بھنبھور کے آثارِ قدیمہ اس کے بارے میں کیا بتاتے ہیں؟


دریائے سندھ سے بہتی ایک نہر، چھوٹی سی پہاڑی، سمندر کا کنارہ اوراس میں لنگر ڈالے رنگین بادبانوں والے جہاز۔ کئی خطوں سے آتے اور مختلف زبانیں بولتے تاجر، ہر وقت لوگوں سے کھچاکھچ بھری رہتی شہر کی بازار۔ یہ ہے ماضی کے اس شہر کا منظرنامہ لیکن، اب اس میں صدیوں سے ویرانی ہی بستی ہے۔ اب یہاں کوئی بندرگاہ نہیں، اب یہاں کوئی دھوبی گھاٹ نہیں، اب یہاں اس خوشبو کا بیوپار نہیں ہوتا، جس کا ذکر شاہ لطیف بھٹائی نے اپنی شاعری میں کیا۔

لوگ اس مقام کو بھنبھور کہتے ہیں، کیونکہ بھنبھور سسی کا شہر تھا۔ اور سسی پنہوں کی داستان سندھ میں محبت کی ایک لازوال داستان مانی جاتی ہے۔ جبکہ تاریخ دانوں نے اس شہر کو دیبل بھی لکھ دیا ہے۔ بھنبھور یا دیبل؟ یہ قصہ اب تک الجھا ہوا ہی ہے۔

بھنبھور یا دیبل؟ ایک ایسی الجھی ہوئی گتھی، جس کو سلجھانے میں اب تک کی ساری مہارتیں اور کوششیں بیکار ہی ثابت ہوئی ہیں۔ جب تک یہ معمہ حل ہو، تب تک ہم اس شہر کو ”بھنبھور ، باربیریکان اور دیبل“ ہی فرض کریں گے۔ شاید یہ ہی وہ جگہ ہو، جس کے ذکر سے یونانی مورخین، راویوں، اور عرب سیاحون کے سفرنامے بھرے پڑے ہیں۔ جن کی ورق گردانی کرتے کرتے ہم میں سے اکثر لوگوں نے اپنے اپنے اندازے اور انومان گھڑ لئے ہیں۔ بھنبھور جو ماضی میں کئی بار بنتا اور اجڑتا رہا۔ جس میں سسی جیسے محبت کے لازوال کردار نے جنم لیا، جو صدیاں گزرنے بعد بھی لوگوں کی دلوں میں زندہ ہے۔

بھنبھور جس کے لئے تاریخ کی کتابوں میں لکھا گیا کہ، اس میں ایک مندر کی عمارت 120 گز تک اونچی ہوا کرتی تھی، اب تو وہ ڈھونڈے نہیں ملتی۔ ڈاکٹر ممتازعلی پٹھان اپنی کتاب ’سندھ عرب دور‘ میں لکھتا ہے ’دیبل سمندر کے کنارے ایک بڑا شہر تھا۔ شہر کے مرکز میں بنے مندر کے گنبد پر ایک لال جھنڈا لہراتا رہتا۔ دیبل کے باسیوں کا عقیدہ تھا کہ کئی دیوتا مل کر اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ ‘

تاریخ سندھ پر بنیادی ماخذ کی مشہور کتاب چچ نامہ میں اس جھنڈے کا ذکر کچھ اس طرح ہے : ’وہ مندر 360 فیٹ تک اونچا تھا‘ ۔ کتاب پیرائتی سندھ کتھا میں ایم ایچھ پنھور لکھتا ہے۔ اس بندرگاہ سے ایشیا کے شمالی اور مغربی علاقوں کا مال بیرون ملک کو جاتا تھا، وہ سامان پنجاب سے بہتے دریاؤں کے وسیلے سندھو ڈیلٹا میں موجود باربریکان (بھنبھور ) تک پنہچتا تھا۔ وہ بھنبھور جس کے شروعاتی نچلے تہہ پہلی صدی عیسوی تک پرانے ہیں۔

بھنبھور کی معاشی ترقی کی بات ڈاکٹر غلام علی الانا اپنی ”کتاب لاڑ جی ادبی اور ثقافتی تاریخ“ میں کچھ یوں کرتے ہیں : ’بھنبھور کی کھدائی سے ملی اردناگری اور لہانکی لپی یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ شہر نہ صرف خریدو فروخت کا مرکز تھا، اس شہر کے لوگوں کی نہ صرف اپنی زبان تھی بلکہ وہ لکھی بھی جاسکتی تھی‘ ۔

سندھ کا ایک محقق بدر ابڑو اپنی کتاب ”سندھو کا سفر“ میں اس شہر کو دیبل سے الگ کرتے ہوئے لکھتا ہے ’ساری ڈیلٹا میں بھنبھور کا اکیلا قلعہ ہی ہے جو اینٹوں کے بجائے پتھروں سے بنایا گیا ہے۔

بھنبھور کوئی معمولی سا شہر نہیں ہے۔ اس شہر پر سب سے پہلے 1930 ع این جی موجمدار اور 1951 ع میں ایک یورپی ماہر نے کام کیا۔ مارچ/ اپریل 1958 ع محکمہ آثار قدیم کے طرف سے ڈاکٹر ایف۔ ای خان نے کھدائی کا کام شروع کیا۔ اب تک کی کھدائی سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ، یہ شہر کم سے کم پہلی صدی قبل مسیح سے پہلی صدی عیسوی تک ستھیوں اور ساسانیوں کے زیراثر بھی رہا ہے۔ یہاں سے جو برتن ملے ہیں ان میں سے کچھ پر تو یونانی بناوٹ کے ہیں، جبکہ کچھ برتن اور پتھر ایسے بھی ملے ہیں جن پر عربی زبان کے کوفی خط میں تحریر شامل ہے۔

بدر ابڑو کے مطابق ’قلعے کی دیوار میں مورچوں کی تعداد اس طرح ہے، شمال کی جانب 12 برج مشرق اور مغرب کے اطراف 5 / 5 برج جبکہ جنوبی طرف کی دیوار میں 15 سے لے کر 20 تک مورچے ہوسکتے ہیں۔ اس قلعے کے اندر ایک اور بھی دیوار بنی ہوئی ہے جس میں 10 تک مورچے بنے ہوئے ہیں۔ اس طرح یہ قعلہ دو حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ مشرقی حصہ کی اہم دریافت کوفی طرز تعمیر کی مسجد، جبکہ مغرب والے حصے سے شو کا مندر اور شو لنگ دریافت ہوئے ہیں۔

بدر ابڑو لکھتے ہیں ’جس جگہ پر میوزم اور ریسٹورنٹ بنا ہوا ہے وہاں بھنبھور کا صنعتی ایریا ہوا کرتا تھا۔ انگریز محقق رچرڈ ایف برٹن کتاب سندھ منھنجی نظر میں میں لھکتا ہے :‘ بھنبھور کا تعلق سکندر کے زمانے سے ہے۔ کچھ لوگ اسے باربیریکن اور کچھ لوگ دیبل کے نام سے پکارتے ہیں۔ کسی زمانے میں یہ بہت بڑا بندرگاہ ہوا کرتا، لیکن اب یہاں صرف قدیم گھروں کی بنیادیں اور قلعہ کے چبوتروں کے نشان باقی رہ گئے ہیں۔ ’

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ جب دریائے سندھ نے اپنا رخ بدلا تو اس بندرگاہ کی اہمیت کم پڑنے لگی اور یوں یہ شہر ویران ہوگیا۔ کچھ ماہریں اس کی تباہی کا دوش کسی زلزلے کے ماتھے پر لگا دیتے ہیں۔ لیکن بھنبھور پر کام کرنے والے ڈاکٹر ایف ایے خان کی رائے ہے ’اس شہر کی تباہی میں جلال الدین خوارزم شاہ کا بڑا ہاتھ ہے۔ کیونکہ بھنبھور کی تباہ شدہ عمارتیں، جگہ جگہ جلا ہوا ملبہ، انسانی ڈھانچوں میں چبھی ہوئی تیروں کی نوکیں، اور تلواروں کے ٹکڑے اس بات کی گواہی دینے کو کافی ہیں کہ، اس شہر کو کوئی بڑا حملہ کر کے تباہ کیا گیا ہے‘

2012 ع میں حکومت سندھ کے آرکیالاجی ڈپارٹمنٹ اور، اٹالین اور فرینچ ماہرین نے مل کر اس مقام پر کام کرنے کا ایک منصوبہ بنایا۔

جوائنٹ پاکستانی، فرینچ اٹالین ہسٹاریکل اینڈ آرکیالوجیکل مشن ائٹ بھنبھور کی ایک رپورٹ کے تحت ’بھنبھور کے آثار، قلعے کے اندر اور باہر میدان میں بکھرے پڑے ہیں۔ یہاں بندرگاہ کے نشان، گھروں کے آثار، قلعے سے باہر رہنے والے لوگوں کی کچی آبادی، گودام، اور کام کاج کی جگہوں کے آثارملتے ہیں۔ ‘ حال ہی میں اس ٹیم کو بھنبھور سے بڑی مقدار میں ہاتھی دانت کا ملنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ ہاتھی دانت سے بنی مصنوعات میں اس خطے کا سب سے بڑا مرکز تھا۔

یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ ہاتھی دانت سے بنے زیورات اور مصنوعات دنیا میں کتنی مہنگی اور مشہور رہی ہیں؟ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ماضی میں دریائے سندھ کے جنگلات میں ہاتھی بھی بڑی کثرت سے پائے جاتے، ہم اس وقت کے علاقائی ماحولیات کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔

محکمہ آرکیالوجی کے ڈائریکڑ جنرل منظور احمد کناسرو کا کہنا ہے کہ ’بھنبھور کو ورلڈ ہیریٹیج سائیٹ قرار دینے کے لیے ڈرافٹ کامیابی سے بھیجا گیا ہے۔ گذشتہ 26 سالوں کے اندر پاکستان کا یہ پہلا مقام ہوگا جو ورلڈ ہیریٹیج میں شامل ہوگا۔ یہ سب پاکستان آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ اور اٹالین آرکیالوجسٹ ٹیم کی لگن اور دن رات محنت کے سبب کی ممکن بن پایا ہے۔ ‘ بھر حال اچھی بات یہ ہے کہ بھنبھور نے سسی کی محبت کے لازوال کرداراور کہانی سے لے کر تہذیب اور ورثے میں بھی اپنے نام کی اہمیت نہیں گنوائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments