احسن تقویم سے اسفل سافلین تک


انسان کی راہنمائی کے لیے اس کے خالق کے کوئی کسر نہیں اتھا رکھی، فجور و تقوی کی پہچان کو اس کی تخلیق کے مرحلے میں الہام کیا، معاہدہ الست کیا، پے در پے انبیا اور رسل کا سلسلہ جاری کیا۔ ۔ جنہوں نے اس ”الہام“ کی ”یادہانی“ کرائی جو فطرت میں ودیعت کردہ تھا اور اس سلسلے کے اختتام پر اپنے کلام کو انسانی دست و برد سے محفوظ کرکے ابد تک انسانیت کے لیے ”حق کا میزان“ قرار دیا۔

خدا کے اس احسان کے باوجود انسان کیوں تفوقے میں پڑھا؟ کیوں کج روی کا شکار ہوا؟ اس نے وحدت کو کیوں پارہ پارہ کیا؟ سیدھے اور واضح راستے کے ہوتے ہوئے کیوں گمراہی کی راہ چنی؟

قران نے سورہ شوری میں آپﷺ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا ہم نے آپﷺ کو وہی دین دیا جس کی وصیت ہم نے نوحؐ، ابراہیمؐ، موسیؐ اور عیسیؐ کو کی اور ان کو یہی کہا کہ اسی پر قائم اہنا اور تفرقے میں نہ پڑھنا۔

اگر یہ ”ایک“ ہی دین تھا تو پھر یہ ”ہم“ اور ”وہ“ کی تفریق کہان سے آئی؟ کب، کہاں اور کیسے ”ہم“ اور ”وہ“ اس ایک سیدھے اور واضح راستے سے اتر کر بھول بھلیوں میں گم ہوئے؟ اگر ”ہم ہی“ حق کے داعی ہیں تو ہماری حالت زار کیوں پراگندہ ہے؟

استاد گویا ہوئے، ”خدا نے انبیا اور رسل کا سلسلہ جاری کیا، اس میں اہم موڑ حضرت ابراہیمؐ کے وقت آیا، اللہ نے فرمایا کہ ہم نے ابراہیم کو جانچا اور پرکھا وہ اس میں پورا اترا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اب اسے“ سردار ”بناَئیں گے، ان کی ذریت میں انبیا اور رسل کا سلسلہ جاری کریں گے، اسی واسطے سے جناب نے توحید کے دو مرکز قائم کیے، اسحقؐ اور ان کے فرزند یعقوبؐ کو شام و فلسطین کا علاقہ دیا جو بنی اسرائیل کہلائے انہوں نے داودؐ اور سلیمانؐ کے دور میں وہاں خدا کی توحید کا مرکز و مسجد تعمیر کی جسے“ ہیکل سلیمانی ”کہتے ہیں اور دوسرے بیٹے اسماعیلؐ کو مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں آباد کیا جہاں انہوں نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اور اسی نسبت سے بنی اسماعیل کہلائے ان ہی کی ذریت میں آنجناب سرکار دو عالمﷺ کی بعثت ہوئی“

تمام الہامی کتب عہدنامہ عتیق، عہدنامہ جدید اور قران بنی اسرائیل کی دونوں شاخوں اہل یہود اور اہل نصاری کی گمراہیوں اور کج رویوں کی تاریخ بیان کرتے ہیں، لیکن بنی اسماعیل کے زوال کے اسباب کیا تھے؟ اس کا جاننے کا کیا ذریعہ ہے؟

استاد نے کہا اگرتم بنی اسماعیل کا زوال پڑھنا چاہتے ہو تو بنی اسرائیل کی دونوں ذیلی شاخوں کی تاریخ کا جائزہ لے لو، تاریخ ایک حیرت کدہ ہے انسانی کجی، تکبر، تعصب اور حق میں آمیزش کا رویہ حیرت انگیز طور پر مماثلت اور یکسانیت رکھتا ہے۔

ایک کے بارے قران نے فرمایا ”وہ غضب کا شکار ہوئے“ اور دوسرے کے بارے ارشاد ہوا ”وہ گمراہ ہوئے“۔

”ہم“ جو ان کے بعد حق کے علمبردار ہوئے کہاں کھڑے ہیں؟

دونوں کی ابتدا نہایت اعلی رسولوں اور نبیوں اور ان کے حواریوں سے ہوئی پھر کیوں وہ مغضوب اور گمراہ ٹھہرے؟

ہماری ابتدا بھی ”خاتم النبین“ اور اصحاب رسولﷺ سے ہوئی، کیا ہم اس ”تکبر“ سے بچ پائے جن کا ”زعم“ اہل یہود کو تھا، اور ان لا یعنی تاویلات اور اس مذہبی جنگ وجدال سے اپنا دامن بچا پائے جس میں اہل نصاری گرفتار ہوئے؟

آئیے استاد محترم کی راہ نمائی میں دونوں گروہوں کی تاریخ کا اجمالی جاِئزہ لیتے ہیں۔

حضرت ابراہیمؐ تقریبا 1800 ق م ”ار“ سے ہجرت کرکے فلسطین آئے، 1250 ق م حضرت موسیؐ بنی اسرائیل کی جماٰعت کو لے کر فلسطین واپس لائے اور 950 ق م حضرت داوَدؐ اور سلیمنؐ کے عہد میں ہیکل سلیمانی تعمیر ہوا اور یہود اپنے عروج کو پہنچے اس کے آگے ڈھلان کا سفر ہے، سلیمانؐ کے عہد کے بعد یہ عظیم سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی Kingdom of Israel اور Kingdom of Judah، شمالی اسرائیل کی سلطنت 722 ق م میں آشوریوں (ساراگون دوم) کے ہاتھوں تباہی کو پہنچی اور یہودیہ کی سلطنت 586 ق م میں بابلیوں (بنوکد نضر) کے ہاتھوں اور پھر 70 عیسوی میں رومیوں (ٹائیٹس) کے ہاتھوں تباہ ہوئی۔ اہل یہود آشوریوں، بابلیوں، یونانیوں اور رومیوں کے ہاتھوں تباہی اور 70 ء میں ہیکل کی دوسری تباہی کے بعد دربدر ہوگئے۔ چھٹی صدی عیسوی میں حضرت محمدﷺ کی آمد کے بعد پھر آخری موقع ملا لیکن انہوں نے وہ بھی گنوا دیا۔

آئیے ان ”رویوں“ کو دیکھتے ہیں جو ان کے زوال کا سبب بنے، اور جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم تو کہیں ان رویوں کے وارث نہیں بن گئے۔

قران نے سب سے پہلے جس رویے پر چوٹ کی ہے وہ ان کا ”زعم“ تھا کہ وہ خدا کی چنیدہ قوم ہیں اور باقی اقوام سے برتر ہیں، اور دنیا اور آخرت کی سرفرازی انہیں کا مقدر ہے، رسولوں کے پے درپے بعثت انہیں میں ہوئی اس لیے حق وہی ہے جو یہ سمجھتے ہیں، خدا کے چہیتے ہیں اس لیے خدا ان سے کبھی ناراض نہ ہوگا، آسمانی بادشاہت میں ”صرف“ وہ داخل کیے جاَئیں گے۔

قران نے اس پر طنز کیا ہے، ”تم نے اللہ کے ساتھ کوئی معاہدہ کر رکھا ہے یا تم اللہ کی نسبت وہ بات کرتے ہو جو تم نہیں جانتے“

کیا جب جب تم نے روگرانی کی ہم نے سزا نہ دی، ”ہم نے بنی اسرائیل کو آگاہ کیا تھا کہ تم دو مرتبہ فساد مچاؤ گے اور بڑی تباہی سے دوچار کیے جاؤ گے“

دوسرہ رویہ اخلاقی پامالی اور شریعت سے کھلواڑ تھا۔ ظاہری رسومات، مذہبی حلیے پر زور اور اخلاقیات سے عاری اور بے بہرہ معاشرہ، انتہائی تعصب کہ حق جانتے ہوئے انبیا کا قتل۔

ذرا غور کریں کہیں ہم تو اس رویے کا شکار تو نہیں ہوئے کہ ”حق صرف ہمارے پاس ہے“، ”جنت میں صرف مسلمان جائیں گے“، ”ہم ہی خیر امت ہیں جنہیں معروف کی ترویج اور منکر کی روک تھام کی عالمی ذمہ داری دی گئی“۔ کیا ہمارے ”سیاسی اسلام“ کی جڑیں اس زعم میں تو پنہاں نہیں؟ کیا ہم آج داڑھی ناپنے، ٹخنوں کو ننگا کرنے میں ہی پیش پیش تو نہیں، ہماری مسجدیں بھری ہوئی، حجاج کی تعداد میں ہر سال اضافہ، لیکن اخلاقیات اور رویوں میں کجی کا یہ حال کہ دواوں اور غذاوں میں ملاوٹ۔ جھوٹ اور دھوکا دہی سے عبارت معاشرہ۔

آئیے ”انجیل متی“ کی آیات (سورہ 23 ) کی تلاوت کیجیے، حضرت عیسیؐ اس وقت کے یہودی علما اور ان کے معاشرے کی تصویر بیان کررہے ہیں لیکن لگتا ہے ”ہماری“ شان میں ہی نازل ہوئیں۔

لگتا ہے عیسیؐ ہمارے معاشرے کی ہی عکاسی کر رہے ہیں :

اے ریاکار فقیہو اور فریسیو! تم پرافسوس! تم بیواوں کے گھروں کو دبائے بیٹھے ہو اور دکھاوے کے لیے نمازوں کو طول دیتے ہو۔

اے اندھے راہ بتلانے والو تم پر افسوس کہتے ہو کہ کوئی مقدس کی قسم کھائے تو کچھ نہیں اگر مقدس کے سونے کی قسم کھائے گا تو اس کا پابند ہو گا۔

اے ریاکار فقیہو اور فریسیو! تم پرافسوس! کہ پودینے، سونف اور زیرے پر تو زکوۃ دیتے ہو پر تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں انصاف، رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔

اے اندھے راہ بتلانے والو، مچھر کو چھانتے اور اونٹ کو نگل جاتے ہو۔

اے ریاکار فقیہو اور فریسیو! تم پرافسوس! کہ پیالے اور رکابی کو اوپر سے صاف کرتے ہو مگر اندر سے وہ لوٹ اور ناپرہیزگاری سے بھرے ہوئے ہیں۔

اے ریاکار فقیہو اور فریسیو! تم پرافسوس! کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کی مانند ہوجو اوپر سے خوشنما دکھائی دیتی ہیں مگر اندر مردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہوئی ہیں، اسی طرح تم بھی لوگوں کو راست باز دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں ریاکاری اور بے دینی سے بھرے ہوئے ہو۔

اے سانپو کے بچو تم جہنم سے کیسے بچو گے؟

انجیل کی یہ 23 ویں سورت (Gospel of Maethhews) جس انجام کی خبر پر ختم ہوتی ہے سوال یہ ہے کہ ہم اس سے مبرا کیسے ہیں اور ہمارا انجام اس سے مختلف کیوں؟

Jerusalem، Jerusalem، you who kill the prophets and stone those sent to you، how often I have longed to gather your children together، as a hen gathers her chicks under her wings، and you were not willing

۔ Look، your house is left to you desolate

For I tell you، you will not see me again until you say، ’Blessed is he who comes in the name of the Lord

اب بنی اسرائیل کی دوسری شاخ کا جائزہ لیں، عیسائیت کے ماننے والوں نے آغاز مظلومیت سے کیا، یہودیوں کا جبر پھر رومیوں کا ظلم و ستم، حضرت عیسیؐ اور ان کے حواری ظلم و ستم کا نشانہ بنے اور حق کے علمبردار رہے، شمعون اور پال کو رومی بادشاہ نیرو نے روم شہر کے جلنے کے بعد مصلوب کیا، ان کے بعد Apostolic Fathers بھی حق کی گواہی دیتے شہید ہوئے، Clement of Rome کو لنگر کے ساتھ باندھ کر سمندر برد کیا گیا، Ignatius of Antioch کو روم لا کر colosseum میں درندوں کی خوراک بنایا گیا، Polycarp of Symyrna کو جب جلایا گیا تو اس کے آخری الفاظ تھے :

I bless you، Father، for judging me worthy of this hour، so that in the company of the martyrs I may share the cup of Christ

آغاز نہایت شاندار تھا، جبر کے باوجود حق کی مظلومانہ شہادت اور اور استقامت کی بہت نظیریں ملتی ہیں، پھر تاریخ نے کروٹ لی اورچوتھی صدی عیسوی میں قسطنطین اعظم نے عیسائیت قبول کی اور رومی سلطنت مشرف بہ عیسائیت ہوئی، مظلوم ظالم بنے، کمزور غالب آئے، محکوم حاکم ہوئے، چرچ کا استبدادی دور شروع ہوا، ایک دوسرے کی تکفیر شروع کی، ہر ایک نے الگ مسجد، چرچ بنائی، Excommunicate کرنا مشغلہ پایا، مذہبی تفرقے نے ریاست کو بھی کمزور کیا،

476 عیسوی میں ”وحشی اوڈیسر“ نے ”اگستس روملس“ کو معزول کیا اور یوں مغربی رومی سلطنت کا خاتمہ ہوا، چرچ کی طاقت بڑھ گئی، بادشاہت کا پروانہ وہاں سے جاری ہونا شروع ہوا، مذہبی انتہا پسندی اور مذہب کو سیاست کے نام پر استعمال شروع ہوا، گیارہویں صدی میں پادریوں نے indulgence بیچنا شروع کیں اور صلیبی جنگوں کا بازار گرم کیا جس میں سینکڑوں بے گناہ مارے گئے، بارہویں صدی میں Inquisition کا دور شروع ہوا جس کا مقصد ”گستاخوں اور بدعتوں“ کو سزا دینا تھا، بعد ازاں گلیلیو کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑا۔

جن کا آغاز عیسیؐ اور ان کے حواریوں کی اعلی اخلاقی تعلیمات سے ہوا، جنہوں نے حق کی مظلومانہ شہادت دی، ان کا ڈھلان کا سفر تکفیر، صلیبی جنگیں اور مذہبی جبر کی تحریکوں سے عبارت ہے، Excommunication، Crusade and Inquisition وہ اصطلاحات ہیں جو انسانیت کے لیے مجموعی اور عیسائیت کے لیے خصوصی طور پر تاریخ کا سیاہ باب ہیں۔

تکفیر Excommunicate کا جائزہ لیں چوتھی صدی عیسوی میں ”ایریئس“ جو کہ اسکندریہ کا بشپ تھا ”تثلیث“ کا ایک نیا پہلو بنان کیا، 325 عیسوی میں ”Council Of Nicea“ میں سب سے اہم بحث یہ تھی کہ ”باپ“ اور ”بیٹے“ کا درجہ کیا ہے، ”Arius and Athanasius“ کی معرکہ الارا بحث نے عیسائیت میں دراڑیں ڈالیں۔ Arian Heresy نے رومی سلطنت کے زوال میں اہم کردار ادا کیا۔ پانچویں صدی عیسوی میں سیرل نے جو کہ اسکندریہ کا بشپ تھا نسٹوریس کوجو قسطنطنیہ کا بشپ تھا ”کافر“ قرار دیا، 451 عیسوی میں ”Council Of Chalcedon“ اصل میں ”Cyril Vs Nestorius“ کی جنگ تھی۔ ”Nestorians“ کہتے تھے کہ حضرت عیسیؐ دو مختلف حیثیت رکھتے ہیں۔ انسانی اور الہی۔ جبکہ ”Monophysites“ کہتے تھے کہ حضرت عیسیؐ ایک ہی حیثیت میں الہ اور انسان ہیں۔

با لاخر 1054 میں چرچ ہمیشہ کے لیے مغربی لاطینی اور مشرقی یونانی حصوں میں تقسیم ہوگیا۔

کیا ہم نور و بشر کی لایعنی بحث میں نہیں پڑھے؟ ”علم الغیب“ جیسے مسائل پر ہم نے ایک دوسرے کو کافر قرار نہیں دیا؟ سنی، شیعہ، وہابی، دیوبندی، بریلوی فرقوں میں نہیں بٹ گئے؟ منکر حدیث، گستاخ رسول جیسے القبات ایجاد نہیں کیے؟ کیا ہم مذہب کے اصل متن اور اخلاقی سبق کو چھوڑ کر ”آمین بالجہر“ اور ”ہاتھ کو ناف پر کہاں رکھنا ہے“ جیسے بحثوں میں نہیں الجھے؟ کیا ہم نے صدیوں پرانے اقتدار کے سیاسی مسلئے کو سنی شیعہ کے عقیدے کی جنگ میں نہیں بدلا؟

آئیے Inquisition کی تحریک دیکھیں، پوپ انوسنٹ Pope Innocent III نے اپنے عیسائی بھائیوں (CATHARS) کی سرکوبی کے لیے شروع کی، یہ آگ جو اپنے دامن کو پاک کرنے کے لیے لگائی Cathars، Protetants، Witchcraft سے ہوتی ہوئی غیر مذہب کے لوگوں یہودیوں اور مسلمانوں تک جا پہنچی۔

ملکہ ازابیلا اور فرڈینینڈ نے ان یہودیوں پر جنہوں نے عیسائیت قبول کر لی تھی (Converso) ان کی مال او متاع ہتھیانے کے لیے (Spanish Inquisition) اس تحریک کا استعمال کیا، اس تحریک کا مقصد جبر کے ذریعے کیتھولک عیسائیت کو پاک کرنا تھا، Alhamra Decree کے ذریعے آکر کار یہودیوں اور مسلمانوں کا انخلا عمل میں آیا۔

محمد عبد الحی قریشی کا یہ اقتباس پڑھیں (Memories of two faliures)

The first tribunal Auto de Fe (Trial of Faith۔ Ceremony of Punishment) was held in Seville in 1481، when six people were burnt alive۔ It was said that there was so many prisoners that they would not fit in to the Castle (Toby Green in ”Inquisition، the Reign of fear) ۔ The Alhamra Decree was issued in January 1492، which ordered expulsion of estimated 300,000 to 800,000 Muslims and Jews۔ In 1526 all Muslims were expelled from Aragon۔

In 1680 Grand Auto de Fe was held in public grounds in Madrid and hundreds of prisoners were burnt۔ About 40,000 Jews were baptized forcibly۔ The converted Muslims (called Morisco، Morisca) and converted Jews (called Converso، Conversa) were watched very strictly to make sure that they were not practicing their religion secretly۔

Any person thought to be practicing their religion was tortured until he/she confessed، then burnt alive۔ The people were prohibited to speak Arabic، but they could not get rid of the popular Spanish expression ’Ole‘ which is still used today and is derived from Arabic ’Wal la lah‘ meaning ’Allah‘ ۔

کیا ہم تو کہیں زبردستی مسلمان کرنے تو نہیں نکل گئے؟ ”گستاخ کی سزا موت“ کے نعروں میں کہیں ہم اسی راستے پر تو نہیں چل پڑے؟ ہندوں اور عیسائیوں کو زبردستی مسلمان بنانے میں پیش پیش تو نہیں؟ کہیں ”بدعات“ سے پاک کرنے کے لیے کہیں ہم نے بھی جبر کا راستہ اختیار نہین کیا؟ فتوی اور مذہب کی مسندوں سے ہم نے تو کہیں نفرت کا بازار گرم نہیں کیا؟

اب ذرا Crusade کی تاریخ دیکھیں، یہ ایک لمبی تاریخ ہے، پوپ اربن دوم نے گیارہوں صدی میں سلگائی اور پھراس آگ نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ عبرت آمیزی کے لیے چوتھی صلیبی جنگ کی کہانی اہم ہے۔

1178 میں صلاح الدین نے یروشلم فتح کیا اور 1198 پوپ اننوسنٹ نے چوتھی صلیبی جنگ کا نقارہ بجایا، اتنے صلیبیوں کو ”مقدس سرزمین“ لے جانے کے لیے وینس کی خدمات حاصل کی گئیں جن کا معاوضہ 85000 silver mark طے پایا، اور اس بات پر آمادگی ظاہر کی گئی کہ صلیبی جنوب کی طرف سفر کریں گے اور مصر پرحملہ آور ہوں گے وہاں سے زمینی راستے سے یوشلم پر حملہ کریں گے، لیکن مسلئہ تب پیش آیا 35000 صلیبیوں کے بجائے صرف 12000 ہی پہنچ پائے، اس نے Venecians کو برہم کردیا انہوں نے صلیبیوں کو ایک اور پیشکش کی کہ اگر وہ شہر ZARA کو تباہ کردیں تو ان کا قرض معاف کردیا جائے گا۔

زارا ایک کیتھولک شہر تھا اور صلیبیوں کا ہی ہم مذہب اور ہم مسلک تھا، انہوں نے اپنے قلعے کی دیواروں پر صلیب کا نشان بھی لٹکایا کہ شاید بچ جائیں اس کے باوجود صلیبیوں نے شہر کو تباۃ کیا اپنے ہی بھائیوں کا قتل عام کیا۔ اس کے بعد Venecians نے پھر رشوت کے ذریعے صلیبی سرداروں کو قائل کیا کہ وہ بازنطینی ریاست کے دارالحکومت قسطنطنیہ پر حملہ کریں، 1204 میں صلیبیوں نے قسطنطنیہ کو تباہ کیا۔ اس طرح وہ جنگ گس کا ”مقصد مقدس“ شہر کو ”کافروں“ کے پنجہ سے آزادی دلانا تھا اپنے ہی بھائیوں کے قتل و غارت پر اختتام پذیر ہوئی۔

کیا ہمارے ہاں ایسی تنظیمیں وجود میں تو نہیں آئیں جنہوں نے اپنے ہی بھائیوں کا قتل روا رکھا؟ ایسے مذہبی جنونی کیا ہمارے ہاں نہیں پائے جاتے جنہوں نے اپنے ہی مذہبی بھائیوں کے خون اور مسجدوں کے تقدس کو خاطر میں نہیں رکھا؟ اس کے لیے کسی مثال کی ضرورت نہیں۔

استاد سے نکتہ سیکھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تاریخ سے سبق حاصل کرنا مقصود ہو تو تاریخ کو ”اہل یہود، اہل نصرِی اور مسلمان“ آنکھ سے نہیں ”عبرت“ کی آنکھ سے پڑھنا چاہیے یہ ”ہم“ اور ”ان“ کی بات نہیں یہ انسان کے اخلاقی ڈھلان کی کہانی ہے، تمام مذاہب کی ابتدا نہایت شاندار اور اعلی تھی۔ ان کے اولین ماننے والے اعلی اخلاقی درجے پر فائز تھے۔

کوہ طور پر جب حضرت موسی کو تورات ملی اور اہل یہود کی بحیثیت قوم ابتدا ہوئی تو ان کے ماننے والے غیر معمولی اخلاقیات کے حامل تھے۔

تین اور زیتون کی سر زمیں سے جب اہل نصری کی ابتدا ہوئی تو حضرت عیسیؐ اور ان کے حواری حق کے لیے مظلومانہ جدوجہد کا استعارہ تھے۔

اور بلد الامین (مکہ) کی زمیں سے جب اسلام کا آغاز ہوا تو حضرت محمدﷺ اور ان کے صحابہ کی جماعت انسانیت اور فطرت کا بہتین ثمر تھی۔

انسان چونکہ ذی ارادہ ہستی ہے اس لیے یہ اس کے رویے پر منحصر ہے کہ وہ اعلی اخلاقی شرف سے وابستہ رہے یا رزالت کی طرف جھکے، اگر وہ اس شرف کو چھوڑ کر اپنی خواہشات اور تعصابات کے ہاتھ اپنی لگام دے دیتا ہے تو وہ قعر جہنم میں گر پڑتا ہے، خدا کی یہ سنت بے لاگ ہے اس کے نزدیک یہودیت، عیسائیت اور مسلمانیت بے معنی کے القابات ہیں۔

میں تاریخ کے خارزار راستے میں دم لینے کے لیے رکا اور قران کی طرف دیکھا تو معلوم پڑا کہ کہ قران نے اتنے بڑے قصے کو چند آفاقی الفاظ میں سمو دیا، دیکھیے استاد نے سورہ تین کا ترجمہ کس انداز سے کیا ہے

”تین اور زیتون کے پہاڑ گواہی دیتے ہیں

اور طور سینین

اور تمھارا یہ شہر امین

کہ انسان کو ہم نے (اِن مقامات پر) پیدا کیا تو اُس وقت وہ بہترین ساخت پر تھا۔

پھر ہم نے اُسے پستی میں ڈال دیا، جب کہ وہ خود پستیوں میں گرنے والا ہوا۔

رہے وہ جو ایمان پر قائم رہے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے تو اُن کے لیے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہو گا۔ ”

ذریت ابراہیم کی ہر شاخ نے اپنی ابتدا کی تو اُس وقت وہ ٹھیک اُس ساخت پر تھے جس پر فاطر فطرت نے اُنھیں پیدا کیا ہے۔ وہ توحید پر قائم تھے، پورے یقین کے ساتھ آخرت کو مانتے تھے اور اُن کی اکثریت اخلاقی لحاظ سے حسن عمل کا بہترین نمونہ پیش کرتی تھی، لیکن جب اُنھوں نے انحراف اختیار کیا تو ہم نے اُنھیں اُس پستی میں ڈال دیا جس میں اب صدیوں سے اُنھیں گرا ہوا دیکھتے ہو۔ (جاوہد احمد غامدی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments