میرا جسم میری مرضی: فحش نعرہ نہیں، انسان ہونے کا اعلان ہے


“میرا جسم میری مرضی، نہایت بیہودہ اور واہیات نعرہ ہے، اس کے الفاظ فحش ہیں، آپ اس کی حمایت کیوں کر رہی ہیں؟”

یہ ہے وہ پیغام جو ہمیں دنیا کے ہر کونے سے موصول ہو رہا ہے۔ دوست احباب، خاندان، ہم جماعت، قارئین، ہم سے پوچھتے ہیں کہ اب تک تو ہم اچھے بھلے ایک “اچھی” عورت کی طرح جیے جا رہے تھے۔ پھر یہ کایا کلپ، آخر کیوں؟

ہم جواباً ہنس پڑتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کوئی بتائے کہ کیا بتلائیں ہم!

بات صرف اتنی سی ہے کہ “میرا جسم میری مرضی” کا نعرہ جس طرح فحاشی اور لادینیت سے جوڑا گیا ہے وہ ہمیں ششدر کرتا ہے۔ کسی اور سے کیا گلہ کریںکہ ہم اپنے جیسوں کو نہیں سمجھا پاتے کہ جسم کا تعلق صرف جنسی فعل سےجوڑا جانا حیوانی جبلت تو ہو سکتی ہے، متنوع انسانی فطرت نہیں جس کے ہزاررنگ وروپ ہیں۔

عورت تار تار روح کا کیسے ذکر کرے، داغ داغ دل کا کیا بتائے، احساس پہ لگی ہوئی ضرب سے رستا لہو کیسے دکھائے، اور اضطراب کے فسانے کیسے کہے، سو ظلم کی داستان بیان کرنے کے لئے ایک جسم ہی بچتا ہے۔

“جسم اور مرضی” کے گرد گھومتا یہ نعرہ نہ تو عریانی کا عندیہ ہے نہ جسم فروشی منشا ہے اور نہ ہی اسلام اور معاشرے سے بغاوت۔ یہ نعرہ تو اختیار مانگتا ہے، ایک انسان ہونے کے ناطے اپنی ذات کا اختیار اور فیصلہ کرنے کی آزادی!

آزادی صرف فحاشی اور آوارہ پن کا نام نہیں ہوا کرتا، کئی اور روپ بھی ہیں آزادی کے۔

تعلیم حاصل کرنے کی آزادی، معاشی خوشحالی حاصل کرنے کی آزادی، اپنی مرضی سے شادی کرنے کی آزادی، بچے پیدا کرنے کی آزادی، قانونی رشتوں کا محکوم نہ بننے کی آزادی، طلاق کے حق کی آزادی، جائیداد میں حصے کی آزادی، اپنی رائے کی آزادی اور اپنی زندگی پہ اپنے اختیار کی آزادی !

کیا اس آزادی میں ایسا کچھ ہے جو بنیادی انسانی حقوق اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہو؟

عورت اور مرد کے بیچ چھڑی حقوق و فرائض کی بحث میں صنفی تقسیم پہ اصرار، آخر کیوں؟ زندگی کے لائحہ عمل میں دونوں کے توازن میں صنف کا حوالہ، آخر کیوں؟ برتری اور کمتری کے پیمانے ترتیب دینے کی کوشش، آخر کیوں؟

یہ خیال کیوں نہیں کہ دونوں انسان ہیں، ایک طرح سے سانس لیتے ہیں، دونوں کا دل ایک لے پہ دھڑکتا ہے۔ احساسات کے کینوس پہ ایک سی خواہشات جنم لیتی ہیں، دونوں آزاد پرندوں سا افق چاہتے ہیں۔ دونوں سوال پوچھ کے جواب تلاش کرنا چاہتے ہیں، اپنے آپ کو کھوجنا چاہتے ہیں، اور سب سے بڑھ کے یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔

یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ پھر سوچ کا یہ زاویہ کہاں سے کہ ایک آقا دوسرا غلام، ایک دیوتا دوسرا داسی۔ ایک کا یہ خیال کہ دوسرا میری ملکیت ہےاور ملکیت کو اپنی رائے اور خواہش رکھنے کا حق نہیں۔ ایک کو جرگے کے نام پہ زندگی سے کھیلنے کا شوق، اور دوسرا کبھی مختاراں مائی اور کبھی رستوں کی دھول۔

انسانیت کا وہ مقام جو ہر مرد وزن کا حق اول ہے، عورت کے لئے کوہ طور بنا دیا گیا ہے۔ عورت کو کرداروں کی مالا پہنا کے رشتوں کے پنجرے میں پابند سلاسل کر دیا گیا ہے؛ مثالی ماں، مثالی بیوی، مثالی بیٹی، مثالی بہن اور ان سب کی نکیل مرد کے ہاتھ میں۔ جب بھی مثال قائم کرنے کی بجائے اپنی ذات کے اندر جھانک کے اپنے آپ کو تلاش کرنا چاہے گی، جسم پہ ضرب کا حق بھی مردکو تفویض کر دیا گیا ہے۔

عورت کے رویے تولنے کے لیے بھی اک میزان ہے جو صبح شام عورت کوامتحان کے پل صراط سے گزارتی ہے۔ اگر وفادار ہے تو عورت، اس سےمنحرف ہو تو دو ٹکے کی۔ قربانی دے تو پارسا، پیچھے ہٹے تو دو کوڑی کی۔ زبان بند رکھے تو شریف، کھولے تو بے حیا۔ ظلم برداشت کرے تو اعلی کردار، اپنا راستہ تراشنا چاہے تو بد کردار۔ بند کواڑوں کے پیچھے سسکیوں کو گھونٹ دے تو بے مثال، نوک مژگاں سے پھسلتے موتیوں کو دکھا دے تو ٹھکانہ پاتال۔

آٹھ مارچ کا مارچ ، نعروں اور سلوگنز سے سجا ہوا ہمیں اداس کر دیتا ہے۔ ہمیں یوں محسوس ہوتاہے کہ ہم جبر کے پنجرے میں کھڑے بھیک مانگ رہے ہیں اپنے ناخداؤں سے کہ ہمیں بھی جینے کا حق لوٹا دیجیئے۔ داغ داغ تن کےساتھ قفس کے روزن دیوار سے تھوڑی سی ہوا اور تھوڑی سی روشنی ہمیں بھی لے لینے دیجیئے۔

ویسے صرف آٹھ مارچ ہی کیوں ؟ ہمارے نزدیک تو ہر دن عورت کا دن ہے، ہرساعت و دقیقہ عورت سے بندھا ہے۔ عورت کو پیدا ہونے کے ساتھ ہی بحیثیت انسان ہر وہ حق حاصل ہے جو اس کرہ ارض پہ کسی بھی اورانسان کو!

سو آج کچھ بھی نہیں مانگیے، بس بتا دیجیے کہ تہذیب کے پھندوں میں الجھائی گئی عورت ہونے کا معنی غلام نہیں، انسان ہوا کرتا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments