خواتین کا عالمی دن: گھروں اور بھٹوں پر کام کرنے والی مزدور خواتین کے لیے عورت مارچ کا مطلب کیا ہے؟


عورت مارچ

پاکستان کے بڑے شہروں میں ہونے والے عورت مارچ سے متعلق کچھ لوگ یہ تنقید کرتے ہیں کہ مارچ میں شریک خواتین پاکستان کی تمام عورتوں کی ترجمانی نہیں کرتی ہیں۔

اس بنیادی تنقید کی حقیقت جاننے کے لیے میں نے اس سال کسی بڑے شہر کے بجائے پنجاب کے ایک چھوٹے شہر کا رخ کیا۔ آج صبح سویرے ہی میں پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے لیے روانہ ہوئی۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ پہنچنے کے بعد میں نے اس علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ساجدہ سے رابطہ کیا۔ ساجدہ نے ہمیں ایک دفتر میں بلایا۔ جب میں وہاں پہنچی تو وہ ایک گھر تھا جس کی بالائی منزل کو ہی بھٹہ مزدور اور گھریلو ملازمین کی یونینز کا دفتر بنایا گیا ہے۔

ایک کمرے میں دس، پندرہ خواتین بیٹھی تھیں جبکہ دوسرے کمرے میں مرد بیٹھے تھے۔ ساجدہ نے میری ملاقات وہاں بیٹھے ایک شخص شبیر سے کروائی جو بھٹہ مزدور یونین پنجاب کے جنرل سیکریٹری ہیں۔

گھریلو ملازمین

عورت مارچ

تعارف ہونے کے بعد انھوں نے بتایا کہ ہم نے خاص طور پر خواتین مزدوروں کو کال دی ہے تاکہ وہ اپنے عورت مارچ کے ذریعے اپنے مسائل کو اجاگر کر سکیں۔ ان کے بعد میں خواتین کے کمرے میں چلی آئی۔

اس کمرے میں موجود تمام خواتین سے میں سوال کیا آج آپ یہاں کیوں جمع ہوئی ہیں؟ تو چند نے جواب دیا کہ انھوں (آرگنائزرز) نے بلایا تھا اور کچھ نے کہا کہ ’باجی بڑے مسئلے ہیں ہم تو ہر چار پانچ مہینوں بعد جلوس نکالتے ہیں کہ ہمارے مسئلے حل ہو جائیں۔‘

میں نے پوچھا کہ کیا کیا مسائل ہیں؟ اس پر ساتھ بیٹھی ایک خاتون بولیں کہ سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ اتنی محنت کرتے ہیں اور چار پیسے بھی نہیں ملتے ہیں۔ روز صبح گھر سے نکلتے ہیں کمانے کے لیے اور باہر جا کر بھی ذلیل ہوتے ہیں اور گھر واپس آ کر خاوند سے الگ باتیں سنتے ہیں اور مار بھی کھاتے ہیں۔ ہمارے تو بچے بھی ہمیں باتیں سناتے ہیں کیونکہ گھر کے خرچے ہی پورے نہیں ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

اس سال عورت مارچ کے اہم موضوعات کیا ہیں

بی بی سی کی عورت مارچ کی خصوصی لائیو کوریج

عورت مارچ کی قیادت اور فنڈنگ پر اعتراضات کی وجہ کیا؟

اس بات پر ایک اور خاتون بولیں کہ باجی میں پورا مہینہ کام کرتی ہوں کسی کے گھر اور مجھے صرف 1500 روپے ملتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھر کی مالکن سے الگ باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ اور اگر کسی نے گھر میں چھوٹی بچی یا بچہ کام پر رکھا ہو تو وہ اسے مار بھی لیتے ہیں۔ اس لیے ہم آج اکٹھے ہوئے ہیں کہ کم از کم کچھ اور نہیں تو ہمیں اجرت تو ہماری محنت کے برابر ملے۔

بھٹہ مزدور خاتون

عورت مارچ

میں نے عورت مارچ کے منتظمین سے پوچھا کہ کتنی دیر تک آپ لوگ مارچ شروع کریں گیں تو انھوں نے جواب دیا کہ بس کچھ بھٹہ مزدور خواتین آ رہی ہیں وہ آ جائیں تو شروع کر دیں گے۔

اسی دوران مجھے ایک زاہدہ نامی خاتون ملیں جو اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ مارچ میں شرکت کے لیے آئی تھی۔

میں اس سے پوچھا کہ آپ بھٹے پر کام کرتی ہیں تو آپ کو کن مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ زاہدہ نے بتایا کہ حکومت نے ہماری روز کی کم از کم اجرت 1250 روپے مختص کی ہے لیکن ہمیں بھٹہ مالکان کی جانب سے اتنے پیسے نہیں دیے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ خواتین سے کام کروایا جاتا ہے لیکن کسی قسم کا کوئی کھاتہ نہیں بنایا جاتا جبکہ مردوں کے رجسٹر بنائے جاتے ہیں۔ ہمارا سوشل سکیورٹی کارڈ بھی نہیں ہے نہ ہمارے لیے بھٹوں پر پینے کا صاف پانی ہوتا ہے اور نہ ہی واش روم ہیں۔ ہم رفع حاجت کے لیے کھیتوں میں جاتے ہیں اور وہاں مرد بھی ہوتے ہیں اور اکثر اوباش لڑکے بھی جو ہمیں وہاں چھیڑتے ہیں۔

تاہم ہم کچھ نہیں کر سکتی ہیں کیونکہ ہمارے علاقوں میں تو اگر کسی بچی یا عورت سے کوئی مرد چھیڑ خانی یا زیادتی کرتا ہے اور اس کی شکایت کر دی جائے تو کہا جاتا ہے کہ ’چپ ہو جاؤ، دفع کرو اس بات کو۔‘

انھوں نے دعوی کیا کہ اگر کبھی ہم علاقے کے چوہدری کے پاس شکایت لے کر جاتے ہیں تو وہاں الٹا عورت کو ہی سب مرد برا بھلا کہتے ہیں اور الزام عائد کرتے ہیں کہ ’تم تم ہو ہی اوچھی اور آوارہ عورت۔‘

زاہدہ کا مزید کہنا تھا کہ ایسے معاملات کو دبا دیا جاتا ہے۔ اس لیے بہت مجبوری کے تحت ہم اپنی بچیوں کو کام پر بھیجتے ہیں کیونکہ پیٹ کی خاطر بڑا کچھ کرنا اور برداشت کرنا پڑتا ہے۔

ہم کیسے ایک ساتھ اپنے حقوق کے لیے لڑیں

عورت مارچ

مختلف خواتین سے بات کرنے کے بعد میں کچھ دیر کے لیے اُس دفتر سے باہر آ گئی۔

آہستہ آہستہ خواتین وہاں پہنچ رہی تھیں۔ اتنی دیر میں ایک خاتون میرے پاس آئیں اور پوچھا کہ ’باجی تسی کیتھوں آئے او۔‘ میں نے جواب دیا کہ میں لاہور سے آئی ہوں۔ انھوں نے مجھے اپنا نام صابری بتایا اور کہنے لگیں کہ باجی ہمارے کچھ مسئلے حل کروا دیں۔

میں اس سے پوچھا کہ آپ کا کیا مسئلہ ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میری تین بیٹیاں ہیں اور ہم آلو کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ سارا دن مٹی میں سے آلو نکال نکال کر ہاتھ رہ جاتے ہیں اور ہمیں ایک کلے سے آلو نکالنے کے 55 روپے ملتے ہیں۔ جبکہ اردگرد کے گاؤں میں ساٹھ روپے دیے جاتے ہیں۔ ہم نے اتنی بار بات کی ہے مالک سے کہ ہمارے پیسے بڑھا دو، وہ آگے سے کہتا ہے کہ اتنے پیسوں میں کام نہیں کرنا تو چلی جاؤ۔

میں نے اس سے پوچھا کہ آپ سب آج ادھر ایک مارچ کر رہی ہیں تو انھیں مسائل کے لیے آئی ہیں۔ جس پر صابری نے جواب دیا کہ کہاں باجی یہ تو اس لالچ میں آئی ہیں کہ شاید ان کو کچھ راشن مل جائے کیونکہ ہمارے علاقے میں بہت غربت ہے۔

اس نے مزید بتایا کہ ’ہمارے ہاں تو عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے۔ ہم کیسے ایک ساتھ اپنے حقوق کے لیے لڑیں۔‘ انھوں نے کہا کہ اب میری ہی مثال لے لیں۔ ہم نے جب بھی مالکوں کو کہا کہ ہمارے پانچ روپے بڑھا دو تب ہی ہمارے علاقے کی عورتیں اس سے بھی کم پیسوں میں جا کر وہی کام کرنے کو تیار ہو جاتی ہیں۔

صابری کا کہنا تھا کہ اب ایسی سوچ کے ساتھ کسی بھی عورت کا کیا بھلا ہونا۔ اپنی بے بسی کا تذکرہ کرتے ہوئے صابری کا کہنا تھا کہ ہم تو صرف پیٹ بھرنے کے لیے ہی اپنے حقوق مانگتے ہیں۔ کہ عزت اور تحفظ کے ساتھ ہم اپنا رزق کما لیں لیکن ہمیں تو یہ سہولیات بھی باآسانی نہیں ملتیں باقی باتیں تو بعد کی ہیں۔

’میرے ماں پاب نے مجھے تعلیم ہی نہیں دی‘

عورت مارچ

کچھ دیر بعد گجرہ چونگی روڈ سے مارچ شروع ہوا جس میں خواتین نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جس پر ان کے مطالبات درج تھے۔

’ہمیں سوشل سکیورٹی کارڈ فراہم کیے جائیں، جائیداد میں ہمارا حصہ بھی ہے، بھٹوں سے جبری مشقت کا خاتمہ کیا جائے، ہمیں ہماری پوری اجرت دی جائے، تعلیم ہمارا حق ہے۔‘

عورت مارچ میں موجود ایک ضعیف خاتون نے بھی پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ماں جی کیا آپ کو پتا ہے کہ اس پر کیا لکھا ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا پتر میں تو پڑی لکھی ہی نہیں ہوں مجھے کیا پتا کیا لکھا ہے۔ میرے تو ماں باپ نے مجھے تعلیم ہی نہیں دی بلکہ انھوں نے تو ساری زندگی مجھ سے کام ہی کروایا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تعلیم بہت ضروری ہے۔ اس لیے تو میں بھی آج آئی ہوں کہ چلو ہماری بچیاں ہی تعلیم حاصل کر لیں کیونکہ یہ تو سب کا حق ہے۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp