افغانستان: دو صدر، ایک امیر اور دیوانے کے خواب جیسا امن


وزیر اعظم عمران خان نے ایک ایسے وقت میں افغان امن معاہدہ کی کامیابی کے لئے دعا کی ہے جب کہ اس کی تکمیل کے بارے میں شبہات میں اضافہ ہورہا ہے۔ مہمند میں ایک عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدہ کی مکمل کامیابی کی امید کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں قیام امن سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی امن بحال ہوگا اور خوشحالی آئے گی۔

پاکستانی وزیر اعظم نے یہ امید افزا باتیں ایک ایسے وقت میں کی ہیں جبکہ آج کابل میں دو افراد نے بیک وقت ملک کے نئے صدر کے طور پر ’حلف ‘ لیا ۔ یعنی صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے اپنے اپنے طور پر افغانستان کا نیا صدر ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ چند ہفتے قبل افغان الیکشن کمیشن نے معمولی اکثریت سے اشرف غنی کی کامیابی کا اعلان کیا تھا لیکن عبداللہ عبداللہ نے ان نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ امریکی سفارت کاروں نے زلمے خلیل زاد کی قیادت میں حلف برداری کی تقریب ملتوی کروانے یا اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے بارے میں معاہدہ کروانے کی کوشش کی تھی۔ ابتدائی طور پر اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ شاید دونوں لیڈر کسی معاہدہ پر متفق ہوجائیں لیکن سہ پہر کو کابل کے ایوان صدر میں اشرف غنی نے مزید  پانچ برس کے لئے ملک کے صدر کا حلف لیا۔ اس سے دس منٹ بعد عبداللہ عبداللہ نے سپیدار محل میں افغانستا ن کے صدر کا حلف اٹھا لیا۔

اشرف غنی کی تقریب حلف برداری کے دوران کابل پر چار راکٹ پھینکے گئے جن میں سے ایک صدارتی محل کے قریب سیرینا ہوٹل کی دیوار سے ٹکرایا۔ اس دھماکہ کی وجہ سے صدارتی محل میں تقریب کو تھوڑی دیر کے لئے روکناپڑا ۔ تاہم اشرف غنی نے پھر سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہنی ہے، میرا سینہ افغان عوام پر قربان ہونے کے لیے حاضر ہے‘۔ جان قربان کرنے کا دعویٰ کرنے کے باوجود اشرف غنی کسی بھی طرح افغان حکومت کا سربراہ رہنا چاہتے ہیں۔ عہدے کا حلف اٹھاتے ہی انہوں نے طالبان کے اس مطالبے کو تسلیم کرنے کا اعلان بھی کیا کہ امریکہ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے مطابق ان کے پانچ ہزار قیدی افغان جیلوں سے رہا کردیے جائیں گے۔ اس سے پہلے اشرف غنی کا مؤقف رہا ہے کہ یہ معاملہ بین الافغان مذاکرات میں ہی طے ہوگا۔ اب انہوں نے اعلان کیا ہے کہ اس کا طریقہ کار طے ہوگیا ہے اور منگل کو اس بارے میں صدارتی حکم جاری کردیا جائے گا۔ صدر اشرف غنی نے اس اعلان سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ضرور ہموار کی ہے جو معاہدے کے مطابق 10 مارچ سے شروع ہونے والے تھے۔ البتہ یہ ابہام موجود ہے کہ طالبان جب کابل حکومت کو ناجائز قرار دے کر بین الافغان مذاکرات کی حامی بھرتے ہیں تو کیا وہ براہ راست افغانستان کی موجودہ حکومت سے مذاکرات پر راضی ہوگئے ہیں یا وہ بدستور مختلف افغان گروہوں کے درمیان بات چیت کو ہی بین الافغان مذاکرات کہہ رہے ہیں۔ اور حکومت سے کوئی معاملہ طے کرنے پر راضی نہیں ہیں۔

ابھی یہ پیچیدہ نکتہ اپنی جگہ پر موجود تھا کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی سیاسی چپقلش نے معاملہ مزید الجھا دیا ہے۔ امریکہ کی پوری کوشش ہوگی کہ ماضی کی طرح ان دونوں رہنماؤں کے درمیان مصالحت کا کوئی راستہ نکا ل کر طالبان کے ساتھ مذاکرات کو آگے بڑھایا جائے تاکہ ملک میں مکمل امن بحال ہوسکے اور امریکی افواج اپنے شیڈول کے مطابق وطن لوٹ سکیں۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان مصالحت کے باوجود طالبان اور مختلف افغان گروہوں کو افغانستان کے سیاسی نظام کے بارے میں کسی متفقہ فارمولے پر آمادہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ آج کابل میں دو افراد نے خود کو ملک کا صدر مقرر کرکے اس صورت حال کو پیچیدہ بھی کیا ہے اور طالبان کو سیاسی طور سے طاقت ور کرنے کا سبب بھی بنے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان تنازعہ جتنا طویل ہوگا ، افغانستان میں امن کا خواب اتنا ہی  دور ہوتا جائے گا۔

اس حوالے سے یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ آج کابل اور صدارتی محل کو راکٹوں سے نشانہ بنانے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ اس سے پہلے جمعہ کے روز ایک تقریب پر فائرنگ میں 32 افراد کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ اس تقریب میں عبدللہ عبداللہ کے علاوہ سابق صدر حامد کرزئی بھی موجود تھے۔ اس حملہ کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی تھی۔ داعش کے تواتر سے حملوں سے یہ واضح ہورہا ہے کہ یہ دہشت گرد گروہ بھی اب افغانستان کے مستقبل میں اپنا حصہ وصول کرنے کا اعلان کررہا ہے۔ 29 فروری کے معاہدہ کے تحت طالبان نے امریکہ کو یقین دلایا ہے کہ وہ القاعدہ، داعش اور دیگر کسی بھی عسکری گروہ کو افغانستان کی سرزمین امریکہ یا اس کے حلیف ملکوں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ البتہ حیرت انگیز طور پر جس طرح اس معاہدہ میں طالبان نے امریکہ اور اتحادی ممالک کی افواج پر حملے نہ کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے افغان سیکورٹی فورسز کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا ، اسی طرح ان کی طرف سے معاہدہ میں صرف یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ افغان سرزمین کو امریکی اور اس کے حلیفوں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس میں عسکری گروہوں کو ختم کرنے کی بات نہیں کی گئی۔ اس بارے میں صرف قیاس آرائیاں ہی کی جاسکتی ہیں کہ افغان طالبان مستقبل میں داعش، القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان جیسے گروہوں  کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتے ہیں ۔ ان گروہوں نے اگر نئے مرحلے میں کابل کی طرف طالبان کی پیش رفت میں مزاحمت نہ کی بلکہ طالبان کے حکومت قائم کرنے کے منصوبہ میں معاونت کی تو ممکن ہے ان گروہوں کو طالبان مستقبل میں اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کریں۔ اس صورت میں افغان سرزمین دہشت گرد گروہوں کا مسلسل مسکن رہے گی اور پاکستانی طالبان بھی کسی حد تک محفوظ رہ کر ایک بار پھر پاکستان کے خلاف سرگرم ہوسکتے ہیں۔

افغان امن معاہدہ کے فریق یعنی امریکہ اور طالبان کے علاوہ اس معاہدہ کے سہولت کار پاکستان کی پوزیشنوں میں صرف بیانات کی حد تک اتفاق رائے ہے۔ ان تینوں کے ارادوں اور اہداف کا تعین کرنا فی الوقت ممکن نہیں ۔ تاہم دستیاب اشاروں کی بنیاد پر سمجھا جاسکتا ہے کہ امریکہ، افغانستان سے فوجیں نکالنا چاہتا ہے ۔ اس کے لئے قیام امن کا مقصد اس کے ساتھ ہی پورا ہوجائے گا۔ واشنگٹن میں دو روز پہلے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعتراف کیا تھا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوسکتی ہے۔ گویا امریکہ کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا کہ اگر طالبان امریکہ کو فوجیں نکالنے اور باعزت طریقے سے’ افغان جنگ‘ ختم کرنے کا موقع فراہم کردیتے ہیں تو طالبان کس طرح کابل پر قبضہ کرتے ہیں اور ملک میں کیسا نظام نافذ کیا جاتا ہے۔

طالبان نے ہفتہ کو جاری کئے گئے ایک بیان میں اپنا ہدف دوٹوک الفاظ میں بیان کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’امریکہ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہوگیا ہے۔ یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک قابض افواج کی مدد کرنے والے بدعنوان عناصر کو ٹھکانے نہ لگا دیا جائے جو اب مستقبل کی حکومت کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ جب تک غیر ملکی قبضہ کو جڑوں سے ختم نہ کردیا جائے اور اسلامی حکومت قائم نہ ہوجائے، جہاد جاری رہے گا‘۔  بیان میں طالبان نے واضح کیا ہے کہ طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ ہی ملک کے ’قانونی حکمران‘ ہیں۔ ان کا مذہبی فرض ہے کہ قابض غیر ملکی افواج کی واپسی کے بعد وہ افغانستان میں اسلامی حکومت قائم کریں۔ اس بیان کے مطابق قابض غیر ملکی افواج کے خلاف انیس سالہ جہاد ایک ’قانونی امیر ‘کی سربراہی میں لڑی گئی تھی۔ ان کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا ملک کا حکمران نہیں ہوسکتا۔ قابض افواج کے انخلا کے معاہدہ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ طالبان کی حکومت ختم ہوچکی ہے۔

طالبان نے دراصل افغانستان کے موجودہ سیاسی انتظام کو مسترد کیا ہے۔ یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ امریکہ کی براہ راست فوجی امداد اور سفارتی پشت پناہی کے بغیر کابل کی حکومت یا افغان سیکورٹی فورسز طالبان کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ امریکی افواج کے انخلا کے بعد اس امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ افغان سیکورٹی فورسز میں بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ دیکھنے میں آئے اور افغان فوجی، طالبان کے ساتھ مل جانے میں ہی عافیت سمجھیں۔ یہ صورت حال افغانستان میں طویل المدت خانہ جنگی کا پیش خیمہ ہوگی۔ امریکہ نے طالبان کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے افغان عوام کے بنیادی حقوق، موجودہ آئینی انتظام یا عسکری گروہوں کے باہمی تعلقات کے بارے میں کوئی ضمانت حاصل نہیں کی اور نہ ہی وہ خود کوئی ضمانت فراہم کرنے پر تیار ہوگا کیوں کہ صدر ٹرمپ کا واحد مقصد ایک طویل اور مہنگی جنگ کو ختم کرنا ہے۔

پاکستان نے ابھی تک افغانستان کے بارے میں اپنی پوزیشن واضح نہیں کی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ ہفتے کے دوران سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے  امن معاہدہ کا کریڈٹ لینے کے علاوہ افغانستان میں بھارت کے عسکری کردار کو قبول نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ پاکستان یہ مقصد کس طرح حاصل کرے گا۔ اسلام آباد اگر افغانستان میں طالبان حکومت کو اپنے مفاد میں سمجھ رہا ہے اور اسے امید ہے کہ طالبان برسر اقتدار آکر افغانستان میں اس کے سیاسی عزائم کی تکمیل کا سبب بنیں گے تو یہ پاکستان کی سنگین سفارتی غلطی ہوگی۔ افغانستان میں خانہ جنگی ہو یا طالبان کی مکمل حکمرانی قائم ہوجائے ، دونوں صورتوں میں پاکستان کو سنگین سیاسی، اقتصادی اور سفارتی مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔

 حیرت ہے وزیر اعظم عمران خان ایک نامکمل معاہدہ کی بنیاد پر افغانستان میں امن کی امید تو لگائے بیٹھے ہیں لیکن یہ بتانے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ امریکی افواج کے انخلا سے پیدا ہونے والی صورت حال میں پاکستان کی حکمت عملی کیا ہوگی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments