مارچ جاری رہے گا!


کچھ ماہ قبل تک میں ڈرامہ نویس خلیل الرحمن قمر کو بالکل نہیں جانتی تھی۔ البتہ کچھ عرصہ قبل ان کے ڈرامے کے حوالے سے کافی شوروغوغا اٹھا کیونکہ بین السطور ذہین افراد ان کے ذہن کے فتور کو بھانپ رہے تھے۔ اعتراض یہ کہ ان کی جانب سے کچھ ایسے جملے ”بری عورتوں“ پر پھینکے گئے کہ طبیعت متلا گئی بلکہ سچ پوچھیں تو ان کی سوچ سے وابستہ ڈیپریشنوں نے ذہن سُن کر دیا۔ قلم جکڑ سا گیا ”کیا کوئی شہرت کی اس سطح پر پہنچ کر یہ بھی کہہ سکتا ہے؟

” اپنے سوال کا جواب پانے میں زیادہ دن نہیں لگے۔ انہوں نے اپنی سطح کا نہ صرف ثبوت دیا بلکہ مزید گہرے گڑھے میں گر کر ایک نہیں کئی سوالوں کے جواب دیے۔ سوچ کے گندے پانی میں لتھرے“ قمر ”کا روپ اس سے بھی زیادہ بدصورت تھا جتنا میں نے سوچا تھا۔ اب جبکہ پورا پاکستان اس منظر نامے اور گفتگو کا عینی شاہد ہے

مجھے پدرسری معاشرے کی صورتحال خاص کر چار حرفی نعرہ ”میرا بدن میری مرضی“ کے سلسلے میں بات کرنی ہے کہ جس کے سلسلہ میں خلیل الرحمن نے اپنا حق سمجھا کہ غصہ میں جو مغلظات دل و زبان سے اُگلیں وہ ان کے لئے بجا عمل ہے۔

دراصل رعونت، طاقت و تفاخر سے چور زہر میں بجھے بجھے یہ جملے کہنہ سال سے پدر سری معاشرے کے اس نمایندہ فرد کے ہیں جس نے عورت کو مٹی کی مادھو کی طرح اپنے حساب سے ڈھالنے کی کوشش کی۔ جہاں گہوارے سے لے کر قبر میں پڑی مردہ عورت تک کا جسم زنا کے حملے سے محفوظ نہیں۔ میں حلفیہ کہہ سکتی ہوں کہ پاکستان کی کوئی عورت بھی یہ نہیں کہہ سکتی کہ اسے آج تک کسی مرد کی گندی نظر کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بازار ہو یا گھریلو مقام اس کے جسم کو ہاتھ سے چھونے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ یہ میں نہیں دنیا کے مستند اداروں کے اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ ہمارا معاشرہ تین چار دھائیوں کے عرصے میں مزید نشیب میں ہی اترتا جا رہا ہے۔ 2017 کے جینڈر ان ایکویلٹی (جنس کی بنیاد پر ) کے اعتبار سے عورتوں کے ساتھ تفریقی رویہ میں پاکستان کا نمبر 189 ممالک میں سے 133 ہے۔

عزت وناموس کے نام پہ اموات میں پاکستان کانمبر سب سے اونچے مقام پہ ہے یعنی ہر پانچ اموات میں ایک عورت پاکستانی ہے۔ اس طرح آج پاکستان دنیا میں عورتوں کے لئے سب سے غیر محفوظ خطہ بن چکا ہے۔ جہاں 2002 میں تیس سالہ مختاراں بی بی کا اجتماعی زنا پنچایت کے فیصلہ پہ ہوا تو حال ہی میں دس سالہ معصوم بچی کو بے بنیاد الزام پہ سنگسار کیا گیا۔ جب یہ واقعہ ہوا تو کسی کونے سے کوئی ”قمر“ اپنی رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طلوع نہیں ہوا۔ بلکہ صدمہ سے گہنایا بھی نہیں۔

عورتوں کو گائے بھینسوں سے کم وقعت سمجھنے والے پدر سری معاشرہ اور پاک سر زمین میں ہی حاملہ اور بچہ کی پیدائش کی وجہ سے مرنے کا تناسب سب سے زیادہ ہے یعنی ہر 100000 میں سے 178 اموات۔ ۔ (یو این ) اعداد و شمار کا تو دفتر کھڑا ہو سکتا ہے مگر ابھی تو چار حرفی احتجاجی نعرہ۔ یہ ہی ان بوسیدہ دیمک زدہ افراد کے ذہنوں کے قمر شک کرنے کے لئے کافی ہیں۔

عورتوں کا اجتماعی مارچ آج کے دور کی ”مغربی نقالی“ نہیں بلکہ تاریخ میں سماج کو چیلنج کرنے کا ترقی یافتہ عمل ہے۔ جو عورتوں نے ماضی میں اپنے حقوق کی برابری، اپنے ہنر کے اعتراف، اپنی صلاحیتوں کی قدر و منزلت کو منوانے کے لیے جاری کیا یا کہ وہ برسوں سے ہونے والے جنسی، سیاسی، سماجی اور معاشی استحصال کے خلاف انفرادی نہیں اجتماعی آواز بلند کر سکے اور بلاشبہ ان اجتماعی نعروں کی دین ہے کہ آج عورتیں اپنے ووٹ کا حق، برابری کے حقوق کی مراعات کو کسی حد تک حاصل کر رہی ہیں۔ اور پھر دور مت جائیے 2017 میں ہونے والا ویمن مارچ جو ”می ٹو“ تحریک کے سلسلے کا تھا اور جس میں صرف امریکہ میں تین سے پانچ ملین عورتوں نے جنسی استحصال کے خلاف آواز بلند کی، طاقت ور ترین افراد کو سہما کر رکھ دیا۔

ارے صاحب یہ تو ابتدا ہے۔ یہ مارچ تو جاری رہے گا اس وقت تک جب تک کسی ایک بھی خلیل الرحمن قمر جیسے پست ذہن مرد کے وجود سے زہر نکلے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments