میں ایک عورت کو گالیاں ہی تو دی ہیں۔ اور عورت بھی وہ بہت الٹرا ماڈرن ہے۔ اور یہ بھی کوئی نہیں دیکھ رہا کہ خلیل صاحب کو اس سب پر اکسایا گیا، ورنہ وہ بھلا کسی عورت کو کیسے گالی دے سکتے، کیونکہ وہ تو سب سے بڑے فیمینسٹ ہیں۔

اس وجہ سے جیو ٹی وی نے ان کے ساتھ حال ہی میں کیا گیا معاہدہ بھی معطل کردیا ہے۔ جو کہ بہت بری بات ہے۔ کیونکہ یہ وہی خلیل الرحمٰن قمر ہی تو ہیں۔ جن کے ڈرامہ ”میرے پاس تم ہو“ نے حال ہی میں مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ یہی نہیں اس سے پہلے بھی وہ کئی باکمال ڈرامے لکھ چکے ہیں۔ اس لئے اتنے معتبر اور عظیم لکھاری کے ساتھ ایسا سلوک کیا جانا بہت زیادتی کی بات ہے۔ بھئی کون سا وہ پہلے مرد ہیں جنھوں نے اس طرح سے ایک عورت کو گالی دے دی ہے۔ اور پھر صحیح تو کہا انھوں نے کہ ”میرا جسم میری مرضی“ ایک غلیظ نعرہ ہے۔

اب صرف اتنی سی بات پر خلیل صاحب پر پابندی لگانے کی بات کی جارہی ہے جو کہ سرا سر زیادتی ہے۔ اس ناروا سلوک پر میں ان سے دلی معذرت کرتا ہوں۔ بلکہ مجھے تو ان کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ ان کے اس طرزعمل کی وجہ سے جو پذیرائی عورت مارچ کو مل رہی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ جس نعرے کو انھوں نے غلیظ کہہ دیا۔ ہر طرف وہی نعرہ گونج رہا ہے۔ جس قوم کو اس نعرے میں فحاشی نظر آرہی تھی، اسی کے افراد اس کا مطلب سمجھاتے نظر آرہے ہیں۔

اس کے ساتھ مجھے اس لئے بھی خلیل صاحب کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ ان کی اس خدمت کی وجہ سے کئی لوگوں کی اصلیت اور منافقت بھی سامنے آگئی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آپ کو یہ کہتے ہوئے نظر آئیں گے کہ اسلام نے عورت کو چودہ سو سال پہلے ہی سارے حقوق دے دیے تھے۔ مگر یہ نہیں مانِیں گے کہ وہ حقوق کبھی اس سماج میں عورت کو دیے ہی نہیں گئے۔

یہ آپ کو حضرت خدیجہؓ کی مثال تو دیں گے کہ وہ تجارت کرتی تھیں اور کس طرح سے انھوں نے حضرت محمد ﷺ کو خود شادی کا پیغام بھجوایا۔ مگر یہ نہیں بتائیں گے کہ ان میں سے کتنے ہیں جو اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو اپنی مرضی سے اس سماج میں اس طرح کوئی کام کرنے اور اپنی رضا کے مطابق شادی کرنے کی اجازت دیں گے؟ ایسے لوگ آپ کو یہ بھی بتائیں گے کہ اسلام نے عورت کو وراثت میں حصہ بھی دیا ہے۔ مگر اس پر کبھی بات نہیں کریں گے کہ یہاں پر کتنی عورتوں کو وراثت میں حصہ دیا جاتا ہے؟ اسی طرح یہ آپ کے علم میں یہ بات بتا کر بھی اضافہ کریں گے کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ اپنے سب کام خود کرنے کے ساتھ اپنی ازواج کا ہاتھ بھی گھر کے کاموں میں بٹاتے تھے۔ مگر ان میں سے کتنے ایسے ہیں جو یہ سب اپنے گھروں میں کرتے ہیں؟

ایسے لوگ آپ کو بتائیں گے کہ سب سے زیادہ عورت یہاں پر محفوظ ہے۔ مگر جب ان سے یہاں پر عورتوں کے ساتھ ہونے والے، جنسی زیادتی، غیرت کے نام قتل، گھریلو تشدد، جنسی ہراسگی اور چہروں پر تیزاب پھینکے جانے کے اتنے زیادہ واقعات کا پوچھا جائے تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ ہاں بس ان کو عورت کے باہر نکلنے میں فحاشی نظر آتی ہے۔ چاہے جنسی زیادتی چھوٹی بچیوں کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو اور چاہے ان کو تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ گھروں میں اپنے ہی مردوں کے ہاتھوں کیوں نہ بنایا جائے؟

مجھے خلیل الرحمٰن قمر کا شکریہ اس لیے بھی ادا کرنا ہے کہ ان کے اس رویے پر لوگوں کے ردعمل سے مجھے اس بات کا بھی اندازہ ہوا کہ ہمارے اس سماج میں ایسے مردوں کے ساتھ ساتھ ایسی عورتوں کی بھی کمی نہیں ہے جوابھی بھی اس پدر شاہی سماج کے نظام کو درست سمجھتی ہیں جس میں ان کو لگتا ہے کہ مرد چونکہ طاقت ور ہوتا ہے اس لیے اسے ہی عورت کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ ہر معاملے پر فیصلے کا اختیار بھی ہونا چاہیے اور عورت کو بس گھر سنبھالنا چاہیے۔ اس کی وجہ شاید یہاں بچپن سے ہی اس سوچ کی ذہن سازی کیے جانا ہے۔

مگر بھلا ہو خلیل صاحب کا کہ ان کی وجہ سے نعروں سمیت عورت مارچ میں اجاگر کیے جانے والے عورتوں کے حقیقی مسائل پر بھی کھل کر بات ہو رہی ہے۔ اس کے لیے خلیل صاحب کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے وہ کم ہے۔ عورتوں کے حقوق کے بارے میں آگاہی کے حوالے سے جو کردار انھوں نے ادا کیا ہے اس کو ہمیشہ سنہرے الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments