مزار، مجاور یا پی ایچ ڈی


کائنات کے پیدا کرنے والا بھی اُس وقت مسکرا اٹھتا ہوگا جب امان اللہ خان اسٹیج پر اُس کی مخلوق کو مسکرانے پر مجبور کر دیتا ہوگا۔ وہ قہقہے بکھیرتا انسان ہم سے رخصت ہوا تو دل کو ایسا ہاتھ پڑا جیسے کوئی اپنا، کوئی بہت پیارا، بہت قریبی ہمارے چہروں سے مسکراہٹیں چھین کر منوں مٹی تلے چلا گیا ہو۔

امان اللہ خان کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ وہ روتے چہروں کو ہنسانے والا انسان نہیں، بلکہ فرشتہ تھا۔ جس نے محرومیوں اور غربت میں پلنے کے باوجود اِس معاشرے کو کوسنے اور دو نمبری سے پیسہ بنانے کے بجائے اِس میں موجود برائیوں کو طنزو مزاح کا روپ دے کر نمایاں کیا تا کہ اُن کا سدباب کیا جا سکے۔

امان اللہ نے جس بہادری سے موذی بیماری کا مقابلہ کیا وہ بھی قابلِ داد ہے۔ کئی بار موت کو شکست دے کر واپس پلٹنے والے امان اللہ کے چہرے پر ہم نے کبھی موت کا خوف یا شکست کے آثار نہیں دیکھے۔ یقینا وہ موت سے نہیں ہارا بلکہ اُنھوں نے موت کو کئی بار شکست دی۔

فوتگی کے بعد قبرستان میں پیش آئے واقعہ پر سب دوست اپنی اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں جو ایک آدھی ویڈیو کلب دیکھنے کے بعد قائم کی گئی ہے۔ نیوز چینلز نے قبرستان انتظامیہ کا موقف بھی پیش کیا ہے۔ میں اپنے دیگر دوستوں کی طرح ہوا کا رخ، عوام کی ہمدریاں اور وقتی حمایت یا پزیرائی حاصل کرنے کو حقیقت سے چشم پوشی کرتے ہوئے جذباب کی رو میں بہہ کر وہی لکھوں جو سب سننا چاہتے ہیں مگر یہ میرے لیے ممکن نہیں ہوگا۔

میں امان اللہ خان کا بہت بڑا فین ہوں، میرے دوست میری شوخ عادت، طنزیہ پوسٹس یا فکانیہ انداز میں لکھنے کی کوشش اچھی طرح جانتے ہیں۔ میں اُس دور کا انسان ہوں جب امان اللہ خان شہرت کی بلندی پر اپنی اچھی صحت کی بدولت محو پرواز تھا۔ میں نے امان اللہ خان کا عروج دیکھا اور اُن سے مشکل سے مشکل حالات میں بھی مسکراتے ہوئے جینے کا سبق سیکھا، مگر میں اس سارے واقعہ کو جذباتیت سے نہیں بلکہ حقیقت پسندی سے دیکھنا چاہتا ہوں۔

پیراگون سوسائٹی کی انتظامیہ اپنی جگہ درست ہے کیونکہ قبرستان تمام رہائشیوں کے پیسوں سے خریدا گیا ہو گا اِس لیے سب کا اُس پر برابر کا حق بنتا ہے اگر کل کو ہر خاندان اپنے رشتہ داروں کے مزار بنانے کی ضد کرے گا تو یہ انتظامیہ کے مسائل کا باعث بنے گا۔ کیونکہ ہم سب کے نزدیک ہمارے فوت ہوئے رشتہ دار کسی پیر ولی اور بزرگ سے کم مرتبہ نہیں ہوتے۔

ویسے بھی ملک میں مزارات اور اُن سے جڑے لوگوں کی بہتات ہے اور اِن مزارات پر اولیاء کرام کی تعلیمات کے برخلاف کیا کیا جاتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔

میرے لبرل ٹائپ دوست، جن کی اکثر پوسٹس میں مذہب بیزاری، اولیاء کے خلاف پروپیگنڈہ اور وہاں آباد مجاوروں کے کرتوتوں کا ذکر ہوا کرتا تھا اب وہ بھی اِس مسلے پر سوسائٹی والوں کے خلاف تحریریں لگا رہے ہیں۔ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ قبرستان میں اعتراض کرنے والا انتظامیہ کا شخص باریش تھا۔

ان دوستوں کو کوئی باریش انسان سگنل کی خلاف ورزی کرتا ہی نظر آجائے تو دیگر باریش لوگوں اور مذہب کا مذاق اٹھانے کا موقع ضائع نہیں کرتے۔ ایسے کئی دوست بیرون ممالک میں یا لاہور میں مقیم ہیں۔ یہ سب دوست معاشی طور پر مستحکم اور زرعی زمینوں کے مالکان ہیں تو کیا اِن میں سے کسی نے اپنی زمین یا سرمایہ دینے کو بھی کوئی پوسٹ لگائی؟ بالکل نہیں۔ دراصل ان کا مقصد لیجینڈ امان اللہ خان کی خدمات کا اعتراف کرنا نہیں بلکہ کسی داڑھی والے کی کوئی غلطی ہاتھ لگنے پر اُن کی عزت کا جنازہ نکالنا ہے۔

کیا وہاں موجود وزیر یا امان اللہ خان کے مجھ جیسے مداح یہ چاہتے یا محسوس کرتے ہیں کہ اُن کا مزار بنے اور پھر اُس پر مجاور اپنے نظریہ اور سوچ کے مطابق وہی سب کرنا شروع کر دیں جو آج دیگر مزارات پر ہو رہا ہے۔

کیا حکومت یا امان اللہ خان کے صاحب ثروت مداعوں کے لیے ممکن نہیں کہ اُن کے نام پر ایک ایسی یونیورسٹی، درس گاہ یا ادارہ بنانے میں مدد کریں جہاں آنے والی نسلوں کو اُن کے انداز کو پڑھاتے ہوئے، مزاح بیان کرنے، لکھنے اور اسٹینڈنگ کامیڈی کی تربیت دی جائے، وہاں آنے والی خواتین کو ہراساں کرنے، پردہ فروشی اور منشیات کے کاروبار پنپنے کو اسباب پیدا کیے جائیں یا امان اللہ خان پر پی ایچ ڈی کروانے کے؟

جس انداز کو مراثی یا پھانڈ پن کہا جاتا ہے اُسے باقاعدہ ایک علم کا درجہ دے کر لوگوں کو چوہدری اور کمی کے چکر سے نکال کر باعزت روزی کمانے کے قابل اور ملک کا عزت دارشہری بنایا جائے۔ یا پھر مزار بنا کر اپنی آنے والی نسلوں کو چرس بھنگ اور علم سے دور رکھ کر ایک ناکارہ عضو بنانے کی حمایت اور مستقبل میں امان اللہ خان کے وارثوں کو اِس مزار پر قبضے کے لیے دست و گربیان کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments