تنگ کیوں ہے زمین عورت کو؟


عورت روئے زمین کی وہ مخلوق ہے جسے مرد کی پسلی سے پیدا کیا گیا۔ مرد جس کو مٹی سے بنایا گیا مگر عورت کی تخلیق کے لیے اللہ سبحان و تعالیٰ نے جس چیز کو چنا وہ مقدس بھی تھی اور پاک بھی۔ مگر تاریخ کے اوائل سے لے کر آج قوموں کے عروج تک اگر کوئی مخلوق زمین پر ہرحوالے سے ظلم و تعدی کا شکار ہے تو یہ بیچاری عورت ہی ہے۔ معاشرہ چاہیے ترقی پذیر ہو یا ترقی یافتہ، عورت کے لیے غیر محفوظ ہی ہے۔ فرانس میں گذشتہ سال ڈیڑھ سو سے زائد عورتیں اپنے شوہروں یا بوائے فرینڈز کے تشدد کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار گئیں۔

اسے بد قسمتی ہی کہاجا سکتا ہے کہ معاشرے میں مذہب عورت کو تحفظ دینے کے معاملے میں ناکام نظر آ رہا ہے اگرچہ عورت کو دین کے نام پر ایسے احکامات کی لاٹھی سے ہی ہانکا جاتا ہے جن کا دین میں کوئی وجود ہی نہیں۔ اس میں قصور نہ تو مذہب کا ہے اور نہ ہی مذہبی حکام کا کیونکہ جب صحیح چیز غلط ہاتھوں میں چلی جاتی ہے تب اس کا استعمال بھی غلط ہی ہوتا ہے۔ مفاد پرست لوگ تو ہر معاشرے میں ہوتے ہیں جو مذہب اور اخلاقیات کو اپنے کھوکھلے نظریات کے پرچار اور تحفظ دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اندھی تقلید کا شکار لوگ ایسے لوگوں کی باتوں کو سچ مانتے ہوئے نہ دین کے رہتے ہیں اور نہ ہی دنیا کے۔ معاشرتی گھٹن اور اس میں مسلسل اضافہ عورت کے وجود کے لیے دیمک بن چکا ہے جو اس کے وقار کو کھائے جا رہا ہے۔

جدید معاشروں کی بات کی جائے جہاں پر حقوق کو اولین حیثیت حاصل ہوتی ہے وہاں بھی عورت انتہائی ذلت سے دوچار ہے جیسا کہ امریکہ، جو عورتوں کے حقوق کا عالمی چیمپیئن ہونے کا دعوی کرتا ہے وہاں ہر پانچ منٹ میں ایک عورت گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہے، ہر دو منٹ بعد ایک عورت قتل جبکہ ہر چھ سیکنڈ بعد ایک عورت اپنی عزت گنوا بیٹھتی ہے۔ اسی طرح ایک اور رپورٹ کے مطابق برطانیہ جیسے جمہوری روایات کا امین کہا جاتا ہے وہاں بھی ہر دوسری عورت گھریلو تشدد اور گھر سے باہر مردوں کی جانب سے ہتک آمیز رویے کا سامنا کرتی ہے۔

یہی صورت حال باقی پورے یورپ میں بھی پائی جاتی ہے جہاں قوانین بہت مضبوط ہیں۔ ترقی یافتہ معاشرے میں عورتوں کے ساتھ یہ سلوک کیا ان کی اپنی پسند ہے یا معاشرے میں اپنی فعالیت منوانے کے لیے جو جدوجہد اس نے کی، اس کی سزا یا رد عمل۔ کسی بھی معاشرے کا مرد عورت کو اپنے برابر دیکھنا پسند نہیں کرتا اورجو ایسا کرتی ہیں اور مرد برداشت نہیں کرتے وہیں جبر پیدا ہوتا ہے جو تاریخ کے اوراق کو لال بھی کرتا ہے اور سیاہ بھی۔

کہا جاتا ہے کہ ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اسی طرح ایک عورت کی کامیابی کے پیچھے بھی اس کے گھر کے افراد کا ہی عمل دخل ہوتا ہے۔ مگر اب ایسا نہیں ہو رہا، بہت ساری خواتین نے اپنی ذاتی جدوجہد کے سبب ان میدانوں میں بھی اپنا لوہا منوایا جہاں ان کے خاندان کا کوئی اثر و رسوخ یا کوئی پس منظر نہیں تھا۔ اگرچہ آج پاکستان میں بھی بعض خواتین اپنی انفرادی کوششوں سے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کار کردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور خود کو منوا رہی ہیں مگر وہیں ان کے مجموعی حالات میں کوئی خاص تبدیلی رونما ہوتی نظر نہیں آتی۔ یہ وہ خواتین ہیں جو اعلیٰ عہدوں پر کام کر رہی ہیں مگر اپنے خاندانوں کی معاشی مددگار کے طور پر ایسی خواتین کی تعداد لاکھوں کروڑوں میں ہے جن کو ”ہوم ورکرز“ کہا جاتا ہے جو استحصال کی بدترین چکی میں پس رہی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔

حکومت کی ناقص پالیسوں، غربت اور مہنگائی میں ہوشربا اضافہ کی وجہ سے ان ”ہوم ورکرز“ کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ وہ گھریلو مزدور ہیں جو انتہائی قلیل معاوضوں پر اپنے گھروں میں بیٹھ کر کام کر رہی ہیں۔ مارکیٹ سے براہ راست تعلق نہ ہونے کی وجہ سے بھی مڈل مین جو مختلف کارخانوں سے اپنے من چاہیے معاوضہ پر کام لیتا ہے مگر آگے ان خواتین کو وہی کام کم قیمت پر دیتا ہے اور اس پر بھی احسان جتاتا ہے کہ تم کو عزت کی روٹی گھر بیٹھے فراہم کر رہا ہوں جبکہ سارا منافع وہ خود کھا رہا ہوتا ہے۔

یہ خواتین معاشی طور پر اپنے گھروں کو سپورٹ تو فراہم کرتی ہیں مگر مجموعی طورپر ان کی حالت بہت خراب ہے۔ اپنے گھر یلو فرائض سر انجام دینے کے علاؤہ بچوں کی پرورش، ان کی دیکھ بھال اور دیگر افراد خانہ کے کام بھی سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ یہ گھریلو ورکرز کے طور پر بھی کام کرتی ہیں مگر ایک فعال خاندانی رکن ہونے کے باوجود اس عزت سے محروم ہیں جو ان کا بنیادی حق ہے۔ جس کی وجہ ہمارا وہ سماجی ڈھانچہ ہے جس میں مرد چاہیے نکما ہی کیوں نہ ہو اس کو ہی برتری حاصل ہوتی ہے اور اگر عورت اتنی خدمات کے عوض صرف عزت ہی مانگ لے تو وہ بدکردار مانی جاتی ہے اور پھر طلاق اور بدنامی بھی اسی کے حصے میں آتی ہے۔

دوسری جانب حکومت، قوانین اور معاشرے کے اکابرین اس حوالے سے خاموش تماشائی ہیں، یہ ان کا گھریلو معاملہ ہے کہہ کر کوئی مداخلت نہیں کرتا اور اگر وہ عورت قتل کر دی جائے تو پھر اسے غیرت کے نام پر قتل قرار دے کے اسی ناکارہ اور نکمے مرد کو یہ معاشرہ ہیرہ بنا دیتا ہے۔ مگر میرا معاشرے سے ایک سوال ہے کہ وہ تب کہاں ہوتا ہے جب وہ عورت اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے گدھے کی طرح کام میں جتی رہتی ہے مگر پھر بھی شوہر نام کی مخلوق اس سے راضی نہیں ہوتی الٹا یہ اس کی کمائی پر عیاشی کرتا ہے نہ صرف خود بلکہ اس کا خاندان بھی۔

المیہ یہ بھی ہے کہ بعض اوقات وہ اولاد جس کے لیے وہ ماں محنت کرتی ہے وہ بھی دنیا سے کہتی پھرتی ہے اس نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا۔ وہ عورت ایک عمر کی جدو دجہد کے بعد بھی بے گھر ہی رہتی ہے۔ عورت کا سماجی اور معاشی تحفظ صرف ایک معاشرتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ مذہب اور ریاستی دائرہ کار میں بھی آتا ہے کہ نہ صرف وہ ایسے قوانین بنائے بلکہ ان پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنائے جو عورت کے وقار اور عزت کو تحفظ فراہم کریں۔

معروف شاعر ارشاد نیازی لکھتے ہیں کہ

تنگ کیوں ہے زمین عورت کو
کھا گئی ہر ذہین عورت کو

دیکھ کر دو جھکائیں نظریں اور
تاڑتے بھی ہیں تین، عورت کو

چار دیواری بھی نہیں محفوظ
اک مکاں میں مکین عورت کو

سچ کہوں حسن بھی مصیت ہے
آج کل تو حسین عورت کو

سخت پتھر سے کم نہیں لیکن
توڑتا ہے یقین عورت کو

کیوں سمجھتے ہیں پاؤں کی جوتی
کچھ کمین اور لعین، عورت کو

ماں بہن بیوی دیکھ کر ارشاد
سب کہو بہترین، عورت کو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments