لسی پریا کُنجُم: وزیرا عظم مودی سے ملنے والا اعزاز ٹھکرانے والی بچی


لسیپریا کُنجُم

Licypriya Kangujam/Twitter
لسیپریا کُنجُم

’پیارے نریندر مودی جی۔ اگر آپ میری آواز نہیں سنیں گے تو پلیز مجھے سلیبریٹ مت کیجیے۔ متاثر کن خواتین کے بارے میں آپ کے قدم SheInspiresUs # کے تحت مجھے ان خواتین میں شامل کرنے کا شکریہ۔ کئی بار غور کرنے کے بعد میں نے یہ اعزاز ٹھکرانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

وزیرا عظم نریندر مودی کی جانب سے دیے جانے والے اس اعزاز کو ٹھکرانے والی آٹھ سالہ بچی کا نام لسی پریا کُنجُم ہے۔

لسی پریا کُنجُم کا تعلق انڈیا کی شمال مشرقی ریاست منی پور سے ہے۔ وہ ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف آواز بلند کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔

انہیں سنہ 2019 میں بچوں کے عالمی امن کے انعام نے نوازا گیا تھا۔

انڈین حکومت کی جانب سے 8 مارچ یعنی انٹرنیشنل ویمینس ڈے کے موقع پر ایسی خواتین کا ذکر کیا جا رہا ہے جو کو مختلف شعبوں میں غیر معمولی کردار ادا کر رہی ہیں۔

https://twitter.com/LicypriyaK/status/1235921597552189442

اسی سلسلے میں @mygovindiaٹوئٹر ہینڈل سے ٹوئیٹ کیا گیا کہ ’لسی پریا کُنجُم ایک ماحولیاتی امور کی کارکن ہیں۔ سال 2019 میں انہیں ڈاکٹر اے پی جے عبد ال کلام چلڈرین ایوارڈ، عالمی امن کا انعام اور انڈیا کے امن کے انعام سے نوازا گیا۔ کیا آپ ان کے جیسی کسی کو جانتی ہیں؟ @SheInspiresUs ہیشٹیگ کے ساتھ ہمیں بتائیے۔‘

یہ بھی پڑھیے

گریٹا اور ملالہ لڑکیاں ہو کر بولتی ہیں؟

ماحولیاتی تبدیلی کیا ہے؟

جاندار ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے سے قاصر

لسیپریا کُنجُم

Licypriya/Twitter

لسی پریا کی جانب سے انکار

انڈین حکومت کی اس ٹوئٹ کے جواب میں لسی پریا نے شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ یہ اعزاز قبول نہیں کر سکتی ہیں۔

انہون نے اس بارے میں لگاتار کئی ٹوئٹس کیں۔

انہوں نے لکھا کہ ’پیارے رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں، مجھے اس کے لیے تعریف نہیں چاہیے۔ اس کے بجائے اپنے اراکین پارلیمان سے کہیے کہ پارلیمان میں میری آواز اٹھائیں۔ مجھے اپنے سیاسی مفاد اور پروپگینڈا کے لیے کبھی استعمال مت کیجیے گا۔ میں آپ کے حق میں نہیں ہوں۔‘

https://twitter.com/LicypriyaK/status/1236190819612147715

لسی پریا کُنجُم نے #ClimateCrisisکے ساتھ ایک اور ٹوئٹ میں لکھا ’آپ کے اراکین اپرلیمان گونگے ہونے کے ساتھ بہرے اور اندھے بھی ہیں۔ یہ ناکامیابی ہے۔ ابھی کارروائی کیجیے۔‘

https://twitter.com/LicypriyaK/status/1236191223985012737

لسی پریا وزیر اعظم مودی اور اراکین پارلیمان سے ماحولیات میں تبدیلی پر قانون بنائے جانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

چائے، کافی یا چاکلیٹ کے بغیر زندگی کے لیے تیار ہیں؟

کیا ہم کیڑے کھا کر دنیا کو بچا سکتے ہیں؟

لسیپریا کُنجُم

Licypriya/Twitter

سوشل میڈیا پر رد عمل

لسی پریا کے ایسے سخت رویے پر سوشل میڈیا پر مختلف رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ چند افراد ان کے بولڈ جواب کے لیے ان کی تعریف کر رہے ہیں تو چند کا کہنا ہے کہ انہیں گمراہ کیا گیا ہے۔

کچھ لوگ اس بارے میں بھی سوال کر رہے ہیں کہ یہ ٹوئٹ کیا واقعی انہوں نے ہی کی ہیں؟ کیوں کہ جو باتیں لکھی گئی ہیں، لسی پریا کی عمر اس اعتبار سے بہت کم ہے۔

لسی پریا کے اکاؤنٹ پر واضح طور پر لکھا ہے کہ ان کا اکاؤنٹ ان کے سرپرست چلاتے ہیں۔

کچھ لوگ لسی پریا کو یہ کہتے ہوئے ٹرول کر ہے ہیں کہ انہوں نے انڈین حکومت کی جانب سے ملنے والے اعزاز کی توہین کی ہے۔

سوشل میڈیا پر جاری بحث کے درمیان لسی پریا نے چند گھنٹے قبل ایک اور ٹوئٹ کی۔

انہوں نے لکھا، ’پیارے بھائیوں، بہنوں، میڈم۔ مجھ پر آواز کسنا اور اپنا پروپگینڈا چلانا بند کیجیے۔ میں کسی کے خلاف نہیں ہوں۔ میں سسٹم میں تبدیلی چاہتی ہوں، ماحولیات میں نہیں۔ میں کسی سے امید نہیں رکھتی۔ میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ ہمارے رہنما میری آواز سنیں ۔ مجھے یقین ہے کہ میری جانب سے انعام قبول نہ کیا جانا میری آواز سنے جانے میں میری مدد کرے گا۔‘

https://twitter.com/LicypriyaK/status/1236189995867627520

لسی پریا کا موازنہ اکثر سویڈن کی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ سے کیا جاتا ہے۔ حالانکہ لسی پریا کو یہ بات پسند نہیں ہے۔ وہ اس بات پر زور دے کر کہتی ہین کہ ان کی اپنی مختلف پہچان ہے۔

https://twitter.com/LicypriyaK/status/1221628420611698689

لسی پریا نے ٹوئٹر پر خود کو ایک ’بے گھر ماحلویاتی کارکن بچہ‘ بتایا ہے۔

لسیپریا کُنجُم

Twitter@LicypriyaK

وزیرا عظم مودی نے چند روز قبل ٹوئٹ کر کے کہا تھا کہ ’اس ویمینس ڈے پر میں اپنے سبھی سوشل میڈیا اکاؤنٹ ان خواتین کے نام کروں گا جن کی زندگی اور کام سبھی کے لیے متاثر کن ہیں۔ یہ لاکھوں افراد کو متاثر کرنے کا کام کرے گا۔‘

وزیر اعظم مودی نے لکھا تھا کہ ’کیا آپ ایسی خاتون ہیں یا کسی ایسی متاثر کن خاتون کے بارے میں جانتے ہیں؟ #SheInspiresUs کا استعمال کر کے ایسی کہانیاں شیئر کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp