عورت کیا چاہتی ہے؟


8 مارچ عورتوں کا عالمی دن ہے۔ پوری دنیا میں یہ دن منایا جاتا ہے۔ بحثیں ہوتی ہیں، سمینار ہوتے ہیں۔ عورتوں کے حقوق پر بات ہوتی ہے۔ وعدے اور قول دیے اور لئے جاتے ہیں۔ لیکن پھر سب معمول کے مطابق چلنا شروع ہو جاتا ہے۔ عورت بھی اس کی عادی ہو گئی ہے۔ ایک کہانی آپ کو سنانا چاہتی ہوں۔

آُپ چاہیں تو اسے کہانی سمجھ کر پڑھیں چاہیں تو اس میں کچھ تلاش کر لیں۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چھوٹا سا ملک تھا اور اس ملک میں ایک بادشاہ تھا۔ بادشاہ نوجوان اور نا تجربہ کار تھا۔

پڑوس کے ایک بڑے ملک نے اس چھوٹے ملک پر حملہ کردیا اور طاقت کے زور پر اس پر قبضہ بھی کر لیا۔ جیسا کہ ہوتا رہا ہے۔ نوجوان بادشاہ گرفتار ہو گیا اور اسے فاتح بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا، مفتوح بادشاہ کی نوجوانی اور معصومیت دیکھ کر فاتح بادشاہ کو اس پر ترس آگیا۔ مفتوح کی گردن اڑانے، آنکھوں میں سلایئاں پھیرنے یا عمر قید دینے کے بجائے فاتح نے مفتوح کو ایک موقع دینے کا سوچا۔ زمانہ قدیم میں بادشاہ کبھی کبھی لطف لینے کے لئے عجیب عجیب باتیں کرتے تھے۔ فاتح نے کہا۔

” میں تمہیں معاف کرسکتا ہوں اور تمہاری سلطنت بھی واپس لوٹا دوں گا۔ اگر تم میرے ایک سوال کا جواب دے سکو تو“

” جی جی مجھے منظور ہے“ مفتوح نے سوال سنے بغیر حامی بھر لی۔

” سوال تو سن لو دوست۔ سوال یہ ہے“ بادشاہ نے ساتھ بیٹھی اپنی ملکہ کو دیکھا اور مسکرایا ”سوال یہ ہے کہ عورت کیا چاہتی ہے؟ “

مفتوح کی جان میں جان آئی۔ یہ تو کوئی مشکل سوال نہیں۔ ابھی اپنے وزیروں، مشیروں اور دانشوروں سے مشورہ کر کے جواب دے دوں گا۔ اس کے سارے ساتھی بھی زنجیروں میں بندھے اس کے ساتھ کھڑے تھے سب کے چہروں پرامید کی رونق چھا گَئی۔

” سوال کا جواب درست ہے یا غلط اس کا فیصلہ ہماری ملکہ کریں گی“ فاتح بادشاہ نے اور بھی فاتحانہ نظروں سے ساتھ بیٹھی ملکہ کو دیکھا، جس کے لبوں پر ایک دھیمی سی مسکان تھی۔

کچھ وزیروں اور مشیروں کو یہ بات اچھی نہیں لگی کہ فیصلہ ملکہ کریں گی۔ لیکن وہ مفتوح تھے اور مجبور تھے۔

مفتوح نے مشورے کے لئے وقت مانگا جو اسے مل گیا۔ بادشاہوں کے پاس وقت کی کیا کمی۔

” تمہارے پاس ایک سال کا وقت ہے۔ جواب تلاش کرو۔ جواب ٹھیک ہوا تو تم بھی آزاد کر دیے جاؤ گے اور تمہارا ملک بھی تمہیں واپس مل جائے گا“ مفتوح کو یہ مہلت اور شرط نہایت مناسب لگی۔ وہ اپنے لشکر کے ساتھ اپنے دیس واپس آ گیا۔ اور اگلے ہی دن سے اسنے تمام سلطنتی امورایک طرف رکھ کر اس سوال پر اجلاس طلب کیا کہ

” عورت کیا چاہتی ہے“

وزیر خزانہ نے کہا ”عورت دولت چاہتی ہے حضور۔ وہ روپے پیسے، ہیرے جوہرات سے خوش ہوتی ہے“

مفتوح بادشاہ کو اپنے وزیر خزانہ کی عقل و دانش پر پورا اعتماد تھا۔ اسی وقت اپنے گھڑ سوار قاصد کو پڑوس کے فاتح بادشاہ کی طرف دوڑا دیا۔ وہ اطمینان اور سکون سے شمالی علاقہ جات کی سیر کو روانہ ہو گیا۔ کھلی تازہ ہوا اورسر سبز وادی نے بادشاہ کی صحت پر بہت اچھا اثر ڈالا۔ چھٹیاں گذار کر تر و تازہ ہو کر وہ واپس آیا۔ اور سوچا اب اطمینان سے سلطنت اور رعایا کے امور پر دھیان دینا ہو گا۔

قاصد چند دن بعد واپس آیا اور کہ جواب غلط ہے۔ بادشاہ نے ناراضی سے وزیر خزانہ کو دیکھا اور پھر سوال اٹھایا۔

اب کی بار وزیر اعظم بولے ”عورت اقتدار چاہتی ہے“

اس بار نوجوان بادشاہ نے قاصد کے ساتھ ایک وزیر بھی بھیجا اور چند تحائف بھی روانہ کیے۔ تیاری میں دن لگے پھر قافلہ روانہ ہوا۔ لیکن جواب پھر درست نہیں مانا گیا۔ بادشاہ کا دل چاہا کہ وزیر اعظم کو نا اہل کر کے گھر بھیج دے۔

اس بار جوان بادشاہ نے کہا کہ جواب دینے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ مشورے اور صلاح سے سوچ بچار کرنے کے بعد جواب دیا جائے گا۔ سلطنت کے بھی چند امور توجہ چاہتے تھے ان سے نمٹ کر بادشاہ نے پھر اجلاس طلب کیا۔ سوال سب کے سامنے رکھا۔

ایک مذہبی مشیر سے پوچھا۔

”حضرت آپ کے خیال میں عورت کیا چاہتی ہے؟ “

مذہبی رہنما بولے ”عورت خدمت کرنا چاہتی ہے۔ ایک مضبوط مرد کی جو اس کی رکھوالی کر سکے۔ جس کے سہارے وہ ساری زندگی گذار سکے۔ عورت بنی ہی خدمت کے لیے ہے اور اسی میں خوش رہتی ہے“

بات بادشاہ کے دل کو لگی۔ اس نے اپنے محل میں بھی یہی دیکھا تھا کہ عورت خدمت کرتی ہے اور یقینا خدمت اسے خوش بھی رکھتی ہے۔ وہ خدمت ہی کرنا چاہتی ہے۔

پھر کیا تھا۔ تازہ دم گھڑ سوار قاصد بگٹٹ دوڑا۔ مہینے سے اوپر ہو گیا۔ نوجوان بادشاہ کسی حد تک مطمین ہو کر شکار پر چلا گیا۔ شکار سے واپسی پر اسے کافی دن لگے۔ پھر تھکاوٹ دور کرنے میں کچھ دن اور لگے۔ آخر کو اجلاس طلب کیا اور پوچھا کہ پڑوس کے بادشاہ کا جواب کیا آیا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ جواب درست نہیں مانا گیا، اور ان کی ملکہ کو آپ کا جواب برا بھی لگا۔ بادشاہ حیران پریشان رہ گیا اسے پوری امید تھی فاتح بادشاہ یہ جواب ضرور درست مانے گا۔ آخر کو یہ جواب ایک مذہبی رہنما کی طرف سے تھا۔ اور فاتح بادشاہ کا مذہب بھی وہی ہی جو مفتوح کا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ جواب قبول نہیں کیا گیا؟ اس نے سوچا کہ شاید فرقہ کا فرق ہے۔ مذہب ایک ہے لیکن فرقہ تو الگ ہے نا۔ اب جواں سال بادشاہ نے دوسرے فرقے کے عالم کو بلایا اور اس کے سامنے بھی یہی سوال رکھا۔

عالم نے جواب دیا۔

” جناب عورت بدی اور شر کی پتلی ہے اس کا خمیر ہی ایسا ہے۔ وہ انتشار پھیلانا چاہتی ہے۔ یہ اس کی سرشت میں ہے“

بادشاہ کے دل کو بات لگی تونہیں لیکن سوچا شاید اس فرقے کے لوگوں کا یہی ماننا ہے۔ جواب دوڑا دیا گیا اور ایک بار پھر جواب درست نہ ماننا گیا۔ قاصد نے یہ بھی کہا کہ فاتح بادشاہ کی ملکہ غصہ میں دکھائی دیں۔

بے چارہ نوجوان بادشاہ فکر اور پریشانی میں مبتلا ہو گیا۔ کسی کام میں جی نہیں لگ رہا تھا۔ ہر چیز پر جیسے اداسی چھائی تھی۔

وزیرخارجہ نے کہا۔ ”یہ ہمارے خلاف کوئی عالمی سازش ہو رہی ہے حضور“

دربار میں اب اس سازش پر بحث ہونے لگی۔ بادشاہ اداس ہو گیا اس کا دل چاہا وہ بیماری کی چھٹی لے کر کہیں دوسرے ملک چلا جائے۔ لیکن ایک مفتوح بادشاہ کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر جائے۔ اداس دل کے ساتھ بادشاہ دربار سے نکل گیا۔ اور یوں دربار خود بخود برخاست ہو گیا۔ اسی یاسیت کے عالم میں وہ اپنے محل کے جھروکے میں آ کھڑا ہوا جہاں سے وہ اہم دنوں میں اپنی رعایا کو اپنا دیدار کراتا تھا۔

بادشاہ نے دیکھا کہ ایک جوگی نما بابا نیچے سے گزر رہا ہے۔ مختصر ترین لباس میں دبلا پتلا جوگی اپنی دھن میں کچھ گنگنا رہا تھا۔

” دنیا چار دنوں کا میلہ“

بادشاہ کو لگا کہ جوگی ضرور کوئی پہینچا ہوا بندہ ہے۔ کیوں نہ اس سے سوال پوچھا جائے۔ بادشاہ نے آواز لگائی۔

” بابا یہ تو بتاوَ کہ عورت کیا چاہتی ہے؟ “

بابا نے سر اٹھا کر دیکھا اور بولا۔

” سرکار عورت دو وقت کی روٹی اور تین کپڑے چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ اور کیا چاہ سکتی ہے؟ اس سے زیادہ کی اسے نہ ضرورت ہے اور نہ چاہ“۔ بادشاہ کو پہلے تو یہ جواب کچھ زیادہ نہیں بھایا، لیکن ذرا سوچ بچار کرنے پر یقین آ ہی گیا کہ عورت اس کے علاوہ اور چاہ بھی کیا سکتی ہے۔ وہ واپس دربار آیا جہاں درباری اب خوش گپیوں میں مشغول تھے۔

ہرکارہ دوڑایا گیا نئے جواب کے ساتھ۔ اور بادشاہ نے دربار برخاست کر کے شطرنج کی بساط بچھوائی۔ اس سے دل بھر گیا توساحل سمندر کی سیر پرچل پڑے۔ آخر دل کو بہلانے کا کوئی تو سامان ہو۔ اور دل لگ بھی گیا۔ چند ہفتے وہیں گذارے۔ خوب دھوپ سینکی۔ سمندر میں تیرے اور انگاروں پر بھنے بکرے دنبے کھائے۔

بادشاہ کی سواری واپس لوٹی تو ہرکارہ بھی آ چکا تھا۔ ساتھ چٹھی بھی لایا اس میں لکھا تھا۔

”آپ کا جواب غلط ہے۔ اور ہماری ملکہ اس جواب سے سخت نا خوش بھی ہیں۔ “

نوجوان بادشاہ اب سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ درباری سہم گئے۔ سب کو اپنی اپنی فکر لگ گئی۔ کچھ تو کسی اور ملک میں سیاسی پناہ کے امکانات پر غور کرنے لگے۔

تھکا ہارا بادشاہ اب پریشان بھی تھا۔ اسے اداسی اور یاسیت نے گھیر لیا۔ وہ اپنی خواب گاہ میں گیا اور کئی دن باہر نہیں نکلا۔ کھانا بھی جی بھر کر نہیں کھایا۔ بادشاہ کے دوستوں کو اس کی فکر لگ گئی۔ بادشاہ کی اداسی دور کرنے کی ترکیب ڈھونڈھی جانے لگی۔ ایک جشن رقص و موسیقی کا اہتمام کیا۔ اور بادشاہ با دل نخواستہ شریک ہو گیا۔ ایک دوست سے بادشاہ نے پوچھا۔

” دوست یہ تو بتاؤ کہ عورت کیا چاہتی ہے؟ “

” جہاں پناہ عورت ہمیشہ جوان اور حسین رہنا چاہتی ہے، اور بس“

ایک کے بعد ایک کئی چراغ بادشاہ کی نظروں کے سامنے جل اٹھے اور چہرا کھل گیا۔

” واہ۔ کیا خوب۔ واقعی عورت یہی تو چاہتی ہے کہ ہمیشہ جوان اور حسین رہے“

بادشاہ جھوم اٹھا۔ رات کافی ہو چکی تھی۔ سب وزیر، امیر، مشیر اور درباری گھروں کو جا چکے تھا۔ کیا صبح کا انتظار کیا جائے؟ اس نے خود سے سوال کیا۔ نہیں۔ وقت ضائع کرنا مناسب نہیں۔

آدھی رات کے بعد دربار لگا۔ بادشاہ نے فخریہ انداز میں اعلان کیا کہ صحیح جواب مل گیا فوری طور پر قاصد روانہ کر دیا جائے۔ اس کے بعد بادشاہ لمبی تان کر سو گیا۔ کئی دن کے بعد اچھی نیند آئی۔

پورے چھ دن سونے اور آرام کرنے کے بعد بادشاہ کو خیال آیا کہ اب ملک اور رعایا کی بھی خبر گیری کرنی چاہیے۔ کھیت، کھلیان، فصلیں، دریا، نہریں، درآمد برآمد، قانون، انصاف سب پر نظر رکھنی چاہیے۔ کسانوں اور مزدوروں کے مسائل سننے چاہیں۔ سو بادشاہ نے کوچ کا حکم دیا۔ اگلے دن قافلے کی صورت میں روانہ ہوا۔

چھوٹا سا ملک تھا۔ گھومتے گھماتے وہ سرحدوں تک آ پہنچے۔ بادشاہ نے دیکھا سرحد کے اس پار فاتح ملک کی فوج اب بھی موجود ہے۔ سپاہیوں کے ہتھیاروں کا رخ بھی انہی کی طرف ہے۔ بادشاہ مسکرایا۔ بس ابھی ہمارا جواب ان تک پہینچنے کی دیر ہے اور یہ فوج واپس چلی جائے گی۔

بادشاہ کا ملکی دورہ کامیاب رہا۔ لگان بھی اکھٹا ہوا اور رعایا کی خبرگیری بھی ہو گئی۔ دھوم دھام سے واپسی ہوئی۔ دو دن بعد ہرکارہ بھی واپس آ گیا۔ بادشاہ نے جشن کا اہتمام کرنے کا حکم بھی دے دیا۔

ہرکارہ آیا چٹھی میں لکھا تھا ”جواب درست نہیں ہے۔ “ بادشاہ کا دل بیٹھ گیا۔ سب کچھ تباہ ہوتا نظر آ رہا تھا۔

دربار لگا ہی ہوا تھا بادشاہ نے پھر یہ سوال اٹھایا کہ عورت کیا چاہتی ہے۔ دربار میں ایک تنخواہ دار شاعر بھی تھا جس کا کام یوں تو بادشاہ کی تعریفی نظمیں لکھنا رزمیہ ترانے اور دشمنوں کی ہجو لکھانا تھا لیکن وزیر ثقافت کی سفارش پر بادشاہ نے شاعر سے بھی مشورہ کر لیا۔

” بولئے شاعر صاحب عورت کیا چاہتی ہے؟

شاعر نے پہلے تو بادشاہ کی تعریفوں سے بھرپور نظمیہ تقریر کی۔ بادشاہ نے ٹوکا۔

” آپ سوال کا جواب دیجیئے۔ بس۔ “

” آپ پر میں نثار میرے شہنشاہ۔ ۔ عورت محبت چاہتی ہے۔ محبت سے اسے ہر کام پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ وہ محبت کی خاطر کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہو جاتی ہے“

بات دل کو لگی، واقعی محبت سے بڑھ کر عورت اور کیا چاہ سکتی ہے۔ شاعر کو چند اشرفیاں دیں اور گھوڑے دوڑا دیے گئے۔ شاعر کی تشریح بھی روانہ کی۔

وہاں سے جواب آیا ”محبت کے نام پر عورت کا استحصال آپ کو زیب نہیں دیتا۔ محبت تو سب ہی چاہتے ہیں۔ عورت کو اتنا احمق اور کمزور کیوں سمجھتے ہیں کہ وہ محبت کی خاطر کچھ بھی کرنے کو آمادہ ہو سکتی ہے۔ “

بادشاہ کا رنگ اڑ گیا۔ امیدیں دم توڑ گئیں۔ چٹھی میں یہ بھی لکھا تھا کہ اب آپ کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔

” کتنا وقت ہے ہمارے پاس؟ “

وزیر مواصلات نے حساب لگایا۔ ”چالیس دن“

بادشاہ نے سر پکڑ لیا۔ اتنی جلدی سال ختم ہونے والا ہے۔ وقت کو جیسے پر لگ گئے ہوں۔ اسے اپنی ہار اب یقینی نظر آرہی تھی۔ ملک ہاتھ سے جائے گا۔ مجھے مار دیا جائے گا، یا باقی کی زندگی قید میں گزرے گی۔ ابھی میری عمر ہی کیا ہے۔ ابھی تو میری شادی بھی نہیں ہوئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ درباری بھی آبدیدہ ہو گئے۔

اسی شدید اداسی کے عالم میں بادشاہ دربار برخاست کرنے ہی والا تھا کہ وزیر جنگلات نے کچھ کہنے کی اجازت مانگی۔ جو اسے مل گئی۔

”حضور جنگل کے پار اوپر پہاڑپر ایک بڑی پہنچی ہوئی جادوگرنی رہتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اسے ہر سوال کا جواب آتا ہے۔ اس کے پاس چلیں؟ “

” جادوگرنی؟ نہیں یہ کوئی جادو کا کھیل نہیں ہے۔ یہ دانائی کی باتیں ہیں۔ اسے کیا پتہ ایسی باتوں کا“ بادشاہ بولا۔

” جی ہاں۔ دانائی کی بات اور ایک عورت سے؟ “ مذہبی امور کے ایک مشیر نے حقارت سے کیا۔

درباری بادشاہ کو آمادہ کرنے کی کوشش کرنے لگے

” کیا حرج ہے اس آزمانے میں۔ شاید بات بن جائے۔ “

” ہاں اور کوئی راہ بھی نہیں ہے“ ”وقت بھی کم ہے“ بادشاہ سوچ میں پڑ گیا۔

” لیکن وہ مدد کرنے کی قیمت بہت بڑی مانگتی ہے“

” ہم عام انسان نہیں ہیں۔ دولت اب بھی کم نہیں ہمارے پاس۔ منہ مانگی قیمت ادا کریں گے“ بادشاہ جھنجھلا گیا۔ اگلے ہی دن قافلہ چل پڑا۔

سفر لمبا اور راستہ دشوار۔ اوپر سے موسم کی بے رحمی۔ بادشاہ نڈھال ہوا جا رہا تھا۔ گھنا جنگل ختم ہی ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ بارش کی وجہ سے رفتار بھی دھیمی تھی۔ گھوڑے بے چارے بھی تھکن سے چور ہوئے جا رہے تھے۔ دو راتیں جنگل میں گزریں۔ خیمے گاڑے گئے۔ الاؤ جلا کر کھانے پکائے اور خود کو گرم رکھا۔

جنگل ختم ہوا تو پہاڑ کی چڑھائی شروع ہوئی۔ بادشاہ پر تھکن سے زیادہ فکر سوار تھی۔ اگر یہ جادوگرنی بھی صحیح جواب نہ دے سکی تو کیا ہو گا؟

گرتے پڑتے وہ پہاڑ کی چوٹی تک جا پہینچے۔ ایک غار کی طرف اشارہ کر کے کھوجی نے کہا۔

” یہ ہے جادوگرنی کا مسکن۔ “

شام ہو چلی تھی۔ سورج غروب ہونے کو تھا۔ لیکن وقت ضائع نہیں کیا جا سکتا تھا۔

تاریک سیلن زدہ بدبودار غار میں بادشاہ کا دل گھبرا سا گیا۔ لیکن وہ مضبوط قدموں سے آگے بڑھتا گیا۔ سامنے ایک سایا سا دکھائی دیا۔ بادشاہ نے اس پر نظریں جمایں۔ اور کانپ کر رہ گیا۔

اس کے سامنے ایک کریہہ منظر تھا۔ ایک عجیب سی مخلوق جو شاید انسانی بھی نہیں تھی۔

ایک لمبی بے حد دبلی عورت نما چیز اس کے سامنے تھی۔ الجھے ہوئے بکھرے ہوئے بال، لمبی نوکیلی ناک، آنکھوں کے درمیان تنگ سا فاصلہ، جھلسی ہوئی رنگت، لمبے بازو، جھریوں والے ہاتھ، لمبے نوکدار ناخن۔ اگلے دو دانت نچلے ہونٹوں پر ٹکے ہوئے۔ اف۔ بادشاہ نے بدصورتی کی اتنی مکمل شکل نہیں دیکھی تھی۔

” کیوں آئے ہو؟ “ وہ بولی تو لگا کسی نے کانوں میں سوراخ کر دیے۔

” بادشاہ سلامت آپ سے کچھ پوچھنے آئے ہیں۔ “ ایک وزیر نے ہمت کر کے کہا۔

جادوگرنی نے ہاتھ میں پکڑی لاٹھی زور سے زمین پر ماری۔ اور وزیر سے بولی۔

” تمہارا بادشاہ گونگا ہے کیا؟ “

” نہیں محترمہ، میں خود آپ سے بات کرتا ہوں“ بادشاہ جلدی سے بولا۔

” ایک سوال کا جواب چاہیے اگر آپ دے سکیں“

” میرے پاس ہر سوال کا جواب ہے۔ پوری بات بتاوّ۔ “

بادشاہ نے پوری کہانی کہہ ڈالی کہ کیسے پڑوسی ملک نے حملہ کیا، کیسے بادشاہ اور سارے وزیر مشیر قیدی بنائے گئے۔ اور کیسے اس بادشاہ کی ملکہ نے ایک سوال ان کے سامنے رکھ دیا ایک سال کی مہلت دی اور اب بس چند ہی دن رہ گئے ہیں۔ جواب پر ان کی جان بخشی ہو سکتی ہے ملک واپس مل سکتا ہے۔

” سوال کیا ہے؟ “ جادوگرنی نے تندی سے پوچھا۔

” سوال یہ ہے کہ عورت کیا چاہتی ہے؟ “

” جواب مل جاَئے گا۔ لیکن میری ایک شرط ہے“

” ہمیں آپ کی ہر شرط منظور ہے“ بادشاہ کھل اٹھا۔ ”آپ جواب بتایئے“

”شرط سنے بغیر؟ “ جادوگرنی کے طنز بھرا قہقہہ لگایا۔ بادشاہ کو یوں لگا جیسے کوِئی زلزلہ آ گیا ہو۔

” جی جی۔ کہا نہ کہ ہر شرط منظور ہے۔ بس میرے ملک کے لوگ آزاد رہیں۔ “

” ٹھیک ہے۔ تو لو جواب سنو۔ “

” عورت انتخاب کا حق چاہتی ہے“ جادوگرنی نے مسکرا کر کہا۔

بادشاہ کے ساتھی سحر زدہ رہ گئے۔ یہ کیا؟ بس اتنی سی بات؟ ”اوہ“ بادشاہ ہچکچایا ”کیا یہ جواب صحیح ہے؟ “

” میرا جواب کبھی غلط نہیں ہوا اب جاؤ اور جواب بھجوا دو۔ “ بادشاہ الٹے قدموں واپسی کے لئے مڑا۔

” میری شرط بھی سنتے جاو“

بادشاہ رک گیا اور ہمت کر کے جادوگرنی کی طرف دیکھا۔ ”جی کہیے“

” مجھ سے شادی کرو“

پورا وفد سکتے میں آ گیا۔ کہاں ہمارا نوجوان خوبصورت خوش اخلاق بادشاہ اور کہاں یہ بدشکل بدمزاج جادوگرنی۔

” بادشاہ تم نے وعدہ کیا ہے۔ میں وعدہ خلافی کرنے والوں کو کڑی سزا دیتی ہوں۔ “ جادوگرنی نے کرخت آواز میں کہا۔

” میں وعدہ خلافی ہرگز نہیں کروں گا“ بادشاہ نے مضبوط لہجے میں جواب دیا۔ لیکن اس کا دل اندر سے کٹا جا رہا تھا۔

” آج سے ٹھیک چالیس دن بعد ہماری شادی ہو گی۔ اب جاؤ شادی کی تیاری کرو۔ شادی والے دن میں خود تمہارے محل پہنچ جاونگی۔ “

” جی لیکن پہلے وہاں سے جواب تو مل جائے۔ وہ اس کو صحیح تو مان لیں“

” جواب صحیح ہے۔ تم جاؤ تیاری کرو۔ میرا عروسی لباس اور تمام زیورات میری خوابگاہ میں رکھوا دینا۔ ۔ جاؤ جشن شادی کی تیاری کرو۔ “

اور یہی ہوا۔ پڑوسی بادشاہ نے جواب درست مان لیا اور لکھا کہ ہماری ملکہ اور ہم نے آپ کے اس جواب کو صحیح مانا امید ہے آپ کو بھی اس جواب کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا ہو گا؟ نوجوان بادشاہ کو اور اس کے ملک کو آزادی مل گئی۔ آزادی کی خوشی میں جشن کا اعلان ہوا۔ اور ہر طرف خوشی کی شادیانے بجنے لگے۔ خوشی کے ساتھ ساتھ جوان سال بادشاہ کو غم نے بھی گھیرا ہوا تھا۔ جب جب اس جادوگرنی کا خیال آتا بادشاہ کا دل ڈوبنے لگتا۔

ٹھیک چالیسویں دن جب بادشاہ دربار میں بیٹھا سلطنتی امور دیکھ رہا تھا۔ باہر شور سا مچا۔ پہرے داروں نے آ کر بتایا کہ کوئی آیا ہے۔ وزیر داخلہ اٹھ کر بھاگے اور ہانپتے ہوئے واپس آئے۔

” بادشاہ سلامت وہ جادوگ۔ میرا مطلب ہے کہ ہونے والی ملکہ صاحبہ پہنچ گئی ہیں۔ “

بادشاہ تخت سے اترا اور گرتے گرتے بچا۔ پہرے داروں کے ساتھ جادوگرنی اندر داخل ہوئی۔ سر سے پیر تک سیاہ کپڑوں میں ملبوس۔ بکھرے الجھے بال۔ ننگے پیر اور دھول مٹی سے اٹی ہوئی۔

۔ بادشاہ نے سلطنت کی واحد خاتون وزیر، وزیر سماجی بہبود کو اشارہ کیا اور کہا۔

” مہمان کو اندر لے جائیے عروسی لباس اور زیورات بھی انہیں دے دیجئیے۔ “

کنیزیں بلائی گیں اور جادوگرنی کھلکھلا کر ہنستی اور ناچتی گاتی ان کے ساتھ زنان خانے کی طرف چل دی۔

شام ہوتے ہی شادی کے ہنگامے شروع ہو گئے۔ شاہی محل کو روشنیوں سے سجا دیا گیا۔ محل میں پھولوں کے ڈھیر لگ گئے۔ طرح طرح کے کھانے پکائے جانے لگے۔ موسیقی بجنے لگی۔

شام ہو چلی اور شادی کا وقت آ پہنچا۔ بادشاہ نے نہایت ٹوٹے دل سے لباس تبدیل کیا۔ عطر لگایا سر پر تاج سجایا اور جشن کے لیے سجے ہوئے بڑے سے کمرے میں داخل ہو گیا۔ مہمانوں نے کھڑے ہوکر تعظیم دی۔ بادشاہ آج بہت حسین لگ رہا تھا۔ مہمانوں میں شریک کئی نوجوان عورتیں دل تھام کر رہ گِئں۔ رسومات کا وقت آیا۔ خاتون وزیر نے کنیزوں کو حکم دیا کہ ”دولہن“ کو لے آیں۔

اور کچھ ہی دیر بعد دلہن کنیزوں کے جھرمٹ میں اندر داخل ہوئی۔ قیمتی عروسی جوڑے میں ملبوس، گلے میں ہیرے، موتی کی مالایئں، انگلیوں میں نگینے والی انگوٹھیاں۔ الجھے بے ترتیب بالوں میں بے ڈھنگے پن سے اٹکا تاج اور چہرہ غازے اور سرخی لپا ہوا۔ وہ ایک عجیب و غریب مخلوق دکھائی دے رہی تھی۔ بادشاہ اس کے آنے پر احترام سے کھڑا ہو گیا اور اپنے برابر جگہ دی۔ وہ سپڑ سپڑ کرتی آ بیٹھی۔ رسومات کے دوران وہ بے مقصد ہنستی رہی اورہنستی ہنستی کئی بار اپنی نشست سے گرتے گرتے بچی۔

رسومات تمام ہوئیں اور بادشاہ اور جادوگرنی میاں بیوی بن گئے۔ مہمانوں کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ بادشاہ کو کن الفاظ میں مبارکباد دیں۔ وہ ہمدردی اور تاسف سے اپنے حسین جوان بادشاہ کو دیکھ رہے تھے جو بظاہر مسکرا رہا تھا لیکن اندر سے اس کی حالت کیا ہو گی یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا۔

رسومات اور مبارک بادیوں کے بعد کھانا پیش ہوا۔ جادوگرنی نے بدتہذیبی کی انتہا کردی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے کھانا کھایا۔ آدھا اپنے عروسی لباس پر گرا کر اسے داغدار کیا۔ زور زور سے چبایا اور سڑک سڑک کر پیا۔ ڈکار لیے اور ناک صاف کی۔ باشاہ شرم سے پسینے پسینے ہو گیا۔

کھانے کے بعد رقص و موسیقی کا اہتمام تھا۔ ملک کی بہترین رقاصایئں اور گلوکار اپنا فن پیش کر رہے تھے۔ مہمان لطف اٹھا رہے تھے۔ جادوگرنی موسیقی پر سر دھنتی رہی اور ناچنے والی حسین اور کمسن لڑکیوں کے ساتھ بے ڈھبے پن سے ناچنے بھی لگی۔ وہ بہت خوش نظر آرہی تھی۔ جتنی وہ خوش تھی بادشاہ بے چارا اتنا ہی دکھی ہوتا جا رہا تھا۔ اس نے ضبط کی انتہا کر دی۔

پھر اچانک جادوگرنی نے اعلان کیا کہ وہ اب بہت تھک چکی ہے اور آرام کرنا چاہتی ہے۔ باشاہ نے کنیزوں کو اشارہ کیا اور وہ جادوگرنی کو ساتھ لے جانے لگیں۔ جانے سے پہلے جادوگرنی نے بادشاہ سے کہا۔ ”میرے ساتھ چلو“

بادشاہ گھبرا گیا۔ ”میں ابھی آتا ہوں۔ یہ مشروب ختم کروں۔ آپ چلئے میں بس آتا ہوں“

جادوگرنی اٹھلاتی ہوئی اٹھی اور کنیزوں کے ہمراہ اپنی خوابگاہ کی طرف چل دی۔

بادشاہ کا دل چاہ رہا تھا کہ وقت بس یہیں تھم جائے۔ ایک لمحہ بھی آگے نہ بڑھے۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ مشروب تمام ہوا اور بادشاہ اٹھا۔ مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ اور اپنی خوابگاہ کی طرف چلا۔ اس کا ایک ایک قدم سو سو من کا بھاری ہو رہا تھا۔ آنے والا منظر اسے ڈرائے دے رہا تھا۔

خوابگاہ کے دروازے پر رک کر اس نے دستک دی۔ اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔ اس نے ایک بار اور دستک دی پھر اور اندر داخل ہو گیا۔ وہ ہر طرح کے ڈراوّنے منظر کے لئے خود کو تیار کر رہا تھا۔ لیکن اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گیں۔ قدم جیسے زمین میں گڑ گئے۔ وہ ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہ گیا۔

بستر پر ایک نہایت حسین و جمیل جوان دوشیزہ نیم دراز تھی۔ بادشاہ کو لگا وہ کسی غلط کمرے میں آگیا۔

” معاف کیجیئے گا۔ میں غلطی سے ادھر آ گیا“ اس نے ہمت کر کے کیا۔

” نہیں بادشاہ آپ صحیح جگہ آئے ہیں“ نازنین نے سریلی آواز میں کیا۔

وہ اب بھی حیرت زدہ سا تھا۔ نازنین نے اشارے سے اسے پاس بلایا۔ وہ سحر زدہ سا اس کے قریب آ کر بستر پر بیٹھ گیا۔

”بادشاہ آپ نے اپنا وعدہ نبھایا۔ میں چاہتی ہوں کہ اس حسن سلوک کے بدلے آپ کے ساتھ دن کے ایک حصے میں خوبصورت بن کر رہوں۔ فیصلہ آپ کیجئے کہ کس وقت آپ مجھے حسین دیکھنا چاہتے ہیں۔ دن میں یا رات میں؟ “

اب بادشاہ سوچ میں پڑ گیا کہ کیا جواب دوں۔ کیا اس کا حسین روپ دن میں چاہوں تاکہ سب کے سامنے فخر سے اسے دکھا سکوں۔ لوگ مجھ پر ترس کھانے کے بجائے رشک کریں۔ یا پھر اس کیا یہ روپ رات کی تنہائی میں چاہوں اور اس کی دوسراہت سے لطف اندوز ہو سکوں؟

یہ ایک بہت ہی اہم سوال تھا۔ بادشاہ گہری سوچ میں پڑ گیا۔

لیکن اس سے پہلے کہ آپ بادشاہ کا جواب جانیں وہ مرد حضرات جو یہ کہانی پڑھ رہے ہیں ان سے درخواست ہے کہ اگر آپ کو کسی اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا تو آپ کا جواب کیا ہوتا؟

اب بادشاہ کا جواب سنیے۔ بادشاہ نے کہا۔

” انتخاب کا حق آپ کا ہے۔ اپ جو چاہیں جیسا چاہیں وہی کریں۔ “

یہ سننا تھا کہ جادوگر حسنیہ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔ اسی بات نے اسے ہمیشہ کے لئے حسین بنا دیا۔

اور وہ ہنسی خوشی رہنے لگے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments