خلیل الرحمٰن قمر کو کیا مسئلہ ہے؟


کوئی براہ راست ٹاک شو میں عورت کی شلوار اتارنے کی بات کرتا ہے تو کوئی عورت کو بھگوڑی کا لقب دے دیتا ہے، جس کی جب مرضی ہوتی ہے عورت کو بدکردار قرار دے دیتا ہے، جبکہ متعدد حضرات نے تو عورت کو محض جنسی ہوس مٹانے کا ذریعہ بھی کہا ہے، مگر اور تھوڑا آگے چلیے اب ایک براہ راست پروگرام میں خود ساختہ ڈرامہ نگار نے عورت کو تعنہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”تیرے جسم میں ہے کیا کوئی تھوکتا بھی نہیں تجھ جیسی عورت کو، آئینے پر جاکر اپنی شکل دیکھ۔ ۔ کتی۔ الو کی پٹھی۔ گھٹیا عورت۔ بکواس کرتی ہے۔ ”

یہ خلیل الرحمٰن قمر صاحب تو گویا عورت دشمنی میں ہر دریا عبور کر بیٹھے ہیں، موصوف کو شاید عورت کے وجود سے چڑ سی ہو گئی ہے، وہ خدا تعالیٰ کی تخلیق پر بھی نالاں نظر آ رہے ہیں، یہ اعلیٰ پائے کا ڈرامہ نویس اپنی غلیظ زبان سے عورتوں کے لیے گالیاں بکنے میں دیر نہیں کرتا۔

دراصل خلیل الرحمٰن قمر کی بکواس کے بعد تو ہمارے سماج میں جو ڈھکے چھپے عورت دشمن تھے وہ بھی کھل کر سامنے آ رہے ہیں، سوشل میڈیا پر ایسے عورت دشمنوں نے خلیل الرحمٰن قمر اور مولویوں کی فرسودہ اور دقیانوسی سوچ کو فروغ دینے میں دن رات ایک کر دی ہے، جس بندے کو ٹھیک سے لکھنا تک نہیں آتا وہ بھی عورت آزادی مارچ کی مخالفت کر رہا ہے اور عورتوں سے سوال کر رہا ہے کہ ”کس چیز کی آزادی چاہیے؟ “

ہمارے سماج میں عورت روز اول سے مظلوم رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ سندھ کے قومی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی کی شاعری کا محور بھی عورتیں رہی ہیں، شاہ لطیف نے اپنے کلام میں عورتوں کی اپنے وطن سے محبت، سچے عشق اور حب الوطنی کو بیان کیا ہے، انہوں نے اپنی شاعری میں عورتوں کی مظلومیت کی عکاسی کی ہے۔

ہمارے ارد گرد آج بھی عورت کم و بیش ان ہی مسائل کا سامنا کر رہی ہے، سندھ کے دیہاتی علاقوں میں عورت آج بھی گھر سنبھالنے کے ساتھ ساتھ کھیتوں میں کاشت بھی کرتی ہے، ہر وہ کام کرتی ہے جو ایک مرد کرتا ہے، جبکہ کام کے دوران کسی سے بات کرنے پر بھی عورت کو کاری قرار دے کر غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔

اصل میں عورتیں 8 مارچ کو اسی مقصد کے لیے مارچ کر رہی ہیں کہ ”ہمیں بھی ایک فرد جیسی آزادی چاہیے“ جو خلیل الرحمٰن قمر اور بعض عورت دشمن قوتوں سے برداشت نہیں ہو رہی، وہ پریشان ہیں، وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اسی لیے اخلاقیات کی حد عبور کرکے غلیظ زبان استعمال کر رہے ہیں۔

یہ مائیں، یہ بہنیں، یہ بیٹیاں، قوموں کی عزت ان سے ہے، میاں خلیل الرحمٰن قمر۔

خلیل الرحمٰن قمر! اب عورتیں آپ جیسے دقیانوسی اور معیاد خارج سوچ والے لوگوں سے آزادی چاہتی ہیں، سندھ کی دیہاتی عورتیں اب مزید نام نہاد غیرت کی بھینٹ چڑھنا نہیں چاہتیں، عورتیں آزاد ہونا چاہتے ہیں، اپنا حق مانگ رہی ہیں جو انہیں شریعت اور آئین نے دیا ہے مگر پتہ نہیں کیوں خلیل الرحمٰن قمر کو کیا مسئلہ ہے، درحقیقت وہ پریشان ہیں کہ اس کی دکان ہی نہ بند ہوجائے، کہیں عورتوں کی آزادی سے ان کا کاپی پیسٹ کام ضائع ہی نہ ہوجائے اس لیے بوکھلاہٹ میں پاگل پن کا شکار ہو گئے ہیں، خلیل الرحمٰن قمر اور دیگر عورت دشمن کو اخلاقی طور پر اب آرام کرنا چاہیے یا پھر کوئی دوسرا چورن بیچنے کی تیاری کریں کیونکہ اب عورت حقیقی معنوں میں آزاد ہونے والی ہیں۔

وہ منزل ہم سے دور نہیں، بڑھتے جائیں گے قدم سدا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments