سعودی عرب: محمد بن سلمان ایک بار پھر اہم شہزادوں کے خلاف کیوں سرگرم ہیں؟


سابق ولی عہد و وزیرِ داخلہ محمد بن نائف اور موجودہ ولی عہد محمد بن سلمان

سابق ولی عہد و وزیرِ داخلہ محمد بن نائف اور موجودہ ولی عہد محمد بن سلمان

سعودی عرب کے حقیقی فرمانروا ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم پر سینیئر شہزادوں کی گرفتاریوں سے چہ مگوئیوں کی ایک نئی لہر چل نکلی ہے کہ آخر انھیں اچانک کیوں ہٹایا گیا ہے۔

محمد بن سلمان جنھیں عرف عام میں ایم بی ایس کہا جاتا ہے ان کے لیے تنازعات کوئی نئی چیز نہیں۔ سنہ 2015 میں جب سے ان کی تابناک ترقی کی شروعات ہوئی، تب سے انھوں نے سیاسی نظام میں سب سے اوپر پہنچنے کے لیے بے رحمانہ عزائم کا مظاہرہ کیا ہے، اور اس کے لیے انھوں نے اپنے ہر طرح کے مخالفین اور نقادوں کو خاموش کروایا ہے۔

اس بار ایم بی ایس کے عزائم کا شکار سعودی شاہی خاندان کے اراکین ہوئے ہیں جن میں ان کے ایک چچا اور سابق وزیر داخلہ شہزادہ احمد بن عبد العزیز، اور ایک کزن شہزادہ محمد بن نائف (ایم بی این) شامل ہیں جو کہ سابق ولی عہد اور وزیر داخلہ رہ چکے ہیں۔

انھیں حراست میں لیا گیا ہے اور ان سے غداری کے متعلق تفتیش ہو رہی ہے ہر چند کہ ان پر کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا گیا ہے۔

ان دونوں کے پاس اب زیادہ قوت اور اختیار بھی نہیں ہے۔ سنہ 2017 میں شاہ سلمان نے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کا سعودی تخت سنبھالنے کے لیے راستہ صاف کرنے کی غرض سے محمد بن نائف کو ان کے عہدے سے بے توقیر انداز میں بے دخل کردیا تھا۔

شاہی خاندان

شاہ سلمان کے ساتھ شہزادہ نائف اور شہزادہ محمد بن سلمان

دوسری جانب شہزادہ احمد گذشتہ سال اپنے ملک واپس آنے سے قبل تک لندن میں اپنا وقت گزارنے اور پیسہ خرچ کرنے کو فوقیت دے رہے تھے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایم بی ایس ایک بار پھر اپنے حریفوں کے خلاف کیوں سرگرم ہیں اور وہ بھی ایسے میں جب وہ پہلے سے ہی کمزور ہیں اور اقتدار پر ان کی گرفت کو چیلنج کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔

اس کا حقیقی جواب تو صرف وہی جانتے ہیں، کیونکہ سعودی عرب جیسے ملک میں سرکاری ذرائع سے مکمل سچائی تک رسائی حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔

لیکن ایک بات طے ہے کہ نوجوان شہزادے کو یہ بات پتہ ہے کہ ان کے اس عمل کے لیے انھیں نہ تو بین الاقوامی سطح پر اور نہ ہی ملکی سطح پر کوئی قیمت چکانی پڑے گی۔

افواہیں اور تجسس

سنہ 2018 میں استنبول میں سعودی قونصل خانے میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد بین الاقوامی سطح پر بدنامی اور تنقید سے نکل آنے کے بعد ایم بی ایس کے لیے خوف کی کوئی بات باقی نہیں رہی۔

ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس نے ایم بی ایس کی انتہائی حد تک پشت پناہی کی۔ برطانیہ اور فرانس نے نیم دلانہ تنقید کی مگر ریاض سے ان کی تجارت اب تک جاری ہے، جبکہ روس اور چین کو اس کی فکر ہونی بھی نہیں تھی۔

شہزادہ محمد بن سلمان اور صدر ٹرمپ

شہزادہ محمد بن سلمان اور صدر ٹرمپ

اور اس طرح ایم بی ایس اپنی خوشی سے تقریباً جو چاہیں کر سکتے ہیں، اقتدار کے لیے اپنی راہ میں حائل ہونے والے شعبوں کو ایک ایک کر کے الگ تھلگ کرتے چلے گئے، چاہے وہ علما ہوں، حریف رشتہ دار ہوں، تاجر ہوں یا ملکی پریشر گروپ ہوں اور حکومت کی پوری طاقت سے انھیں ایک ایک کر کے کچلتے چلے گئے۔

یہ بنیادی طور پر آمرانہ سیاست ہے لیکن 21ویں صدی کے انداز میں۔ شہزادوں کو سنہ 2017 میں ریاض کے رٹز کارلٹن جیسے آرام دہ ماحول میں رکھا گيا ہے اور محمد بن سلمان منکسر نظر آنے کے لیے احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔

اسی طرح انھوں نے اپنے چچازاد بھائی محمد بن نائف کو ولی عہدی سے ہٹائے جانے کے وقت بھی بظاہر عاجزی کے ساتھ ان کا ہاتھ چوما تھا۔

محمد بن سلمان کی ترقی محمد بن نائف کی قیمت پر ہونا ستم ظریفی سے خالی نہیں ہے۔ سنہ 2017 کی ابتدا تک مغربی ممالک کے زیادہ تر پالیسی ساز محمد بن نائف کے کیمپ میں تھے اور ساری دنیا کے سکیورٹی اداروں میں ان پر بھروسہ اور انھیں پسند کیا جاتا تھا۔ جس کسی کی بھی ان سے ملاقات ہوئی وہ انھیں مستقبل کے لائق بادشاہ کے طور پر دیکھتے رہے۔

لیکن محمد بن نائف ملکی قومی سلامتی کا انتظام سنبھالنے کے جتنے اہل تھے، اتنے ہی وہ محمد بن سلمان کے عزائم اور مکاری کا مقابلہ کرنے میں ناکام تھے۔

زیر حراست شہزادوں کو سنہ 2017 میں ریاض کے رٹز کارلٹن ہوٹل میں رکھا گیا تھا

زیر حراست شہزادوں کو سنہ 2017 میں ریاض کے رٹز کارلٹن ہوٹل میں رکھا گیا تھا

سعودی شاہی خاندان میں اقتدار کے کھیل پر ہمیشہ چہ مگوئیاں چلتی رہتی ہیں اور افواہیں گرم تھیں کہ شاہ سلمان وفات کے قریب ہیں یا محمد بن سلمان نے تختہ الٹنے کی سازش کو محسوس کر لیا اور فوراً عمل کرتے ہوئے اسے ناکام بنا دیا۔

ان دونوں دعووں میں کوئی صداقت نہیں کیونکہ اس میں سب سے واضح جواب نظر انداز ہوتا نظر آتا ہے، یعنی کہ یہ شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے باقی شاہی خاندان کے لیے یہ پیغام تھا کہ اپنی حد میں رہیں۔

یہ نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے کیا گیا اقدام تھا جس کا مقصد وفاداری حاصل کرنا اور سب کو یہ باور کروانا تھا کہ باس کون ہے۔

اور کسی غلط فہمی میں نہ رہیں کہ بلا شبہ محمد بن سلمان ہی سعودی عرب کے باس ہیں۔

مائیکل سٹیفینز مشرقِ وسطیٰ پر کام کرنے والے تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔ انھیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp