یہ فیمنزم برابری کا متقاضی ہے یا برتری کا؟


حالیہ تنازع دو لوگوں کے مابین شروع ہوا اور اب تک کئی متاثرین تک پہنچ چکا ہے۔ ایسے متاثرین جو زبردستی متاثر ہونا چاہ رہے ہیں اور آگے بڑھ بڑھ کر مہوش نامی ایک دو ٹکے کی عورت کا بدلہ لے رہے ہیں اس شخص سے جس نے مہوش کی یہ قیمت لگائی۔

گزشتہ سال عورت مارچ میں مختلف فحش پوسٹرز میں ایک پوسٹر جو مرکزِ تنازع بنا ”میرا جسم میری مرضی“۔

یہ سلوگن کافی عرصہ متنازع رہا تھا تاہم کچھ عرصہ قبل تک یہ تنازع دوسرے موضوعات کی وجہ سے پسِ منظر میں چلا گیا تھا لیکن حال ہی میں عورت مارچ کے حوالے سے آن ایئر نجی ٹی وی کے ایک شو میں ”میرا جسم میری مرضی“ پر خلیل الرحمان قمر بات کر رہے تھے کہ جس کے دوران ماروی سرمد مشتعل ہوئیں اور خلیل الرحمان بھی آپے سے باہر ہوگئے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کوئی بھی کسی کی ہتک کرنے کا حق نہیں رکھتا اور گالی دینے والے پڑھے لکھوں پر پورا معاشرہ مشتعل و افسردہ ہوتا ہے لیکن اس حوالے سے ہمدردی کی مستحق محض عورت نہیں ہے بلکے مرد بھی برابر عزتِ نفس رکھتے ہیں، بلکہ مرد و عورت سے بالاتر ہر انسان کے لئے یہ اصول لاگو ہوتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ میری اس رائے سے کوئی فیمنسٹ اختلاف نہیں کرے گا کیونکہ فیمنزم کے دلدادہ ہمیشہ مرد و عورت کی برابری کی بات کرتے ہیں لہٰذا جہاں مرد سہ سکتا ہے وہاں فیمنسٹ عورت کو بھی سہنا ہوگا اور عورت کارڈ کو پسِ پشت ڈال کر مردوں کی دوڑ میں عورتوں کے ”مخصوص“ حقوق کے تحت نہیں بلکہ مردوں کے حقوق کے تحت آگے بڑھنا ہوگا۔

اگر آپ عورت کارڈ نہیں چھوڑ سکتیں تو آپ کو برابری کے متالبے سے دستبردار ہونا پڑھے گا کیونکہ ایک مرد جب گالی کھاتا ہے تو وہ سٹیٹ کا ایشو نہیں بنتا حتٰی کے مردوں نے تو آن ایئر پٹائیاں بھی کروائی ہیں لیکن بات ہمیشہ رفع دفع ہو جاتی ہے لہٰذا برابری کی سطح پر آنے کے لئے برابری کا ظرف بھی لانا ہوگا لیکن۔ بصدِ افسوس یہ ظرف تو نہیں آسکتا مگر فیمنزم کی رو میں حقوق کی ایک لمبی فہرست ضرور موجود ہے جس میں جائز و ناجائز کی تفریق کی کوئی زحمت بھی نہیں کی جاتی۔

ایک عورت جو ایک آدمی کے نکاح میں ہوتے ہوئے دوسرے مرد کے ساتھ ہوٹلوں میں جائے اور بعد ازاں شوہر اور بچہ چھوڑ کے امیر آدمی کی دولت پر عزت لٹا دے طلاق کے بعد عدت کی زحمت نہ کرتے ہوئے بغیر نکاح ایک عباش آدمی کے ساتھ 5 ماہ یورپ گھومے اور بیوی کے فرائض انجام دیتی رہے ایسی عورت کو معاشرہ کس نام سے بلاتا ہے کیا بتانے کی ضرورت ہے؟

میں بے بانگ دہل نہیں کہہ سکتی کہ ایسی عورت دو ٹکے کی تو کیا ایک ٹکے کی بھی نہیں ہے؟

خلیل الرحمان کے بارے میں میری اپنی رائے بھی خاص مثبت نہیں ہے کیونکہ میرے نزدیک بھی وہ متکبر انسان ہیں باقی واللّہ علم کہ وہ کیسے انسان ہیں، میری رائے غلط بھی ہو سکتی لیکن چونکہ بات نقطہ نظر کی ہورہی ہے سو جہاں جو بر حق ہے وہ ہے، معاشرے کے بد صورت کرداروں کو منظرِ عام پر لانا کب سے جرم بن گیا؟

کیا اب فیمنزم کے ڈر سے کوئی غلط کو غلط بھی نہیں کہہ پائے گا؟ بصدِ احترام مگر ماروی سرمد اور ان جیسی عورتیں فیمنزم کے زعم میں حدود سے تجاوز کرتی جارہی ہیں اس طرح کا رویہ پاکستان کی عورت کو حقوق دلانے کے بجائے ان کے حقوق کو مزید پچاس سال پیچھے دھکیل دے گا۔

اگر مسُلہ صرف گالی دینے کا ہے تو بے شک خلیل الرحمان ہی غلط ہے لیکن بات اگر عورت کے ساتھ بدتمیزی کی ہے تو مرد اور عورت کی برابری میں عورت کارڈ تو ناکارہ ہے۔

بات اگر کسی کی تذلیل کی ہے تو خلیل الرحمان قمر غلط ہے لیکن بات اگر ایک کردار کی ہے تو؟ کیونکہ دو ٹکے کی قیمت ہر طلاق لینے والی اور دوسری شادی کرنے والی کی نہیں لگائی گئی پھر میڈیا کی اکثر عورتیں کیوں آگ بگولہ ہورہی ہیں؟ کیا ان کے نزدیک ”مہوش“ جیسی عورت کو موٹیویشنل سپیکر بنا کر ایوارڈ دینا چائیے؟ مرد پر کیچڑ اچھال کر عورت فاتح یا مظلوم اور عورت ایکسپوز کی جائے تو ہتک؟

ایک دل پھینک مرد ایک زمانے سے مختلف القابات لے کے گھوم رہا ہے، ایسے مرد کو کوئی لڑکی تھپڑ مار دے تو اس کی ہمت کی داد دی جاتی ہے کہ صحیح اوقات دکھائی ہے لیکن ایک بدکردار عورت کی قیمت لگی ہے تو فیمنسٹ عورتوں کی چیخیں نکل گئیں، کیا یہ کھلاّ تضاد نہیں؟

دراصل یہ فیمنزم برابری کا متقاضی ہے یا برتری کا؟ کیونکہ فیمنزم کا یہ طرز بلاشبہ برابری کے تضاضوں کو تو پورا نہیں کرتا۔

اگر فیمنزم مرد پر برتری کا نام ہے تو فساد کے سوا یہ ہمیں کچھ نہیں دے گا اور اگر فیمنزم بحیثیت انسان عورت کے جائز حقوق کا نام ہے تو آج یا کل فلاح پاجائے گا۔

مگر قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کی لبرل عورت سڑک پر فحش پوسٹر لے کر باپردہ عورت کو زندہ لاش کہنے کا حق چاہتی ہیں۔

میرا سوال ایک فیمینسٹ عورت سے ہے اگر آپ کی مرضی ہے آدھا لباس پہننا تو باپردہ عورت کو طعنہ آپ کس کی مرضی سے دیتی ہیں؟ اگر آپ کا جسم آپ کی مرضی ہے تو جس کی زبان ہے اس کی مرضی کیوں نہیں؟

اپنے دل کی تسکین کے لیے دوسروں کی دل آزاری کی جائے یہ کیسا فیمنزم ہے؟

میں اور مجھ جیسی بہت سی لڑکیاں ایسے فیمنزم پر چار تکبیریں پڑھ کر اپنے تئیں اسے دفناتے ہیں، ہمیں عزت چائیے جو مانگنے سے نہیں کمانے سے ملے گی، ہمیں حقوق چائیے جو دوسروں کے حقوق سلب کرنے سے نہیں مل سکتے۔

فیمنزم کے نام پر دوسروں کو ذلیل کرنے کا سرٹفیکیٹ پاکستان کی عورت کو نہیں چائیے، بگڑی ہوئی شکل کے اس فیمنزم کے حامی اپنی بے جا آزادی کے لئے خدارا ہماری آنے والی نسلوں کی عورت کے حقوق کو اندھیرے میں نہ دھکیلیں۔

یاد رکھیں ہر ایکشن کا ایک ری ایکشن ہوتا ہے، آپ تو اپنی زندگی ”میرا جسم میری مرضی“ کے تحت جی لیں گے لیکن بہت سی لڑکیاں قید ہو جائیں گی کہ کہیں پڑھ لکھ کے فیمینسٹ نہ بن جائیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments