میری زندگی میرا اختیار


یہی اس عورت مارچ کا مقصد و متن ہے۔
نا انصافیوں کی ایک فہرست ہے۔ فرسٹ وومن کانفرنس سے مختصر احوال جو ہر عاقل و بالغ کو جاننا چاہیے کہ اس کا ادراک اور تدارک دونوں ناگزیر ہیں۔

اس وومن کانفرنس میں ایک ہاری بچی کے (جو چودہ پندرہ سال) بچے جننے سے لے کر اسمبلی تک خواتین کی نمائندگی کا حق ( 60 خواتین، جن کا انتخاب مرد پارٹی بنیاد پر کرتے ہیں۔ ) تک کے تحفظات شامل ہیں۔

چند چنیدہ باتیں 6 مارچ 2020 فرسٹ وومن کانفرنس سے :

کسی بچی سے پوچھا، ازادئی نسواں چاہیے یا زمرد کا گلو بند۔ اس نے جواب دیا اسے دونوں چاہیے۔ یہ بچی کا حق ہے۔ زہرا نگار

مردم نہیں فردم شماری ہو۔ خواتین فردم شماری میں شریک ہوں۔ اسمبلی میں اپنی اہلیت و انتخاب سے حصہ لیں کسی کا انتخاب نہ ہوں۔ بچی، بچے کو پیدا کرتی ہے یہ کیسی توقع ہے جو بچی سے رکھی گئی ہے؟ خواتین (اور کہیں بھی) کوٹہ ختم ہو چکا ہے پورا ملک برابری اور انصاف کی بنیادوں پر بنا ہے۔ سب کی برابر قدر ہونی چاہیے۔
جسٹس ناصرہ اقبال

عورت مارچ حقوق کی اواز اٹھانے کا ایک حصہ ہے سارا مقصد اس مارچ پر ختم نہیں ہوتا۔ مردوں کی اکثریت اب نہیں کماتی، خاص طور سے دیہی۔ عورت دوہری ذمہ داری نبھاتی ہے اس کی مزدوری اور محنت کا صلہ اسے ملنا چاہیے۔ مہناز

معاملات جان بوجھ کر الجھائے جاتے ہیں۔ دیہی عورت کے حقوق تو پامال ہوتے ہیں وہ شہری سہولیات سے ناواقف ہے۔ گرمی میں، گرم پانی میں وہ چاول کا ایک ایک دانہ انگوٹھے سے بوتی ہے۔ اسے غذا بھی پوری نہیں ملتی، گھر داری بھی وہ اسی میں سنبھالتی ہے۔ سندھیانی تحریک۔ شہناز راہو

ہماری جدوجہد سماج (غیر منصفانہ بنیاد پر کھڑی ہے۔ ) کے خلاف ہے۔ سوچ کے خلاف ہے۔ شیما کرمانی

ہمارا معاشرہ پدرشاہی سماجی ڈھانچہ ہے۔

ایک بچی گا کر گنگنا کر یا لہک کر اپنی گھٹن نکال لیتی ہے یہ اس کی فطرت اور تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار ہے۔ جیسے کسی بچی کا حق آزادی بھی ہے اور روٹی بھی اور اگر وہ کسی پھول کی سمت ہاتھ بڑھا کر اسے بھی لینا چاہے تو یہ اس کی فطرت ہے اسے تسلیم کرنا چاہیے۔ (نام میں نوٹ نہیں کرسکی)

ڈاکٹر شمشاد اختر نے تعلیم یافتہ خاتون کا ترقی میں کردار ( ملکی و غیر ملکی سرگرمیوں کے حوالے سے ) کے حوالے سے انتہائی حوصلہ افزاء سیشن کیا۔ (اکنامک ڈیویلپمنٹ کے تجزبات و تجربات کے حوالے سے ان پر ایک کتاب ہونی چاہیے جو یقینا آنے والی نسل کے لئے مشعل راہ ہوگی۔ ) ۔ ان کے مطابق تعلیم کے شعبہ میں خرچ (سرمایہ کاری) کی بہت ضرورت ہے۔

اکنامک ڈیویلپمنٹ میں جگہ 49 % ہے لیکن ابھی تک صرف 7 % خواتین اس شعبہ میں کام کر سکی ہیں۔

آخر میں انھوں نے کہا ان قوموں نے جلدی ترقی کی جنھوں نے عورتوں کو ملکی ترقی سے الگ نہیں کیا۔ یا ان کے ساتھ ترقی کی۔

رول آف وومن ان میڈیا :

6 مارچ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے ریمارکس کے ساتھ اس سیشن کا آغاز ہوا۔

(آپ سب میڈیا اور اس کے استعمال کو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں تو پھر یہ بھی جانتے ہوں گے کہ انھوں نے کیا ریمارکس دیے آخر آپ کے نزدیک مارچ سے قوم و ملت خطرے میں ہے۔ اس لیے میں یہاں نہیں لکھ رہی۔ خبروں کے چینلز پر میڈیا ٹاک تو آپ سب دیکھتے ہیں چند دنوں میں اس کا اندازہ بخوبی ہوا۔ کیسا؟ کتنا؟ بخوبی اندازہ ہوا) ۔

”میرا جسم میری مرضی“ پر میرا صرف یہی جواب کافی ہوگا کیا آپ کو ”نواب پور“ کا سانحہ یاد ہے۔ انتا شور اس وقت اٹھا ہوتا۔ صحافی مظہر عباس

(نوجوانوں کی کافی تعداد تھی انھوں نے مختصرا اس واقعہ کا ذکر کیا۔ پڑھنے والوں کو بھی یاد ہوگا۔ یہ تو سر پر خاک ڈالنے جیسا سانحہ ہے ناکہ انتہائی بے شرمی سے عورتوں کے خلاف گالیوں کا دفاع ہو رہا ہے ) ۔

ادکار و فنکار کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے وہ سوشل پراپرٹی ہے۔ مجھے اس سوچ سے سوچ کر بھی آگ لگتی ہے۔ پالیسی لیول پر تبدیلیوں کی ضرورت ہے جس میں حکومت کا تعاون ناگزیر ہے۔ ثانیہ سعید صاحبہ

پبلک پراپرٹی کے لفظ کے استعمال سے ہراسمنٹ نکلتی ہے۔ عورتوں کے خلاف نفرت اگلنے والے ڈرامے پیش ہی نہیں ہونے چاہیے۔ بی گل

اس کے علاوہ دوپہر سے رات گئے تک کے اس سیشن میں بہت کارآمد گفتگو رہی۔

میں آخر میں ان ہی سیشن کی چند باتوں کے ساتھ مضمون کا اختتام کروں گی۔

میرا جسم تیری مرضی نہیں چل رہی شاید یہ سارا ماحول اس کا ہے۔

محبت سے تمام مسائل نمٹائے یا طے کیے جاسکتے ہیں محبت، افہام، احترام ہمارے معاشرے کا لازمی جز ہونا چاہیے۔ عورت و مرد کے درمیان توازن کی مثال ایسی ہونی چاہیے جیسے خدا نے کائنات کا نظام توازن مستحکم روانی کے ساتھ کیا ہے۔ جس سے کائناتی نظام چل رہا ہے اور قائم و دائم ہے۔

”میرا قلم میری مرضی پہ نہیں ہے“۔ مظہر عباس

مظہر عباس صاحب کی بات کے ساتھ اخری بات میں پوچھنا چاہتی ہوں۔

تمام لکھنے والوں سے کہ لکھنا جہاد ہے تو اپنے قلم کو آزاد تو کریں خود اپنی دقیانوسی سوچ سے۔ کیا آپ کے قلم کی پسماندگی خلیل صاحب کی زیان کی پسماندگی کے برابر ہے؟ اس کے ساتھ ہے؟ اس جیسی ہے؟

اپنی عورت سے نفرت اپنے تک رکھئے معاشرے کا مسیحا بن کر ڈرامے کی صورت معاشرے پر مسلط نہ کریں۔
اور اب تک عورت کے حق کے بارے میں لکھنے کے دعویدار اتائی کہاں روپوش ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments