حکومت کی کارکردگی اور بلاول بھٹو کی سیاست


حکومتی عہدیداروں کی طرف سے مسلسل یہ کہا جا رہا ہے کہ معاشی و انتظامی صورت حال ٹھیک ہو جائے گی لہٰذا عوام کو صبرو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتظار کرنا چاہیے۔ وہ آنے والے مہینوں میں دیکھیں گے کہ اشیائے ضرورت مناسب قیمتوں میں دستیاب ہیں اور قوانین پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اب کیوں نہیں۔ یہ محض لوگوں کو بیوقوف بنانے والی بات ہے اور ایک لولی پاپ دیا جا رہا ہے حالات بہتر ہونے ہوتے تو کب کے ہو چکے ہوتے لہٰذا اُنہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ امور مملکت ان سے بہ احسن طریق نہیں چلائے جا رہے۔ وہ اگر اس پہلو کی آڑ بھی لیں کہ بیورو کریسی منہ زور ہے مافیاز طاقتور ہیں جو اُن کے اختیار ات کو چیلنج کر رہے ہیں تب بھی وہ ذمہ دار ہیں۔ اُن کا انتظامی ڈھانچہ کیوں کمزور ہے یا اُسے کیوں بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی جا رہی؟

باتوں کا وقت گزر گیا اب عملاً عوام کو ڈیلیور کر کے مطمئن کرنا ہو گا اور یہ حقیقت ماننا پڑے گی کہ حکومت کے اندر جو لوگ اس کے اقتدار سے آنے سے چند ماہ پہلے در آئے تھے اب وہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ نہیں ہو رہے اور الزام دوسرے پر لگا رہے ہیں مبینہ طور سے بعض دوسرے عہدیداران بھی ان کے ساتھ شامل ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اس وقت کوئی سرکاری غیر سرکاری محکمہ ایسا نہیں ہے جو عوام کو پریشان نہ کر رہا ہو کہ سبھی اپنی جیبیں گرم کر رہے۔۔۔ اور دھڑلے سے کر رہے ہیں کسی کو کوئی خوف نہیں کہ قانون حرکت میں آ سکتا ہے۔ آپ سڑکوں اور شاہراؤں کو دیکھ لیں تجاوزات سے اٹی ہوئی ہیں مگر انتظامیہ خاموش ہے میڈیا یہ سب دکھا اور بتا رہا ہے مگر کہیں سے ذرا سی جنبش نہیں ہوتی بس بیانات جاری کیے جا رہے ہیں اس کے لیے کچھ ”حاضر دماغ“ وزیر مشیر ان ایکشن میں نظر آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ دعوے اور وعدے جب پورے ہوتے نہیں دکھائی دیتے تو ان سے یکسر رخ موڑ لیا جاتا ہے جسے یوٹرن بھی کہتے ہیں اور اس کا دفاع کیا جاتا ہے۔

بہرحال یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پی ٹی آئی کی حکومت عوام کو مایوس کر رہی ہے وہ عام مسائل کو قابو کرنے میں ناکام ہے جب وہ کہہ رہی ہوتی ہے کہ فلاں مسئلہ حل کر دیا گیا ہے یا کیا جا رہا ہے تو وہ پہلے سے بھی شدت کے ساتھ سامنے آن کھڑا ہوتا ہے شاید اسی لیے ہی اب وہ مسائل کے حل اور معیشت کی مضبوطی کے لیے ملکی اداروں کو نجی تحویل میں دینا چاہتی ہے اس سے لگتا ہے کہ حکومت دور اندیشانہ طرز فکر اپنانے سے قاصر ہے کیونکہ نج کاری کے عمل سے بھی معاشی حالات بہتر ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی کیونکہ اداروں کے مالکان محنت کشوں، مزدوروں اور کارکنوں کو جب چاہیں نکال باہر کریں اور محدود سہولتیں دیں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا اب جوادارے نجی سیکٹر کو دیے جا چکے ہیں ان میں کام کرنے والوں کی حالت بہتر نہیں ہوتی وہ ہر وقت جانے انجانے خوف میں مبتلا رہتے ہیں انہیں جو تھوڑا بہت قانونی تحفظ حاصل تھا وہ بھی حاصل نہیں نجکاری کسی مسئلے کا حل نہیں جو ادارے غیر منافع بخش تصور کیے جا رہے ہیں انہیں درست کیا جائے ان کے لیے منصوبہ بندی کی جائے۔

مزدوروں اور محنت کشوں کو باضابطہ طور سے ان میں شریک کیا جائے اور یہ تجربہ ناکام نہیں ہو گا مگر ایسا کرنے سے اس نظام پر زد پڑتی ہے جبکہ عمران خان وزیراعظم نے ”سٹیٹس کو“ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا اب وہ لگ رہا ہے کہ اسے جاری رکھنا چاہتے ہیں مگر پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے ڈنکے کی چوٹ پر کہہ دیا ہے کہ وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ وہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اگر پرویز مشرف ملکی اداروں کو نہیں بیچ سکے تو موجودہ حکمران بھی ایسا نہیں کر سکیں گے اب عدلیہ آزاد ہے لہٰذا کوئی بھی اپنی من مرضی نہیں کر سکے گا۔ مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا اب ایک ہی راستہ ہے کہ عوام اور مزدور دوست حکومت بنائی جائے لہٰذا حکومت آئی ایم ایف سے ڈیل ختم کر کے عوام اور ملک کے مفاد میں دوبارہ مذاکرات کرے!

اگرچہ پیپلز پارٹی سندھ کے عوام کو ان کے بنیادی حقوق نہیں دے سکی اور ان کی معاشی حالت خراب ہے مگر کہا جا سکتا ہے کہ اب اگر بلاول بھٹو زرداری اقتدار میں آتے ہیں تو وہ لازمی محنت کشوں، مزدوروں اور کسانوں کو اپنے نانا مرحوم کی طرح اوپر لانے کے لیے قانون سازی کریں گے انہیں اس بات کا ادراک بھی ہے اور احساس بھی کہ جب تک کوئی سیاسی جماعت مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں کو ساتھ لے کر نہیں چلتی وہ خود کو مضبوط نہیں بنا سکتی اور آزادانہ طور سے کام نہیں کر سکتی لہٰذا انہوں نے بروقت اور درست فیصلہ کیا ہے کہ وہ مزدور طبقے کی حمایت حاصل کریں ویسے بھی تو پی پی پی کی پہلے والی پالیسی یہی تھی اور اس کا نعرہ ہی یہ تھا اور وہ ان کے ہمقدم ہو کر آگے بڑھی بھی آج تک وہ اپنے اس نعرے پر قائم ہے اور ماضی میں نظر آتا ہے کہ اس نے اپنے اندر تبدیلی کے باوجود ملازمین ہوں یا مزدور چند سہولتیں فراہم کیں ان کی تنخواہوں اور اجرتوں میں اضافہ کیا وہ طوعاً و کرہاً بھی ایسا کرتی ہے کیونکہ اس میں قمر زمان کائرہ ایسے عوام دوست سیاستدان موجود ہیں جو انسانی اقدار کو کسی صورت پامال ہوتا نہیں دیکھ سکتے لہٰذا جہاں تک ممکن ہو سکتا ہے وہ اپنی کوشش کرتے ہیں اور اس میں وہ سو فیصد نہ بھی سہی ساٹھ ستر فیصد ضرور کامیاب ہو جاتے ہیں لہٰذا نظریہ آرہا ہے کہ وہ بلاول بھٹو زرداری کو خالصتاً عوامی سیاست کی جانب موڑ چکے ہیں اور یہ بات خوش آئند ہے اور قابل تحسین بھی۔

۔ ۔ ۔ ۔ عوام کی اکثریت یہی چاہتی ہے کہ وہ دوبارہ پی پی پی کو عوامی جماعت کے طور سے دیکھیں کیونکہ وہی عوامی جذبات کو بہتر جانتی ہے یہ درست ہے کہ اس میں ایک خلا پیدا ہوا مگر بلاول بھٹو زرداری اسے پر کرنے جا رہے ہیں انہوں نے عام آدمی کے حقوق کی بات کر کے اپنی سیاست کو ایک نیا انداز دے دیا ہے مگر انہیں روایتی سیاستدانوں سے فاصلے پر رہنے کی اشد ضرورت ہے جو عوام بیزار سمجھے جاتے ہیں وہ چونکہ ایک طرف عوامی لیڈر کے نواسے ہیں تو دوسری جانب بڑی عوامی لیڈر کے بیٹے بھی ہیں لہٰذا انہیں چاہیے کہ وہ پسے ہوئے طبقات کو حوصلہ دیں انہیں ان کے ہونے کا یقین دلائیں کہ وہ موجود حکومت سے مایوس ہیں کیونکہ اس نے انہیں ایسے ایسے خوشحالی کے مناظر دکھائے کہ وہ جھوم اٹھے مگر اب جب وہ اقتدار میں ہے تو وہ سب اس کے برعکس ہے لہٰذا بلاول بھٹو زرداری ان کی امید ہو سکتے ہیں شرط یہ ہے کہ وہ قمر زمان کائرہ ایسے صاحبان نظر کی فکر سے استفادہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments