عورت مارچ اور ہمارے مباحث


آج کل عورت مارچ کے حوالے سے ایک نئی گرما گرم بحث چل نکلی ہے۔ ہر نجی ٹی۔ وی چینل پر مختلف پینل پر لوگ بیٹھے اس بحث پر جھگڑوں کی حد تک مباحثوں میں مصروف ہیں۔ دو روز قبل ایک نجی چینل پر عورت مارچ کے ایک پروگرام میں خلیل الرحمن قمر اور ماروی سرمد دونوں کو اکٹھے بلا لیا گیا۔ لو بھئی اور کیا چاہیے تھا دونوں کے اپنے اپنے نظریے اور پاسبان عقل و تہذیب دونوں ہی ہمراہ نہ تھے۔ بس جناب پروگرام کی ریٹنگ کے سارے مصالحے موجود تھے۔

مرد و عورت کی ازلی خود شناسی کی جنگ، احساس برتری کا زعم اور اپنی اپنی ذات کا گھمنڈ۔ اور کیا چاہیے تھا اس پروگرام کو خوب نمبر ملے ہوں گے۔ تہذیب اور سماج کا کیا ہے؟ بھلے بھاڑ میں جائے۔ اگر کسی سماج میں اخلاقی اقدار کی حفاظت نہ ہوسکے تو وہاں کے باسیوں سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کی نشانیوں کی حفاظت کرسکیں گے۔ ہمارے بزرگوں کی نشانیوں میں سب سے پہلی اور روشن نشانی یہ سر زمین، یہ دھرتی ماں ہے۔

آج ہمارے اندر تحمل اور بردباری کی اتنی کمی آگئی کہ ہم سماج کی مضحکہ خیز بلکہ خوفناک صورت پیش کر رہے ہیں۔ ایک مرد جو اپنی بات میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرسکتا اسے بَھلا انٹلیکچوئل کیسے کہا جاسکتا ہے؟ صرف اتنا ہی نہیں وہ شدید غصے میں آکر لائیو شو میں انتہائی گھٹیا زبان میں ایک عورت کو گالی تک دے دیتا ہے۔ اس خود ساختہ انٹلیکچوئل کے ڈراموں کے گھٹیا ڈائیلاگ سنیں تو مردوں کو نعوذ باللہ خدا کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے جو یقینا شرک کا ارتکاب ہے۔

سنا ہے ان لکھاری صاحب سے شاید کچھ عورتوں نے وفا نہیں کی تو وہ لگے سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے۔ ایسے ہی موقع کے لیے انگریزی کا محاورہ ہے۔ An empty vessel always makes the greatest sound۔ یعنی خالی برتن زیادہ کھڑکتا ہے۔ ایسے شخص کو بھی خالی الذہن کہا جائے گا جس پر دانش اور تہذیب کی کوئی بات اثر نہ کرے۔ عورت کو کوئی سرِ عام ہذیان بکے یہ ہرگز قابل معافی نہیں۔ ہمارا سماج تو وہ سماج تھا جہاں عورت کا احترام کچھ اس طرح کیا جاتا تھا کہ اگر وہ بینک میں لائن میں کھڑی ہے تو اسے مرد اپنی باری دے دیتے تھے۔

اگر وہ کسی بس یا ریل میں سفر کر رہی ہے اور رش کی وجہ سے وہ کھڑی ہے تو احتراماً مرد حضرات اپنی نشست گاہ اسے دے دیا کرتے تھے۔ لیکن اب حالات و واقعات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ آج مجھے اپنی ایک بہت پسندیدہ ٹیچر مسز شہناز ملہی کا سُنایا ہوا ایک لطیفہ یاد آرہا ہے۔ کالج آڈیٹوریم میں لیکچر کے دوران کہنے لگیں ”پنجاب کا ایک چوہدری ولایت چلا گیا برسوں کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے جب واپس اپنے گاؤں پہنچا تو اک روز اپنے کھیتوں میں بیل اور گائے دونوں کو اکٹھے ہل جوتتے ہوئے دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گیا۔

پوچھا یہ کیا معاملہ ہے؟ جواب ملا حضور گائے نے برابری کے حقوق مانگے تھے۔ ”پورا آڈیٹوریم قہقہوں سے گونج اُٹھا۔ خیر یہ تو ایک لطیفہ تھا یونہی یاد آگیا۔ ہمارا موضوع یقینا سنجیدہ ہے۔ عورت مارچ کے حوالے سے ہے۔ عورت اور مرد دونوں کے حقوق یکساں ہیں۔ دونوں کو اپنے اپنے دائرہ عمل میں فوقیت حاصل ہے۔ لیکن ہمارے ہاں مرد کی عظمت و طاقت کا اظہار تو عرصہ دراز سے جاری ہے مگر جب کبھی عورت کے حق میں آواز اُٹھی تو اسے ہمیشہ صدا بہ صحرا ثابت کرنے کی کوشیں کی گئیں۔

حقوقِ نسواں کو اگر قرآن حکیم کی رُو سے دیکھا جائے تو سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 228 میں اللہ تعالیٰ نے وضاحت سے فرمایا: ”عورتوں کا حق (مردوں ) پر ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے۔ “ اُس بات سے ظاہر ہوا کہ اگر مرد چاہتا ہے اس کی بیوی اس کی اور اس کے بہن بھائیوں کی عزت کرے تو وہیں عورت کا بھی یکساں حق ہے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے آج اکیسویں صدی میں بھی ہمارے جدید سماج میں مرد عورتوں پر پوری طرح حاوی ہیں۔

عورت کو مسلسل یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ کم تر ہے، کم عقل ہے مرد ایک حاکم کا روپ دھارے ہوئے عورت کو محکوم بنانا چاہتا ہے۔ حتیٰ کہ نعوذ باللہ کہا جاتا ہے عورت کے لیے مرد اس کا مجازی خدا ہے۔ وہ مجازی خدا جو اپنی مرضی کے خلاف ذرا سی بات پر اپنی بیوی کے سامنے قہار کا روپ دھار لیتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے اگر مردوں نے کسی حکومتی ادارے میں کلرک جیسی معمولی نوکری پر بھی بھرتی ہونا ہو تو اس کی اہلیت دیکھی جاتی ہے۔

مگر افسوس صد افسوس! مجازی خدا ہونے کے لیے کوئی معیار مقرر نہیں۔ ایسے واقعات بھی مشاہدے میں آئے ہیں کہ خاوند بیویوں سے تحقیر آمیز لہجوں میں بات کرتے ہیں۔ پورے کنبے کی خدمت کا بوجھ اس غریب پر لاد دیا جاتا ہے۔ بھلا بتائیے کون اپنا گھر بار چھوڑ کر کہیں جاتا ہے۔ 24، 25 سال کے رشتے اور محبتیں کون چھوڑ سکتا ہے؟ ایک لڑکی جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر جاتی ہے۔ اگلے گھر میں اسے ایک مہینہ بھی نہیں دیا جاتا اور طعنے تشنیع شروع ہوجاتی ہے۔ خوب صورت رشتوں کی تلاش میں لڑکیوں کے جسموں کو کھا جانے والی نظروں سے ٹٹولا جاتا ہے۔ بہت چھان پھٹک کے لائی جانے والی بہوؤں کو جلد ہی کیڑے پڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس پیا کے گھر میں وہ سہمی سی رہتی ہے اور اس کی حالت کچھ ایسی ہوتی ہے۔

نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے

گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے

یہاں میں کہنا چاہوں گی عورت مارچ وہ پلیٹ فارم ثابت ہو سکتا ہے جو معاشرے کی ستم رسیدہ درماندہ عورتوں کی گلے میں اٹکی ہوئی تمناؤں کی آواز بن سکتا ہے۔ میں نے بچپن میں ایک نظم کہیں سے اپنی ڈائری میں نقل کی تھی۔ ذرا لمبی ہے لیکن بہت دلچسپ۔ اپنے قارئین کی نذر کرنا چاہوں گی۔

جب خدا عورت کو تخلیق کر رہا تھا

تو اس پر کام کرتے ہوئے چھٹا روز ہوگیا

ایک فرشتہ آیا اور پوچھا اس پر اتنا وقت کیوں لگایا؟

خدا گویا ہوا: کیا تم نے وہ امتیازی صفات نہیں دیکھیں جو میں

نے اُسے تشکیل دیں ہیں۔ لو سُنّو!

اسے ہر طرح حالت میں فرضِ منصبی ادا کرنا ہے

اسے بیک وقت کئی بچوں کو گلے لگانا ہے

بھلے اس کے گھٹنے نیلوں نیل اور دل شکستہ ہو

اسے یہ سب صرف دو ہاتھوں سے انجام دینا ہے

وہ بیمار ہو تب بھی گھنٹوں کام کرسکتی ہے

فرشتے نے فرطِ جذبات سے اس مجسمے کو چُھوا اور بولا

لیکن ربّا! تُو نے اسے اتنا نرم بنایا ہے

خدا نے کہا یہ ملائم ضرور ہے پر مضبوط ہے

کیا یہ سوچتی بھی ہے؟ فرشتہ بولا!

نہ صرف یہ سوچتی ہے بلکہ دلائل سے گفت و شنید بھی کرتی ہے : خدا بولا

فرشتے نے اس کے گال چُھوا تو کہا! ربّا یہ تو ٹپک رہی ہے

نہیں! یہ آنسو ہے! ربّ نے جواب دیا

کس لیے؟ فرشتے نے پوچھا

اس کی اُداسی، محبت، تنہائی، دکھ اور ناز کے اظہار کو

عورت وہ انوکھی تخلیق ہے جس کی طاقت مردکو حیران کرسکتی ہے!

وہ خوشی، محبت اور دکھ مٹھی میں لے سکتی ہے!

اس کی محبت غیر مشروط ہے!

وہ اپنے یقین کے لیے خوف میں بھی مسکاتی ہے!

وہ اپنے پیاروں کو کھو کر بھی جیتی ہے!

مگر اس میں اِک کھوٹ ہے۔ وہ کیا؟ فرشتہ بولا!

یہ اکثر اپنی وقعت بھول جاتی ہے!

کہ عورت ایک انمول تخلیق ہے!

آخر میں کہوں گی کائنات کی ہر چیز اللہ کی تابع ہے۔ اچھے معاشرے کی تشکیل کے لیے عورت اور مرد کو محبت، شفقت، شائستگی، شرافت، نرمی اور برد باری کا نمونہ بننا چاہیے۔ زندگی سے بندگی ختم نہیں ہونی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments