کیا عمران خان کی حکومت کے لئے خزاں آ رہی ہے؟


ایک ٹی وی انٹرویو میں حکومت کی تبدیلی اور اپوزیشن کی حکمت عملی کے سوال پر شاہد خاقان عباسی نے معنی خیز انداز میں کہا کہ ’یہاں پر جو دکھائی دیتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہو رہا ہوتا ہے وہ دکھائی نہیں دیتا۔ ‘

مارچ کے شروع ہوتے ہی بہار کی آمد آمد ہوتی ہے۔ رنگ برنگے پھول ہر طرف خوشیاں بکھیر رہے ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال اکتوبر سے ہی ہمیں یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ اس بار سیاست میں خزاں جلدی آئے گی۔ کچھ ایسے اشارے ہمیں دکھائے جا رہے تھے کہ اس بار مارچ میں حکومت کے لئے بہار نہیں بلکہ خزاں کا موسم آئے گا۔ مولانا فضل الرحمٰن کا دھرنا ہو یا احسن اقبال کا انٹرویو، سب اشارے اسی طرف تھے کہ بہت جلد تبدیلی آنے والی ہے۔ اس حکومت کی چھٹی ہونے والی ہے اور آئندہ گرمیوں میں الیکشن بھی ہو سکتے ہیں۔

شعلے فلم میں بہت مشہور ڈائیلاگ تھا جب ماں بچے کو ڈرانے کے لئے کہتی ہے کہ ’سو جا نہیں تو گبر آ جائے گا‘ ۔ یہی حالات آج کل ہماری سیاست میں بھی چل رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری اپوزیشن جماعتیں بھی ’گبر‘ کے کردار پر اکتفا کر چکی ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں ہر احتیاط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پہلے زبردستی ایک بیانیہ مسلط کیا اور اس بیانیہ کی پاداش میں عمران خان کو اقتدار سونپا گیا۔ اشاروں پر چلنے والے اینکرز اور تجزیہ کاروں کے ذریعہ عوام کو باور کرایا گیا کہ تمام مسائل کا حل اب صرف عمران خان کے پاس ہی ہے۔ جہاں عمران خان خود مافوق الفطرت دعوے کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے تو ان دعووں پر سچائی کی مہر ثبت کرنے میں ہمارے ادارے بھی پیش پیش تھے۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اپنے طوفانی دوروں کے سبب اس کام میں سرفہرست تھے۔ الیکشن سے پہلے بھی اور بعد میں بھی عمران خان کے لئے بھرپور سازگار ماحول مہیا کیا گیا مگر پہلا سال مکمل ہونے کر بعد پہلے مثبت رپورٹنگ میں فرق آیا اور پھر آہستہ آہستہ حکومتی کوتاہیاں اجاگر ہونے لگیں۔ کارکردگی میں بہتری کی رمق پیدا نہ ہوئی تو پہلے جس اپوزیشن کے بیانات پر بھی پابندی تھی، پھر اس کے جلسے بھی دکھائی دینے لگے اور ساتھ ہی ساتھ حکومت کے جانے کی تاریخیں بھی دی جانے لگیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اپوزیشن کی تاریخیں صرف لاڈلے کو ڈرانے کے لئے ”گبر“ جیسا ڈراوا ہی ہے یا حقیقی معنوں میں حکومت تبدیل ہونے والی ہے۔

حکومتوں کی تبدیلی کے لئے جو عوامل بروئے کار لائے جاتے ہیں وہ سب کے سب نظر آ رہے ہیں۔ حکومتی بدانتظامی اور کرپشن کی خبریں بعینہ انہی اینکرز اور تجزیہ کاروں سے شدومد سے چلوائی گئیں تھیں جو پہلے عمران خان کی تعریفوں کے پل باندھتے تھے، حکومتی اتحادی بھی گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہے ہیں۔ ’کبھی خوشی کبھی غم‘ کی طرح روٹھنے اور ماننے کا سلسلہ جاری ہے۔ ساتھ ہی ساتھ تواتر کے ساتھ حکومتی نا اہلی اور وزراء کے اربوں روپے کے کرپشن سکینڈل بھی سامنے آ رہے ہیں۔

آٹا چینی کے بحران اس کمزور حکومت پر لرزہ طاری کرنے کے لئے کافی تھے۔ رہی سہی کسر وزیراعظم خود پوری کر دیتے ہیں جب وہ ہر تیسرے دن انڈوں، مرغیوں اور کٹوں سے معیشت میں انقلاب لانے کے لئے فقیدالمثال منصوبے پیش کرتے ہیں۔ اور سب سے خطرناک مذہب کارڈ بھی پوری طرح ایکٹو ہے۔ حج فارم سے ختم نبوت کا حلف نامہ ہی غائب ہو گیا اور وزیر مذہبی امور کو پتا ہی نہیں چلا۔ توجیہات جو بھی پیش کی جائیں مگر یہ سب ہو رہا ہے اور ہمیں دکھایا بھی جا رہا ہے۔

گزشتہ نومبر میں آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا معاملہ بھی تھا اور اسی دوران اپوزیشن بھی حکومت گرانے میں متحرک دکھا رہی تھی۔ تحریک انصاف کا فارن فنڈنگ کیس پر اپوزیشن اتنی ایکٹو ہوئی کہ چیف الیکشن کمشنر کو روزانہ سماعت کی درخواست بھی جمع کروا دی۔ سابق چیف الیکشن کمشنر نے درخواست قبول کر کے روزانہ سماعت کا حکم صادر کر دیا مگر کچھ سماعتوں کے بعد ایکسٹینشن بھی ہو گئی اور پھر کسی کو یاد بھی نہیں رہا کہ یہ بھی کوئی مقدمہ ہوتا تھا۔

فارن فنڈنگ کیس ایک بار پھر اتنی گہری نیند سو چکا ہے کہ شاید اب جگانے کے لئے بھونپو کی آواز بھی ناکافی ہو گی۔ اپوزیشن رہنماؤں کی پے در پے گرفتاریوں کے بعد چیئرمین نیب کا ہواؤں کا رخ بدلنے کا بیان بھی سامنے آیا مگر گرفتار اپوزیشن کے سرکردہ رہنما ہی ہوتے نظر آئے۔ البتہ حکومتی اکابرین کے نیب کیسز منوں مٹی تلے دبے ہی نظر آ رہے ہیں۔ حال ہی میں چیئرمین نیب نے خسرو بختیار کی نیب انکوائری ملتان دفتر سے لاہور دفتر منتقل کروائی ہے۔ گویا ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔

دوسری جانب اپوزیشن کرنے میں مہارت رکھنے والے عمران خان اپنی ہی حکومت میں اشتعال انگیزی اور عدم استحکام پیدا کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے۔ جب بھی حالات نارمل ہونے لگتے ہیں تو وہ کوئی نہ کوئی ایسا عمل یا ایسا بیان ضرور دیتے ہیں کہ جس سے صورتحال دوبارہ خراب ہو جائے۔ حالیہ دنوں میں نواز شریف کو برطانیہ سے ڈیپورٹ کروانے کے لئے لکھا جانے والا خط اپنی مثال آپ ہے۔ عمران خان یہ جانتے ہیں کہ اس سے نواز شریف ڈیپورٹ نہیں ہو سکیں گے مگر سیاسی ماحول کو خراب کرنے کے لئے انہوں نے یہ عمل ضروری سمجھا۔

ابھی تک عمران خان کی سیاست کا بنیادی عنصر مبالغہ آمیزی رہا ہے۔ اقتدار میں آنے کے لئے انہوں نے مافوق الفطرت قسم کے دعوے تو کر دیے تھے مگر انھیں عملی جامہ پہننا غالباً ان کے لئے بہت مشکل ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود بھی سیاسی شہید بننا چاہتے ہیں تاکہ عوام کو ایک بار پھر مدینہ کی ریاست، ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھروں جیسے جھوٹے خواب نئی شکل میں دوبارہ دکھا سکیں۔ انھیں یہ یقین اس لیے بھی ہے کہ خیبر پختونخوا میں پشاور میٹرو، سوات موٹروے مکمل نہ کر سکنے کے باوجود بھی عوام کی اکثریت وہاں انھیں پسند کرتی ہے۔ حالیہ سروے رپورٹس اس بات کا واضح ثبوت ہیں۔

صورتحال اس وقت یہ ہے نواز شریف اپنی صحت کی وجہ سے اور اپوزیشن لیڈر شہبازشریف ان کی تیمارداری کے لئے ملک سے باہر ہیں۔ مستقبل قریب میں ان کی واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ حکومت کی تبدیلی کے لئے جو عوامل بروئے کار لانا ہوتے ہیں ان پر سنجیدگی سے عمل نہیں ہو رہا۔ گمان ہے کہ اپوزیشن اور فیصلہ ساز قوتوں کے درمیاں گاڑھی چھن رہی ہے اس لیے حکومت گرانے کی کوئی عملی کوشش نہیں ہو رہی۔ مولانا فضل الرحمٰن سنجیدہ کوشش ضرور کر رہے ہیں مگر سیاست ایسا بے رحم کھیل ہے کہ اپنا کریڈٹ کوئی بھی دوسرے کو نہیں لینے دیتا۔

البتہ فیصلہ ساز قوتوں نے اپنی من پسند حکومت پر پریشر رکھنے کے لئے اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن کا دباؤ رکھا ہوا ہے۔ جب بھی لاڈلا کنٹرول سے باہر ہونے کی کوشش کرے گا تو ’گبر‘ آ جائے گا کی صدائیں سنائی دینے لگ جائیں گی۔ یہ صورتحال کافی عرصۂ تک ایسے ہی ’ہنسی خوشی‘ چلتی رہے گی تاوقتیکہ عمران خان خود ہی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments