مولانا سندھی کا رد استعماریت اور برٹش راج


مولانا سندھی کی سیاسی بصیرت کا خمیر شاہ ولی اللہ کے فکر سے تیار ہوا تھا، انھوں نے اپنے اس فکر کی طاقت کو انٹرنیشنل سطح پر منوایا۔ دس مارچ مولانا سندھی کا یوم پیدائش ہے، آپ کی وفات کے بعد ہند تقسیم ہوگیا، پاکستان کی ریاست تشکیل ہوتے ہی ایک نئے عالمی استعمار کی غلامی میں چلی گئی اور مابعد نوآبادیاتی منصوبہ بندی کے تحت بہ طور طفیلی ریاست ہماری پرورش ہوئی لہذا مولانا سندھی کے عظیم انقلابی منصوبوں اور خود مختار ریاست کے تصورات کو آج نئی نسل کے سامنے رکھنا ناگزیر ہے۔

مولانا سندھی انقلابی جدوجہد کے لیے اجتماعی فکر کی ترویج کے لیے ادارہ جاتی اپروچ پر کام کرتے رہے۔ جمعیت الانصار، نظارة المعارف، سندھ ساگر اکیڈمی، محمد قاسم ولی اللہ تھیالوجیکل کالج، جمنا، نربدا سندھ ساگر پارٹی، تحریک ریشمی رومال، بیت الحکمت، جمعیت خدام الحکمتہ وغیرہ تشکیل دیے۔ مولانا سندھی خود اپنے مشاہدات و تجربات کو تین ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ 1887 ء تا 1915 ء کا پہلا دور جب وہ ہندستان میں تھے، دوسرا دور 1915 ء تا 1939 ء، انھوں نے اپنے دوسرے دور میں یورپ کی دو تحریکوں لبرل ازم اور مکینیکل ازم کا تجزیہ پیش کیا اور تیسرا دور 1939 ء کے بعد احاطہ کرتے ہیں۔ وہ دین اسلام کو انقلابی دین تصور کرتے ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ اسلام کا واحد مقصد کسرویت اور قیصرویت کا خاتمہ ہے، یعنی استعمار کا خاتمہ ہی اس دین کا بنیادی مقصد ہے۔ انھوں نے دین کے انقلابی فکر کو پیش کیا تو مذہبی رجعت پسندوں کو بھی خطرہ ہوگیا۔

مولانا سندھی نے مہابھارت سرو راجیہ پارٹی کا خاکہ پیش کر کے منشور لکھا۔ ان کا لکھا ہوا سرو راجیہ منشور (شائع کردہ ستمبر 1924 ء ( آج چھیانوے برس بعد بھی قومی آزادی و سیاسی خود مختاری کی ایسی دستاویز ہے جسے قومی آزادی کا میگنا کارٹا کہنا بجا ہوگا۔ سرو کے معنی ہندی میں ”سب کے“ ہیں، اور یوں سرو راجیہ کے معنی سب کا راج قائم کرنے والی پارٹی ہے جو سب لوگوں کی رنگ، مذہب، مال و دولت کے فرق کے بغیر حکومت قائم کرے گی۔ چالیس نکات پر مشتمل اس دستاویز کی بنیاد قومی سطح پر سیاسی و اقتصادی آزادی ہے۔ مولانا سندھی ملک کے بڑے طبقوں یعنی کاشت کار، مزدور اور دماغی محنت کشوں کی جمہوری حکومت میں نمائندگی سے اس منشور کی ابتداء کرتے ہیں اور اقتصادی نظام انھیں قرض و افلاس سے بچانے کا ضامن ہو اور ملک کو ایسے خارجی قرضہ کا محتاج نہ بنائے، جس سے سیاسی آزادی سلب ہونے کا خطرہ پیدا ہوسکے۔

اسی منشور میں مولانا سندھی نے ایشیاٹک فیڈریشن کا تصور پیش کیا اور روس کو ایشیاٹک فیڈریشن میں شامل کر کے عالمی استعمار کی طاقت کو توڑنے کا منصوبہ دیا گیا۔ استنبول میں اس منشور کی کاپی جب ہندستان بھیجی گئی تو اسے سرکار نے ضبط کر لیا تاہم چار مہینوں بعد اس منشور کے انگریزی ترجمے کی کاپیاں خفیہ طور پر ہندستان بھیجی گئیں۔ سرو راجیہ منشور کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کا 1930 ء کا خطبہ الہ آباد مولانا سندھی کے تحریر کردہ سرو راجیہ منشور کا چربہ ہے۔ اس منشور پر آئندہ کبھی لکھیں گے۔

مولانا سندھی ہر قیمت پر انقلابی فکر کی بنیاد پر برطانوی راج سے آزادی چاہتے تھے چنانچہ انھوں نے انگریز سرکار کے خلاف ریشمی رومال کی تحریک چلائی جو یہاں کے مقامی غداروں کی وجہ سے فاش ہوئی، اس تحریک سے برطانیہ اس حد تک خوف زدہ ہوگیا کہ مکہ میں شریف مکہ کی مدد سے مولانا سندھی کے اُستاد محمود حسن (شیخ الہند) اور حسین احمد مدنی کو گرفتار کر کے جزیرہ مالٹا بھیج دیا اور 1919 ء کی رولٹ کمیٹی کی رپورٹ میں سی آئی ڈی رپورٹس کی بنیاد پر منصوبہ کی تفصیلات بیان کیں، چونکہ مولانا سندھی کابل میں رہ کر برطانیہ کو ہندستان سے نکالنے کا منصوبہ بنا رہے تھے اس تحریک کا مرکزی کردار ہونے کی بناء پر برطانوی سرکار نے ان کی عدم موجودگی میں ہی انھیں پھانسی کی سزا سنا دی۔ انقلابی فکر کی طاقت کا اندازہ لگائیے کہ مولانا سندھی کے خوف میں برطانیہ نے اپنے ملک کے با اختیار فوجی ٹربیونل کے سامنے استغاثہ دائر کر دیا جس کا عنوان تھا کہ ”معظم شہنشاہ ہند، بنام عبید اللہ سندھی“۔ یہ مقدمہ بھی قابل مطالعہ ہے جس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔

مولانا سندھی نے اپنی ذہانت اور سیاسی دور اندیشی کی بناء پر اُس وقت کی دو بڑی طاقتوں روس اور جرمنی کی حکومتوں کے ساتھ ہندستان کی آزادی کے معاہدات کر لیے۔ افغانستان میں حکومت موقتہ قائم کر کے وزیر ہند کی حیثیت سے سوویت یونین سے ہندستانی فوج کی تربیت کرنے کا معاہدہ کیا، افغانستان کی آزادی کے لیے اگست 1919 ء میں راولپنڈی میں برطانوی سرکار کے ساتھ جو معاہدہ ہوا اس کے پیچھے مولانا سندھی کی منصوبہ بندی تھی اور آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے ذریعے سے امیر امان اللہ کی حکومت کو تسلیم کرایا، صرف یہی نہیں بلکہ سوویت یونین اور جرمنی کو سفارتی مہارت سے مجبور کیا کہ وہ افغانستان کی آزادی کو تسلیم کرے۔ برطانوی سامراج نے مولانا سندھی کو کابل سے نکالنے کے لیے افغان حکومت پر دباؤ ڈالا، مولانا سندھی نے سیاسی پابندیاں عائد ہونے سے قبل ہی کابل چھوڑ کر ماسکو روانگی کی۔

شاہ ولی اللہ کی سیاسی تحریک میں مولانا سندھی واحد عالمی لیڈر تھے جن کو سیاست کے عالمی اُفق پر ایسا طُرہ امتیاز نصیب ہوا جو دُنیا کے کسی سیاسی لیڈر کو ابھی نہیں ملا، مولانا سندھی نے پگھلا دینے والی سیاسی تپش کی پرواہ کیے بغیر سیاست کے دہکتے ہوئے انگاروں پر پاوں رکھ دیا اور اس شعلوں کے سمندر کو عبور کر کے بکنگھم پیلس کی در و دیوار ہلا کر غلام ہندستان کے غاصب شہنشاہ برطانیہ کے تاج پر ہاتھ ڈالا، اپنے اس عظیم تر مشن کے لیے انھوں نے پچیس برس کی جلاوطنی قبول کی۔

کابل سے ماسکو (روس) پہنچے تو لینن کی سرپرستی میں روسی انقلاب کا سورج طلوع ہوا تھا، اپنے سیاسی ویژن کی بنیاد پر روسی حکومت تک رسائی حاصل کی اور سوویت یونین کی وزارت خارجہ کی عمارت میں وزیر خارجہ چیچرن کے ساتھ صرف تین ملاقاتوں کے بعد ہی ہندستان کی آزادی کے منصوبے کو منوا لیا، برطانیہ کے خلاف جدوجہد آزادی ہند کے لئے لینن کی منظوری کے بعد ہندستانیوں کو ایک کروڑ روپے مالی مدد دینے پر روس آمادہ ہوگیا، اس معاہدے کو عملی شکل دینے کے لیے مولانا سندھی تُرکی چلے گئے اور تُرکی میں روسی قونصل خانے کے ذریعے سے اس منصوبے پر کام کرنے لگے۔

مولانا سندھی نے استنبول پہنچ کر روس کی معاہدے پر آمادگی کو عملی شکل دینے کے لیے کانگریسی لیڈروں سے ملاقاتیں کیں، ترکی میں حکومت تبدیل ہونے پر برطانوی سامراج نے مولانا سندھی کی سیاسی سرگرمیوں کی جاسوسی شروع کر دی گئی چنانچہ مولانا سندھی پندرہ اگست 1926 ء میں حجاز چلے گئے اور پھر وہاں سے مکہ پہنچ گئے اس وقت آپ کی عمر 56 برس تھی اور اسلام قبول کیے ہوئے چالیس سال ہو چکے تھے۔ یہاں پر انھوں نے تیرہ برس تک درس و تدریس کی اور بیت اللہ کے سامنے بیٹھ کر قرآن و حدیث کی کلاس پڑھائی۔

مولانا سندھی کو مارچ 1939 ء میں شہنشاہ ہند اور وائسرائے ہند کی اجازت کے بعد برطانوی سرکار نے اس شرط پر ہندستان واپس آنے کی اجازت دی کہ وہ عملی سیاست میں حصہ نہیں لیں گے چنانچہ کراچی بندرگاہ پر وزیر اعلیٰ سندھ اللہ بخش خان سومرو اور دیگر اکابرین نے ان کا استقبال کیا۔ اپنی واپسی کے ایک سال بعد بیت الحکمت جامعہ نگر، دہلی سے ہم کیا چاہتے ہیں؟ کے عنوان سے ایک پمفلٹ جاری کیا جس میں آزاد ہندستان کے سیاسی مستقبل کا ایک دستوری تصور پیش کیا اور مسلم لیگ کو ایک تنبیہہ بھی کی تھی، یہ دستاویز سیاست و تاریخ کے طلباء ضرور مطالعہ کریں۔ پاکستان کا قومی ذہن آج الجھن کا شکار ہے اور ریاست کے مستقبل پر سوالات اُٹھاتا ہے، مولانا سندھی کا یوم پیدائش یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس خطے کی سیاسی آزادی کے لیے اُن کے فکر کا گہرائی سے مطالعہ کریں تاکہ قوم استعماری حربوں اور جدید عہد کی غلامی سے نکل سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments