عقل والوں کے لیے نشانیاں؟


\"jam-waseem\"اکثر سوچتا ہوں کہ اس ملک میں ترقی و خوشحالی کا سورج کیوں طلوع نہیں ہوتا۔ قدرتی وسائل سے مالامال اس ملک میں  آخر کس چیز کی کمی رہ گئی ہے کہ ہم عالمی سطح پر تنہائی کا شکارہو رہے ہیں۔ آخر ایسی کونسی وجوہات ہیں کہ ہمیں دنیا کو بار بار یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ ہم امن پسند قوم ہیں۔ ہم انصاف کے تقاضے پورے کر رہے ہیں۔ لوگوں کو باعزت روزگار فراہم کیا جا رہا ہے۔ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ہسپتالوں میں جدید طبی سہولیات موجود ہیں۔ لیکن دنیا ہے کہ انہیں صرف ہم میں خامیاں ہی خامیاں نظر آ رہی ہیں اورہمارے دعووں میں عقل والوں کے لیے جو نشانیاں ہیں، عقل کے ان اندھوں کو دکھائی نہیں دیتیں۔ وہ باربارکہتے ہیں کہ یہ ملک غیرمحفوظ ہے اورانہیں ہم چور نظر آتے ہیں۔ ہم جتنی بھی کوشش کر لیں دنیا پھر بھی خوش نہیں ہوتی۔ ہم نے ان کی ایک خبر پر بول اور ایگزیکٹ کے خلاف کارروائی کی، ہم نے سینکڑوں افراد کو بے روزگار کیا لیکن یہ پھر بھی خوش نہیں ہوئے۔ پانامہ پیپرز کی تو بات نہ کریں۔ اس سے سی پیک اور جمہوریت دونوں کو خطرہ ہے۔ جمہوریت کوخطرہ تو ہم پھربھی برداشت کرلیں گے لیکن سی پیک ہماری سلامتی کامعاملہ ہے۔ ہم سلامت رہیں نہ رہیں، اپنی سلامتی پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔

سچ کڑوا ضرور ہوتا ہے لیکن ملکی ترقی اسی وقت ممکن ہے اگر ہم سچ کے مراحل طے کریں۔ اور سچ یہ ہے کہ ہم عوام ”نااہل“ اور” مفاد پرست “ہیں۔ ہم نے اشرافیہ بھی ایسی ہی نااہل مسلط کر رکھی ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو ایوارڈ ملا کہ انہوں نے ریڈیو پاکستان اور موٹروے جیسی سستی چیزوں کو گرو ی رکھ کر قرضے حاصل کر لیے۔ ان کا بہت شکریہ کہ ایٹم بم جیسا غیرضروری ہتھیار گروی نہ رکھا۔ اگر تعلیمی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو تلواروں اور جذبہ ایمانی پر پختہ یقین والی اس تعلیم میں ہم نے سائنس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہر قسم کی دریافت ہم کر چکے ہیں بس ذرا قبل از وقت بتاتے ہمیں شرم سی آتی ہے۔ خبردار اگر تعلیمی نظام اور تاریخ کو درست کرنے کی بات کی۔ سچ کا ایک مرحلہ یہ بھی ہے کہ ہم عوام کو اب مل کر سو چنا ہے کہ ہمیں یہ ملک چاہیے بھی یا نہیں، ہم نے اپنے عرب آقاﺅں کو خوش کرنے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے۔ ہم نے ا سرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کر رکھے ہیں اورہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عرب ممالک ہمیں گھاس نہیں ڈالتے۔ جناب ہم تو اسلام کے ٹھیکیدارضرور بنیں گے بے شک سعودی عرب کے اسرائیل سے گہرے تعلقات ہیں۔ ان کے لیے تو ہمارا ملک اور ہماری خدمات ہر وقت حاضر ہیں خواہ وہاں ہمارے مزدور بھائیوں کے سا تھ انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے۔ عرب امارات اور شرم الشیخ (مصر)میں دنیا بھرسے لوگ سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں اور انہوں نے ایمان شکنی کی حد تک مختصر لباس تن زیب کیا ہوتا ہے مگر وہاں اسلام کو اور امت مسلمہ کو کوئی خطرہ نہیں۔ دوبئی کے بھارت کے ساتھ بہت گہرے تعلقات ہیں۔ اسلامی ملک ہونے کی حیثیت سے اس نے مسئلہ کشمیر پربھارت سے سفارتی تعلقات ختم نہیں کیے اور اب تو سنا ہے دوئبی میں مندر تعمیر ہونے جا رہا ہے اوراس کے لیے زمین بھی وقف ہو چکی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی انتہائی کمزور ہے اور ہماری اشرافیہ کبھی ہمیں مذہب کے نام پر تو کبھی کشمیر کے نام پر اور اب اکثر جمہوریت کے نام پر مسلسل بیوقوف بنا رہی ہے۔ میٹرو اور اورنج لائن جیسے منصوبوں سے ہم غریبوں کا پیٹ بھرا جا رہا ہے۔ یو این ڈی پی پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹرنے تو کہہ دیا کہ اس ملک کی اشرافیہ یہ ملک بچانا ہی نہیں چاہتی۔ ہم نے شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ دنیا ہم سے خوش نہیں۔ اورآپ کو اب یہ بھی بتا دیں کہ اس تحریر میں عقل والوں کے لیے ایک نشانی بھی موجود نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments