پھول والی لڑکی


نوید کیفے سے باہر نکل کر موٹر رکشہ میں بیٹھنے ہی والا تھا کہ کوئی اس سے ٹکرایا۔ نوید نے دور سے آنے والے کھمبے کے ٹمٹماتے ہوئے بلب کی روشنی میں غور سے دیکھا تو ایک لڑکی گلاب کے پھول ہاتھ میں لئے کھڑی تھی، ہر پھول ٹہنی کے ساتھ تھا اور الگ الگ پلاسٹک میں لپیٹا ہوا تھا۔

”بابو جی پھول لے لیں۔ “
”راستے سے ہٹو مجھے نہیں چاہیئں۔ “
”بابو جی پھول لے لیں کھانے کے لئے پیسے چاہیئں۔ “ اس آواز میں کتنی معصوم التجا تھی۔

نوید نے لڑکی کی طرف دیکھا کوئی تیرہ چودہ سال کے لگ بھگ کی عمر ہو گی۔ نوید کے اندر کے انسان نے ایک انگڑائی لی۔ ”تم دن میں کتنے پیسے کما لیتی ہو؟ “

”کبھی سو روپئے کبھی دو سو روپئے۔ “ لڑکی نے جھجھک کر جواب دیا۔

”تم اسکول جاتی ہو؟ “ پھر اس نے فوراً سوچا کہ اس کا سوال کتنا احمقانہ تھا۔

”پانچ جماعتوں کے بعد ماں باپ نے اسکول سے اٹھا دیا اور اس کام پر لگا دیا۔ “

نوید نے اس کے الھڑ پن اور معصومیت کو جذب کرتے ہوئے کہا۔ ”تمہیں ڈر نہیں لگتاکہ تمہیں کوئی اغوا کر لے جائے۔ “

”بابو جی ڈر تو لگتا ہے لیکن شوکو ہے نا ہمارا خیال کرنے والا۔ “

”یہ شوکو کون ہے؟ کہاں ہے؟ “

”شوکو نے تو مجھے اس کام پر لگایا ہے۔ “

نوید نے محسوس کیا کہ کچھ دور کھڑے لوگ اسے شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں لیکن اس نے گھبرانے کے بجائے ان چند تاریک پتلوں کو گھور کر دیکھا۔

”تم یہ کام چھوڑ دو میں تمہیں روز کے سو روپئے دوں گا اور تمہیں اسکول بھی بھجواوں گا۔ “

”بابو جی آپ سمجھتے نہیں ہیں۔ شوکو میرا مالک ہے، میرا ہی نہیں مجھ جیسی کئی لڑکیوں کا، جب کوئی لڑکی پندرہ برس کی ہو جاتی ہے تو وہ ہمیں ناچنے والی جگہ پر چھوڑآتا ہے۔ “

نوید چونکا اور اس کی نظر لڑکی کے چہرے پر جم گئی اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہے۔

”بابو جی آپ پھول لے کر چلے جائیں۔ شوکو نے مجھے کسی سے اتنی لمبی بات کرت ہوئے دیکھ لیا تو بہت ناراض ہو گا۔ “ یہ کہہ کر لڑکی نے ایک پھول نوید کے ہاتھ میں زبردستی تھما دیا اور پیسے لئے بغیر تیز تیز قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے اندھیرے میں غائب ہو گئی۔

نوید پھول لئے وہیں کھڑا رہا اتنے میں ایک رکشہ پاس آکر رکا اور وہ اس میں بیٹھ گیا۔ گھر پہنچ کر اس نے پھول کو پلاسٹک سمیت گلدان میں رکھ دیا اور سوچنے لگ گیا۔ وہ لڑکی بالکل اس پھول کی طرح ہے، نازک اور معصوم، کسی نے اس پھول کو بیچنے کے لئے پودے سے الگ کر دیا تو کسی نے اس لڑکی کو گھر سے الگ کر کہ باہر گلیوں میں پھرنے پر مجبور کر دیا۔ ان دونوں کا مستقبل اب چند انسانوں کے رحم و کرم یا ان کے ظلم و ستم پر ہے۔

دو تین روز کے بعد نوید نے دیکھا کہ گلاب کا پھول مرجھانے لگا ہے۔ ”میں اس لڑکی کو اس طرح مرجھانے نہیں دوں گا اسے مسخ نہیں ہونے دوں گا۔ اسے اس چنگل میں سے نکال کر ایک باعزت انسان بنا دوں گا تا کہ جس ٹہنی سے وہ جڑی ہوئی تھی وہاں اسی کی طرح کے اور پھول کھلیں۔ “

شام کے وقت نوید پھر کیفے کے باہر پہنچ گیا۔ کچھ دیر وہ انتظار کرتا رہا نیم تاریکی میں ایک چھوٹی عمر کی لڑکی ہاتھوں میں پھول لئے اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔ نوید کی سانسیں کچھ دیر کے لئے رک گئیں وہ لڑکی نوید کے پاس آ کر رک گئی۔

”بابو جی آپ! “

چوبیس سالہ نوید نے اسے اوپر سے نیچے کی طرف دیکھا۔ اس کے اندر کا مرد جاگ گیا تھا۔ لڑکی کی خستہ حالی دیکھ کر اسے جون ایلیا کا شعر یاد آ گیا۔ ؎

یہاں تو جاذبیت بھی ہے دولت ہی کی پروردہ

یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بد صورت نظر آتی

”تمہارا نام کیا ہے؟ “ نوید کی آواز میں قدرے گھبراہٹ تھی۔

”جی میرا نام نادی ہے۔ “

”نادی یا نادیہ؟ “

”نادیہ نہیں، نادی۔ “

”میں تمہیں لینے کے لئے آیا ہوں تم یہاں سے بھاگ نکلو ورنہ شوکو تمہیں بیچ دے گا۔ “

”بابو جی میں بھاگ نہیں سکتی اور میں خود بھی ناچنا سیکھنا چاہتی ہوں۔ “

”کیوں نہیں بھاگ سکتی؟ میں تمہیں اسکول میں داخل کرا دوں گا۔ تم ناچنا بھی الگ سے سیکھ لینا۔ تم ایک عزت کی زندگی گزارو گی۔ “

”بابو جی پچھلے سال کوئی یہاں سے ایک پھول بیچنے والی لڑکی کو بھگا کر لے گیا تھا اگلی صبح اس کی لاش سمندر کے کنارے ملی، نہ نہ، میں کبھی نہیں بھاگوں گی۔ شوکو تو کبھی بھی میری جان نہیں لے گا۔ وہ تومیرے ساتھ بہت اچّھا ہے۔ “

”تَو کیا تم شوکو کو پسند کرتی ہو؟ “

لڑکی نے پہلی بار ٹکٹکی باندھ کر نوید کو دیکھا۔ ”بابو جی آپ ایک اچھے آدمی لگتے ہیں لیکن میں اس طرح نہیں جا سکتی۔ “

یہ کہہ کر اس نے ایک پھول نوید کو دیا اور پیسے لئے بغیر بھاگ کر اندھیرے میں غائب ہو گئی۔

نوید کچھ دیر تک وہیں کھڑا رہا شاید اس اندھیرے میں کسی طرف سے بھی وہ دوبارہ نمودار ہوجائے۔ گھر واپس آ کر نوید نے اس پھول کو بھی گلدان میں سجا دیا۔ وہ ساری رات کروٹیں بدلتا رہا اور پھول کو دیکھ کر لڑکی کے بارے میں سوچتا رہا۔

”واقعی کتنی مماثلت ہے اس پھول اور اس لڑکی میں، دونوں اپنے بچپن کو خیرباد کہہ کر جوانی کے دنوں میں جانے والے ہیں۔ اُس لڑکی کا چہرہ اِس پھول کی طرح گداز، اُس کے لب اِس کی پنکھڑی کی طرح نازک، اور دونوں ہی کانٹوں میں گھرے ہوئے، کوئی چاہے تو ان کو اپنی زندگی میں سجا لے، یاکوئی بھی ان کو ناچیز سمجھ کر مسخ کر دے۔ مجھے ہر حال میں نادی کو بچانا ہے لیکن کیسے؟ “

اگلی شام نوید اپنی ماں کی منّت سماجت کر کہ اسے ساتھ لے آیا اور کیفے کے باہر کھڑا ہو گیا اور سوچنے لگا۔ ”آج میری ماں کو ساتھ دیکھ کر نادی مجھے منع نہیں کر سکتی۔ اسے مجھ پر اعتماد ہو جائے گا۔ “

ایک سایہ اندھیرے میں نوید کی طرف آ رہاتھا لیکن قدوقامت میں نادی سے مختلف۔

”بابو جی پھول خرید لیں بہت بھوک لگ رہی ہے۔ “ یہ کوئی دس سال یا اس سے بھی کم عمر کی بچّی نخیف آواز میں بول رہی تھی۔

”دوسری لڑکی کہاں ہے جو کل یہاں تھی۔ “ نوید نے تیزی سے پوچھا۔

”بابو جی مجھے کچھ پتا نہیں اس کے بارے میں۔ “

”یہ پھول کتنے کا ہے؟ “

”سو روپئے کا۔ “

”یہ لو پانچ سو روپئے اس پھول کے اب بتاؤ کہ نادی کہاں ہے۔ “

”بابو جی کوئی آدمی اس سے یہاں آ کر باتیں کرتا تھا۔ بڑی ہو گئی تھی نا وہ تَو شوکو نے اسے ناچنا سیکھنے کے لئے بھیج دیا۔ “

گھر آکر نوید نے گلاب کے دونوں پھول پاؤں تلے روند کر کوڑے میں پھینک دیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments