آٹے اور چینی کا بحران اور حکومت کی شرمندگی


عوام کو اپنے روٹی روزگار ’غربت مہنگائی کے مسائل میں بہرصورت فوری ریلیف کی ضرورت ہے جس کے لئے وزیراعظم تو جذبے سے معمور ہیں اور ریلیف کے لئے اپنی معاشی ٹیم کو متحرک بھی کرتے ہیں، مگر ذخیرہ اندوز اور بجلی‘ گیس چور مافیا نے اپنی من مانیوں کے باعث عوام کے لئے فوری ریلیف ہنوز دلی دور است کے مصداق بنا دیا ہے۔ ماہِ جنوری میں ملک بھر میں گندم کے ایک سنگین بحران نے جنم لیا، دیکھتے ہی دیکھتے مارکیٹ سے آٹا غائب ہوا، بیشتر دکانداروں اور فلور مل مالکان نے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا، مہنگائی کی چکی میں پستے مجبور عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور اس کے نتیجے میں غریب کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی محال ہو گیاہے۔

وزیراعظم عمران خان نے صورتحال کا بروقت نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا جس کے تحت وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے ) کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے۔ اس میں متذکرہ بحران کو مصنوعی قرار دیتے ہوئے بدانتظامی کو اس کا بنیادی سبب بتایا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملک میں گندم کا کوئی بحران نہیں تھا، مصنوعی طور پر اس کی قلت پیدا کی گئی اور اس وقت بھی 21 لاکھ ٹن گندم موجود ہے۔ وزیراعظم نے یقین دلایاہے کہ آٹے، چینی کے بحران میں جو بھی قصوروار نکلا، چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اسے نہیں چھوڑا جائے گا، لہٰذا رپورٹ کی روشنی میں ذمہ دار افراد کو بے نقاب کرتے ہوئے فوری طور پر قانون کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔ اگر اس بار بھی کسی مصلحت کے پیش نظر کوتاہی کی گئی تو سماج دشمن عناصر کو کھلی چھوٹ مل جائے گی اورآئے دن اشیائے خورو نوش کا مصنوعی بحران پیدا کرنے کی مزید حوصلہ افزائی ہو گی۔

اس میں شک نہیں کہ ملک بھر میں گندم اور آٹے کا بحران شدت اختیار کر گیا تھا اور چکی پر آٹے کی قیمت 70 روپے فی کلو تک جا پہنچی تھی، 20 کلو تھیلے کی قیمت 805 روپے ہو گئی ’اس بحرانی صورت حال پر وفاقی‘ صوبائی اور ضلعی انتظامیہ فوری طور پر قابو پانے میں ناکام نظر آئیں ’صورت حال اس قدر بگڑی کہ ملک کے بعض علاقوں میں نان بائیوں نے آٹا مہنگا ہونے کے بعد از خود روٹی اور نان کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا، احتجاج وہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوا تو وفاقی حکومت کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جانے لگا کہ ملک بھر میں گندم کا وافر اسٹاک موجود ہے اور موجودہ گندم کا بحران مصنوعی ہے جس کی بنیادی وجہ سپلائی چین میں رکاوٹوں کے ساتھ مختلف مسائل کا پیدا ہونا ہے۔ اس صورت حال میں آٹے اور گندم کے بحران پر قابو پانے کے لیے وفاقی حکومت نے 3 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری بھی دے ڈالی تھی۔

یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ ملک میں کوئی بھی بحران یک دم پیدا نہیں ہوتا، اس کے پس منظر میں حکومتی مشینری کی نا اہلی ’کرپشن‘ بدانتظامی یا غلط فیصلوں کا کہیں نہ کہیں عمل دخل لازمی ہوتا ہے، ماضی میں آٹا بحران پیدا ہونے کی ایک وجہ افغانستان اسمگلنگ کا عنصر بھی شامل تھا۔ گزشتہ دنوں جب آٹا بحران پیدا ہوا تو اس وقت وفاقی اور سندھ حکومت کے درمیان الزامات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا اور دونوں ایک دوسرے کو اس بحران کا ذمے دار گردانتے رہے ہیں۔

اس آٹا بحران کے ساتھ ساتھ چینی کی قیمتوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہونے پر حکومت شدید دباؤ میں آ گئی اور اس نے تمام معاملات کی تحقیقات شروع کروا دیں۔ ایف آئی اے نے آٹا بحران کے متعلق مکمل تحقیقاتی رپورٹ پیش کر دی ہے جس میں اس بحران کے ذمے داروں کا تعین بھی کیا گیاہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کرپٹ لوگوں کو سزا دینے اور کرپشن کے مکمل خاتمے کی دعوے دار حکومت آٹا بحران کے ذمے داروں کے خلاف کیا کارروائی کرتی ہے۔

اس وقت ہونا تو یہ چاہیے کہ اس بحران کے ذمے داروں کے خلاف بلا امتیاز فوری قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے، تاکہ آیندہ کسی کو ایسا گھناؤنا کھیل کھیلنے کی جرات نہ ہو، پاکستان میں کرپشن کا عنصر تمام اداروں میں بدرجہ اتم موجود ہے اور حکومت تمام تر دعوؤں کے باوجود کسی ایک بھی محکمے سے بھی کر پشن کا خاتمہ نہیں کر سکی ہے۔

حکومت نے اپنی آئینی مدت کا نصف بھی طے نہیں کیا کہ ایسی بدانتظامی سامنے آئی جس سے حکومت کو شرمندگی اور عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اس بحران سے کچھ لوگوں نے سیاسی اور مالی فائدہ اٹھایاہے۔ اپوزیشن نے تو سیاسی فائدہ اٹھانا ہی تھا، مالی فائدہ جس نے بھی اٹھایا اور وہ جتنا بھی با اثر ہے، اس سے کوئی نرمی اور رورعایت نہیں ہونی چاہیے ورنہ حکومت کو اپنے بقیہ دور میں ایسے کئی بحرانوں اور سبکی کا سامنا کرنا پڑتا رہے گا۔

وزیراعظم اکثر و بیشتر ملکی اداروں میں رائج کرپشن کا ذکر بڑے درد بھرے انداز میں کرتے رہتے ہیں اور اس کے خاتمے کا عزم بھی دہراتے ہیں، لیکن ابھی تک سرکاری اداروں میں کرپشن کے خاتمے کے لیے کوئی ٹھوس حکومتی حکمت عملی سامنے نہیں آئی ہے، تحریک انصاف حکومت کو اپنے کرپشن کے خاتمے کے دعوؤں کو یقینی بنانے کے لئے موثر اقدامات کرنے ہوں گے َ۔

عوام سمجھتے ہیں کہ شوگر، گندم مافیازخواہ حکومت یا حزب اختلاف کی صفوں میں ہوں، وہ مفادات کے پجاری ہوتے ہیں، انہوں نے عوام کا خون چوس کر گندم اور شوگر بحران میں راتوں رات اربوں روپے ناجائز کمائے ہیں، اس منظم مافیا کی جڑیں حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں گہری پھیلی ہونے کے سبب ان کے خلاف کارروائی مشکل نظر آتی ہے۔ ماضی میں بھی اس طرح کی کوششیں لا حاصل ثابت ہوئی ہیں، لیکن اس بار وزیراعظم نے جس عزم کے ساتھ عندیہ دیا ہے تو اُمید کی جاتی ہے کہ بحران کے ذمہ داروں پر سمجھوتہ کرنے کی بجائے، انہیں نہ صرف بے نقاب کیا جائے گا، بلکہ سزا وجزا کو یقینی بناتے ہوئے نشان عبرت بھی بنایا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments