اس سال عورت مارچ کے اہم موضوعات


عورت مارچ

بچپن میں اخبار یا رات نو بجے سرکاری ٹی وی کے خبرنامے میں ہر سال 08 مارچ کو یہ خبر سننے ، پڑھنے کو ملتی تھی: ‘خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان کے فلاں فلاں شہر میں انسانی حقوق کی کارکنوں نے مارچ کیا اور خواتین کے حقوق یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔ مارچ میں شریک خواتین نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف نعرے درج تھے۔’

اس خبر کے بعد موسم کا حال سنایا جاتا تھا، اور کچھ دیر میں خبرنامہ ختم ہو جاتا۔ یہ ہوتا تھا عورت مارچ۔ یا شاید ہمیں اس سے زیادہ بتایا نہیں جاتا تھا۔ خواتین کے مسائل تو وہی ہیں جو چند دہائیاں پہلے بھی تھے۔ یقیناً بینرز بھی یہی ہوتے ہوں گے۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کئی سالوں سے عورت مارچ تو ہوتا رہا ہے مگر وہ یا تو اس قدر چھوٹے پیمانے پرہوتا تھا کہ بڑی خبر نہیں بنتی تھی یا سوشل میڈیا جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی عدم موجودگی میں یہ بات صرف مارچ کرنے والی خواتین ہی سمجھ پاتی تھیں کہ وہ مارچ کیوں کر رہی ہیں اور ان کے مطالبات کتنے اہم، معاشرے کے لیے کتنے سخت یا قابلِ قبول ہیں۔

مگر 2018 سے پاکستان میں بھی دہائیوں سے جاری عورت مارچ کی خبروں پر لگے قفل کُھل رہے ہیں۔ اس کے مطالبات زیادہ واضح ہو گئے ہیں، نعرے سنائی اور دکھائی دینے لگے ہیں، آوازوں کی گونج بڑھ گئی ہے اور برابری کے حق کی بجائے بات اب ‘میرے حق’ پر آ گئی ہے۔

مگر ڈھکے چھپے الفاظ سے مزین خبروں میں ‘مظالم کا شکار خواتین کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے’ کے مطالبات تو قابلِ قبول تھے مگر جب سے ان مظالم، ناانصافیوں اور حق شکنی کی فہرست باہر نکلی ہے، یہ عورت مارچ بھی ایک طبقے کی سمجھ سے باہر ہوا ہے۔

مزید پڑھیے

پاکستان میں ’عورت مارچ‘ کے مقبول نعرے

’قانون اور آئین کے تحت عورت مارچ کو نہیں روکا جا سکتا‘

اسی طبقے کو سمجھانے کے لیے اس بار عورت مارچ سے پہلے خواتین نے سوچا کہ پہلے بتایا جائے کہ ہم مارچ کیوں کرنا چاہتی ہیں۔ سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائیٹس پر ہیش ٹیگ ‘وائے آئی مارچ’ یعنی میں مارچ کیوں کرتی ہوں کہ تحت خواتین نے نہ صرف وجوہات بتائیں بلکہ کئی خواتین اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی تفصیل سامنے لائیں اور انفرادی سطح پر ہونے والے واقعات کی بنیاد پر بتایا کہ وہ کیوں مارچ کر رہی ہیں۔

بی بی سی پاکستان میں عورت مارچ کے منتظمین سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ اس برس مارچ کی تھیمز ہیں کیا؟

سماجی کارکن قرت مرزا نے بتایا کہ اس سال بھی ماضی کی طرح خواتین کے بنیادی حقوق کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ عورت مارچ دو سال سے ہو رہا ہے، اور یہ کہ یہ ایک سماجی تحریک ہے جو خواتین کے آئینی اور قانونی حقوق کے لیے ایک جدوجہد ہے۔

قرات مرزا کے مطابق ‘ہماری لڑائی ہماری پہچان کی لڑائی ہے’ اور ان کا موٹو ہے ‘میری پہچان میرا پہلا حق۔’

‘صنف کی بنیاد پر تشدد کا خاتمہ کیا جائے’

عورت مارچ کی اہم ترین اور پہلی تِھیم تشدد کا خاتمہ ہے۔

عورت مارچ(فائل فوٹو)

لیکن قرات مرزا کے مطابق یہ نعرہ صرف عورت پر تشدد کے خلاف ہی نہیں، بلکہ ہر اس انسان سے جڑا ہوا ہے جو معاشرے میں کسی بھی قسم کا تشدد سہتا ہے۔

وہ کہتی ہیں، ‘ہمارا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ صنف کی بنیاد پر کیے جانے والے کسی بھی قسم کے تشدد کا مکمل اور فوری خاتمہ کیا جائے، اس ضمن میں جن صوبوں میں قانون سازی نہیں ہوئی وہاں قانون بنائے جائیں اور جہاں قوانین رائج ہیں وہاں ان پر مکمل عملدرآمد یقینی بنایا جائے’۔

منتظمین کے مطابق تشدد سے ان کی مراد ‘گھر کے اندر، گھر کے باہر اور کام کی جگہوں پر پُرتشدد رویہ ہے۔’

خواتین کو ‘آزادی’ دیں ، مگر ‘آزادی کا مطلب کیا ہے؟’

عورت مارچ میں ایک اہم لیکن سب سے متنازع مطالبہ عورت کی آزادی کا ہے۔

لیکن اس آزادی سے کیا مراد ہے، قرات مرزا نے بی بی سی کو بتایا کہ آزادی کا نعرہ لگایا جا رہا ہے جس کا مقصد ہر اس نظام سے آزادی ہے جو عورت اور مرد دونوں سے ہی ان کے حقوق چھینتا ہے۔

وہ کہتی ہیں: ‘آزادی کے نعرے کا مطلب پدر شاہی نظام سے آزادی ہے جو صرف عورتوں کو ہی نہیں بلکہ مردوں کو بھی محکوم بناتا ہے۔ ہم سرمایہ دارانہ نظام سے آزادی چاہتے ہیں جو کہ عورتوں اور مردوں میں فرق نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ ہم جاگیردارانہ نظام سے آزادی چاہتے ہیں جو عورت کو صنف کی بنیاد پر محکوم بناتا ہے۔

‘عورت کے لیے معاشی اور ماحولیاتی انصاف ‘

عورت مارچ کے منتظمین کے مطابق ان کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ خواتین کے لیے معاشی انصاف یقینی بنایا جائے۔

قرات مرزا کے مطابق سماجی سطح پر نچلے ترین درجے پر موجود عورت کا تحفظ ہونا چاہییے اور یہی ان کا مطالبہ ہے۔ ‘عورت کی محنت اور اس کی مزدوری کو ایکنالج کیا جائے، وہ گھر کا کام ہو، دفترکا یا کسی کھیت یا فیکٹری میں محنت کرنے والی عورت ہو، یہ ضروری ہے کہ اس کی محنت کو سمجھا جائے اور اسے اس کی محنت کے مطابق اجرت دی جائے۔ گھر میں کام کرنے والی خاتون خانہ ہیں تو ان کی عزت کی جائے کیونکہ جب خاتون خانہ گھر سنبھالتی ہے تو اس گھر کا مرد باہر جا کر نوکری یا کاروبار کر پاتا ہے، اس طرح یہ سمجھنا ہو گا کہ وہ خاتون خانہ اپنے خاندان کے معاشی استحکام میں برابر کا حصہ ڈال رہی ہے، اور اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہییے۔’

‘عورت کو شہر کا حق ہے’

‘رائٹ ٹو دا سٹی’ یعنی شہر میں عورت کا حق بھی عورت مارچ کے مطالبات میں سے ایک ہے۔

قانونی ماہر اور سماجی کارکن دانیکا کمال کہتی ہیں کہ ‘جس شہر میں آپ رہتے ہیں وہ عورتوں کا بھی ہے۔‘

‘قرات مرزا کہتی ہیں کہ ‘میں اگر تھک کر باہر کہیں کسی ڈھابے پریا سڑک کنارے ہوٹل میں چائے پی رہی ہوں تو مجھے گھورتی نظریں نہیں چاہیئں اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گھر سے باہر چائے پینے سے کسی کا کردار خراب نہیں ہوتا۔’

‘میڈیا کا مثبت کردار کہاں ہے؟’

عورت مارچ میں میڈیا کہ کردار کے حوالے سے بھی بات کی جائے گی۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کئی سماجی کارکن سمجھتے ہیں کہ میڈیا کسی بھی برائی یا ظلم کو دکھاتے وقت یہ خیال نہیں رکھتا کہ وہ دانستہ یا نادانستہ طور پر خواتین کو ہی منفی انداز میں نشانہ بناتا ہے۔میڈیا کو واضح ہونا چاہییے کہ معاشرے کی برائیاں بتائے نہ کہ عورت کو کمزور دکھائے۔

قرات سمجھتی ہیں کہ میڈیا میں عورت تین ہی کرداروں میں نظر آتی ہے، ‘وہ مظلوم ہے یا ظالم ہے یا وہ شادی سے باہر تعلقات میں ملوث ہے، عورت اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے، اس ملک کی شہری ہے، دل اور دماغ رکھتی ہے۔ وہ گھر سنبھالتی ہے، تو اس کے خاندان کے لوگ باہر جا کر معاشی سرگرمیوں میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ عورت کا کردار گھر کے اندر بھی اور باہر بھی بہت اہم ہے۔اور یہی میڈیا کو دکھانا بھی چاہییے۔ ‘

دانیکا کمال کہتی ہیں کہ خواتین کے ساتھ ہونے والے مظالم میں ظلم کرنے والے کو دکھانا چاہیے اور کئی اصطلاحات جو عام طور پر خواتین کے ریپ یا تشدد سے جُڑی ہیں انہیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور اس پر بحث بھی اس مارچ کا ایک مقصد ہے۔’

‘یکساں کام، یکساں اجرت’ کا مطالبہ

عورت مارچ

عورت مارچ میں خواتین کا ایک مطالبہ محنت کی اجرت سے جڑا ہے۔ منتظمین کے مطابق کسی بھی سطح پر کام کرنے والی خواتین عام طور پر کام تو زیادہ کرتی ہیں مگر انہیں اس کا معاوضہ کم دیا جاتا ہے۔ اس مارچ میں وہ چاہتی ہیں کہ خواتین کے لیے نہ صرف روزگار کے مواقع برابری کی سطح پر ہوں بلکہ ان کو محنت کی اجرت بھی اتنی ہی دی جائے جتنی مرد کو دی جاتی ہے۔

‘تولیدی صحت کے حقوق عورت کو دیئے جائیں’

عورت مارچ کے مطالبات میں صحت سے متعلق بنیادی فیصلوں کا حق عورت کو دینا نہایت اہم سمجھا جاتا ہے۔

سماجی کارکن قرات مرزا کہتی ہیں کہ ایک عورت نے کتنے بچے پیدا کرنے ہیں، کیا اس کے جسم میں مزید بچوں کی سکت ہے یا نہیں، یا اس کی شادی کس عمر میں کی جارہی ہے، کس سے کی جا رہی ہے، کیا بیٹیاں پیدا ہونے کی صورت میں وہ مسلسل حمل اور پیدائش کے عمل سے گزرتی رہے گی، اس تمام عمل کا فیصلہ کرنے کا حق عورت کے پاس ہونا چاہیے نہ کہ ان سے جڑے مرد حضرات کا۔

‘سیاست میں حصے کا حق’

عورت مارچ کا ایک اور اہم مطالبہ سیاست میں خواتین کی برابری کی سطح پر شرکت کے لیے تبدیلیاں کرنا ہے۔

سماجی کارکن دانیکا کمال کہتی ہیں کہ یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ مرد سیاستدانوں کی طرح خواتین بھی مرکزی کردار ادا کر سکیں، اگر وہ ملکی آبادی کا نصف ہیں تو ان کی نمائندگی بھی زیادہ ہو تاکہ خواتین کے حق میں آواز بھی بلند ہو سکے اور قانون سازی بھی’۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp