دو ٹکے کے صحافی


بیمار معاشروں میں اہل علم کی حیثیت دو ٹکے کی ہی ہوتی ہے، آپ نے اکثر یہ لفظ سنا ہوگا دو ٹکے کا صحافی، دو ٹکے کا وکیل دو ٹکے کا اینکر، اور دو ٹکے کا ٹیچر، کسی پندرہ ہزار کمانے والے مزدور سے ہزاروں کی رشوت کھانے والے کرپٹ افسر سے آپ نے بھی سنا ہوگا۔ میں تو اکثر سنتا ہوں کہ بڑا آیا صحافی، اس حیثیت کیا ہے، دو ٹکے کا صحافی، اس پولیس والے کرپٹ افسر سے بھی یہ لفظ سنا ہوگا جو پولیس ناکے پر غریبوں کی جیب کاٹتاہے، اس ذخیرہ اندوز اور وزن کم تولنے والے تاجر سے بھی سنا ہوگا جو غریبوں کا حق مار کر اپنی تجوریاں بھرتا ہے، اس منشیات فروش سے بھی سنا ہوگا جو لوگوں میں موت کا سامان فروخت کرتا ہے، اس جعلی دوائیاں فروخت کرنے والے سے بھی سنا ہوگا جو چند ٹکوں کے لئے لوگوں کی زندگیاں چھین لیتا ہے، اس قصائی نما ڈاکٹر سے بھی سنا ہوگا جو چند ٹکوں کے لئے لوگوں کے گردے نکال کر فروخت کرتا ہے۔ الغرض معاشرے کے تمام کرپٹ کرداروں کی نظر میں ہر وہ صحافی دو ٹکے کا ہے جو ان کی کرپشن، چور بازاری اور ملک کے وسائل کو اپنا حق سمجھتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہوں کو آشکار کرتا ہے۔

سچ کہوں تو ہمارے ملک کا صحافی ہے ہی دو ٹکے کا، کیونکہ یہ دو ٹکے کا صحافی سچ لکھنے کے جرم میں قتل ہوتا ہے، پھر بھی سبق نہیں لیتا ہے اور پھر اسی ڈگر پر چلتا ہے، یہی دو ٹکے کا صحافی سارے سنسار کے لئے انصاف فراہم کرنے کے لئے خبریں شائع کرتا ہے لیکن اس کے اپنے دکھوں کا مدوا کرنے والا کوئی نہیں، یہی دو ٹکے کا صحافی جو میڈیا مالکان کی تجوریوں کو بھر دیتا ہے لیکن اس کے اپنے گھر میں اشیا خوردونوش کی قلت ہوتی ہے، اس کے بچے چھوٹی چھوٹی حسرتوں کے لئے ترس رہے ہوتے ہیں لیکن پوری نہیں کر سکتا ہے، یہی دو ٹکے کا صحافی ہے خبر، کالم اور تجزیہ شائع کرتا ہے کسی کے حق میں جائے تو وہ اسے بہت بڑا صحافی کہہ کر گن گاتا ہے جس کے خلاف جائے وہ اسے لفافہ صحافی کا لقب عطا کر کے رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے، یہی دو ٹکے کا صحافی ہے جومیڈیا مالکان کی طرف سے چھہ چھہ ماہ تنخوا نہ ملنے پر خودکشی تو کرتا ہے لیکن کسی حرام خوری کے راستے پر چل کر اپنی تجوریاں نہیں بھرتا ہے۔

یہی دو ٹکے کا صحافی جو سیاستدانوں کے لئے سرخیاں چھاپتا ہے لیکن وہ اپنی خبر شائع نہیں کر سکتا ہے، یہی دو ٹکے کا صحافی ہے جو راتوں کو اپنا خون جلا کر سچ لکھتا ہے اور ادب تخلیق کرتا ہے لیکن اس بیمار معاشرے میں اس کی اپنی حیثیت دو ٹکے کی نہیں، یہی دو ٹکے کا صحافی ہے جو علم کی روشنیاں پھیلاتا ہے لیکن اس کے اپنے ارد گرد غربت اور افلاس کے اندھیرے جال بنے ہوتے ہیں۔

ہم ایک ایسے بیمار معاشرے میں رہتے ہیں جہاں رشوت خور، حرام خور، چور ڈاکو لٹیرے، جھوٹے فریبی، اور ظالم جابر اور قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے والوں کی قدر تو لاکھوں کروڑں ٹکے ہے لیکن اس معاشرے کو علم آگاہی اور شعور فراہم کرنے والے صحافی کی قیمت دو ٹکے بھی نہیں،

اس معاشرے کی عجیب سوچ ہے، صحافی اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کے لئے کوئی کاروبار کرے، مزدوری کرے تو کہا جاتا ہے کہ یہ کیسا صحافی ہے جو کاروبار کر رہا ہے، صحافی اپنی سفید پوشی قائم رکھنے کے لئے کسی کا ترجمان بنے تو کہا جاتا ہے کہ لفافہ صحافی ہے، گویا صحافی کے بارے میں تصور قائم کیا گیا ہے کہ نہ اس کا خاندان ہوتا ہے نہ جذبات تو نہ غم روزگار، بس یہ خدائی خدمتگار ہے، باقی طبقات سے کوئی نہیں پوچھتا کہ کون کیا کر رہا ہے بس یہ دو ٹکے کا صحافی ہی جس پر پورا معاشرہ انگلیاں اٹھاتا ہے، طعنے دیتا ہے، دھمکیاں دیتا ہے، جان لیتا ہے، معاشی طور پر مار دیتا ہے۔

صحافی سچی بات لکھے، کہے اور اس کی تشہیر کرے تو جن کے حق میں جائے وہ اس کے گن گانے لگے اور جن کے خلاف جائے ان کے نزدیک صحافی کی صحافت لمحوں میں ختم ہوگئی اورلفافہ صحافی اور دو ٹکے کا صحافی بن گیا، یہ ہمارے اس بیمار معاشرے کا المیہ ہے کہ اس معاشرے میں ہر کرپٹ کردار کو تو عزت ملی لیکن، شاعر، ادیب، اہل علم اور صحافی گھٹ گھٹ کر زیست کا سفر تمام کرتے ہیں۔

صحافت وہ بدقسمت شعبہ ہے جس کے کارکن کی نہ کوئی پنشن ہے، نہ مناسب اجرت ہے نہ بعد مرنے کے گھر والوں کے لئے کوئی ریلیف، بیچارے صحافی کی ادھر آنکھ بند ہو ادھر اس کے خاندان کی زندگی میں معاشی پریشانیوں کا آغاز ہوتا ہے، اگر کوئی خوش قسمت صحافی ایک آدہ ہو تو اس کے لئے اسی کے اخبار میں سنگل کالم کی ایک خبر شائع ہوتی ہے، کچھ دن کے بعد ایک آدہ تعزیتی ریفرنس ہوتا ہے، جس صحافی کی زندگی میں اس معاشرے نے جینے کے سب دروازے بند کیے تھے اسی معاشرے کے چند بڑے لوگ مرحوم صحافی کے لئے کچھ اچھے کلمات کہتے ہیں اور بس کہانی ختم، بس اتنی سے کہانی ہے دو ٹکے کے صحافی کی۔

معاشرے کے سدھار کے لئے جہاں بھر کی صعوبتیں برداشت اور جان تک گنوانے کے بعد بھی صحافی کو عزت نہیں ملتی ہے اور وہ دو ٹکے کا بھی نہیں تو مجھے کہنے دیجئے کہ صحافی کے لئے یہ الفاظ استعمال کرنے والے کرپٹ کرداروں کی اپنی اوقات ایک ٹکے کی بھی نہیں،


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments