عورت مارچ کا ہنگامہ


ہماری بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ تقسیم کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ کسی سانحے اور بڑی سے بڑی قیامت کی گھڑی میں ہم ایک دوسرے کے کندھے پر دست تسلی رکھنا گوارا نہیں کرتے تو ہمارے ہاں بامقصد مکالمہ کس طرح ممکن ہے؟ عورت مارچ متنازعہ ہونے کا بڑا سبب ہماری کج بحثی اور بغیر دلیل اپنے موقف پر اڑنے کی عادت ہے۔ ہم کسی مسئلے کا حل ڈھونڈنے میں آج تک ہمیشہ ناکام اسی لیے رہے ہیں کہ مسئلے کی وجوہات جاننے کے بجائے یہاں غیر متعلقہ اور لایعنی بحث چھیڑ لی جاتی ہیں یا ذاتی کمزوریوں کو جواز بنا کر مخالفین پر حملے شروع کر دیے جاتے ہیں۔ نتیجتاً مخالف بھی اصل مسئلے کو پس پشت ڈال کر اپنے مسلک کا دفاع شروع کر دیتا ہے۔ تقسیم در تقسیم کا عمل ہر سطح پر موجود ہے لیکن معاشرتی و سماجی امور میں کچھ عرصہ سے لبرل ازم کے حامیوں اور مذہب پرستوں کے خیالات میں تقسیم اختلاف رائے سے آگے نکل کر کدورت اور نفرت تک پہنچ چکی ہے۔

بہتر سال ملک و قوم کے ارتقا اور کامیابی کے لیے کم نہیں۔ اس دورانیے میں تین نسلیں گزرتی ہیں۔ ہماری نیت اگر صاف ارادہ اٹل اور دلوں میں نفاق نہ ہوتا، اس مدت میں زمین و آسمان کی وسعت با آسانی طے ہو سکتی تھی۔ ہمارے ساتھ آزادی حاصل کرنے والے دیگر ملکوں کو دیکھ لیں، خلاؤں سے آگے نکل گئے اور ہمارا پستی کی ڈھلوان پر لڑھکنے کا سفر نہیں تھم رہا۔ مشرقی پاکستان کے سانحے سے بڑی قیامت کیا ہو گی۔ اس کی وجہ نا اتفاقی کے سوا کچھ نہ تھی۔

کاش اس کے بعد ہی ہماری سوچ بدل جاتی۔ افسوس کہ پھر بھی ہم ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا ظرف حاصل نہیں کر پائے۔ معاملہ سیاسی ہو یا قومی سلامتی سے متعلق، مذہبی اور فقہی اختلاف ہو یا معاشرتی اور سماجی مسائل کہیں اتفاق رائے ہے اور نہ کوئی مخالف کی سننے کا روادار۔ اس قومی انتشار و اضمحال کی بیخ کنی کرنے والا کوئی نہیں البتہ جلتی پر تیل چھڑکنے والے یہاں بہت ہیں۔ کوئی کسی سے کم نہیں، نہ مخالف کی بات سننے کا کسی میں حوصلہ ہے۔

ایک کا سچ دوسرے کے لیے جھوٹ، لغو اور بے بنیاد، اور دوسرے کی اظہر من الشمس دلیل بھی پہلے کے لیے سازش، بیرونی ایما اور ملک و قوم سے غداری کے مترادف۔ ہر شخص نے اپنے نظریات اور سوچ کے مطابق بت تراش رکھے ہیں۔ وہ جو کہیں، ان کے چاہنے والے آمنا صدقنا کہیں گے۔ دوسرے کے مداحوں کے نزدیک اپنے عقیدے کے بت کی بات حرف آخر۔ الا چند ایک کے۔ جن کی حیثیت نقار خانے میں طوطی کی صدا سے زیادہ نہیں۔ خود سے قوم میں کسی کو تحقیق کی حاجت ہے نہ سچائی تک پہنچنے کی جستجو۔

روز اول سے قوم کی مجموعی سوچ مختلف ٹکڑوں میں اس طرح منقسم ہے کہ ان دائروں سے باہر دیکھنے کی مجال نہیں۔ کوئی کوشش کر بیٹھے تو غداری کے سرٹیفیکٹ کفر کے فتووں اور دشنام کے غبار کا سامنا کرتے دیر نہیں لگتی۔ کسی کو خیال نہیں کہ حقائق چھپانے اور سوچ پر پہرے بٹھانے کا عمل قومی مستقبل کے لیے زہر قاتل ہو گا۔

معاشرے کو مربوط اور صحتمند رکھنے میں اتفاق رائے بنیادی عامل ہے۔ اس کا لیکن یہ مطلب نہیں کہ معاشرے میں اختلاف رائے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اختلاف رائے بھی معاشرے کا حسن ہے اور معاشرے کی ترقی کے لئے متضاد خیالات سامنا آنا لازم ہیں۔ متنوع نظریات، خیالات اور سوالات سامنے آنا اگر بند ہو جائیں تو معاشرے جمود کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جہاں زباں بندی ہو وہاں فضا میں گھٹن در آتی ہے اور گھٹن زدہ فضا سے بعد ازاں بغاوت جنم لیتی ہے۔

اختلاف رائے کو کچلنے جیسا بظاہر معمولی اقدام معاشرے کی تقسیم پر متنج ہوتا ہے۔ جمہوری معاشرے کی عمارت تو ویسے بھی صحتمند مسابقت کی بنیاد پر استوار ہوتی ہے لہذا خلاف طبیعت آرا برداشت کرنا اور اگر انہیں رد بھی کرنا پڑے تو ٹھوس دلیل فراہم کرنا لازم ہے۔ جمہوریت میں اکثریتی رائے ہمیشہ مقدم ہوا کرتی ہے مگر جمہوری معاشروں میں اقلیتی نظریات کے تحفظ کی بھی ہر ممکن پابندی کی جاتی ہے۔ با ایں ہمہ ہر گروہ چاہے وہ اقلیت سے تعلق رکھتا ہو یا اکثریت سے اسے اپنی بات، خیالات، تحفظات اور نظریات کھل کر بیان کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔

نفسیات کے مطالعے سے علم ہوتا ہے کہ انسان ایک خاص حد سے زیادہ پابندی برداشت نہیں کر سکتا، اس کے بعد وہ سرکشی پر مائل ہو جاتا ہے۔ معاشرے کا کوئی بھی طبقہ اگر یہ محسوس کر رہا ہو کہ وہ استحصال کا شکار ہے تو پھر یہ ضرورت دو چند ہو جاتی ہے کہ اسے اپنی بھڑاس نکالنے کا پورا موقع دیا جائے۔ تاریخ بتاتی ہے جہاں استحصال کے خلاف اٹھنے والی آوازوں پر سیفٹی بیریئرز لگائے گئے وہ معاشرے بالآخر تباہی و بربادی سے ہمنکار ہوئے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کی سوچ اور مطالبات سے مجھے ایک فیصد بھی اتفاق نہیں۔ لیکن یہ صفحات گواہ ہیں کہ ان کی بات کا ابلاغ روکنے کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا جا رہا تھا اس کے خلاف میں نے ایک سے زائد کالم لکھے۔ آج کے دور میں جس چیز کو دبایا جائے اتنی ہی شدت سے وہ ابھرے گی سمجھداری کا تقاضا یہی ہے مخالفین کو بولنے کا موقع دیا جائے تاوقتیکہ وہ بے نقاب ہوں۔ کون سا صحتمند ذہن ہو گا جو معاشرے سے کاروکاری، ونی اور پسند کی شادی پر قتل جیسی بہیمانہ وارداتوں کا خاتمہ نہیں چاہے گا۔

اسی طرح اولاد میں جنس کی بنیاد پر امتیاز کرنے، خواتین کو وراثت سے محروم رکھنے اور بیوی کو پاؤں کی جوتی سمجھنے والے کی حمایت کون کر سکتا ہے؟ سرکار دو عالمؐ کی اپنی والدہ ماجدہ سے والہانہ عقیدت، ازواج مطہراتؓ سے حسن سلوک اور بیٹی سیدنا فاطمہؓ سے شفقت و محبت دیکھنے کے بعد کوئی کافر ہی ہوگا جو خواتین کی تکریم پر یقین نہ رکھے۔ تماشا مگر یہ ہے کہ مارچ کے حمایتی کسی دلیل کے بغیر اس قسم کا تاثر پیش کر رہے ہیں جیسے ہمارے معاشرے میں عورت تیسرے درجے کی کوئی مخلوق ہو۔

دوسری طرف مخالفین کا طرز عمل بھی مناسب نہیں، وہ بھی اس بیانیے کو دلیل سے رد کرنے کے بجائے برابر شور مچانے پر تلے ہوئے ہیں۔ دونوں کا طرز عمل درست ہے نہ مناسب۔ کسی بھی کاز کے لیے مقدمہ پیش کرتے وقت احتیاط کی جاتی ہے کہ ایسی بات منہ سے نہ نکلے جس کی وضاحت دینی پڑے یا موقف کی کمزوری کا باعث بنے۔ اس لحاظ سے احتیاط عورت مارچ کے منتظمین کی زیادہ ذمہ داری تھی کہ اپنے تئیں وہ حقوق کی جدوجہد کر رہے تھے۔ ہر معاشرے اور سماج کی اپنی روایات ہوتی ہیں اور ان کا احترام کرنا پڑتا ہے۔

ہمارے ہاں عورت مارچ کئی برسوں سے جاری تھا لیکن اس پر ردعمل کبھی نہیں آیا۔ پچھلے سال پہلی بار مارچ میں بیہودہ نعرے لگے، جو ہماری روایات سے مطابقت رکھتے تھے نہ خواتین کے حقوق سے ان کا تعلق تھا، جن سے بد مزگی پیدا ہوئی۔ اس کے باوجود ان نعروں پر اصرار سے ہم ایسے معاشروں میں کشیدگی بڑھنا لازم تھا۔ کشیدگی سے توجہ ضرور مل سکتی ہے مگر مقصد میں کامیابی نہیں۔ دوسری جانب اس موقف کے مخالفین بھی اپنے تئیں روایات و اخلاقیات کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے تھے، ان کا طرز عمل بھی مگر مناسب نہ تھا۔ اعتدال کا تقاضا یہ تھا جو دلیل کا طلبگار تھا اس سے مکالمہ کرتے، ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے والوں کے سامنے خاموش رہتے۔ کیونکہ حکم خداوندی ہے وذا خاطبھم الجاہلون قالو سلاما۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments