غیرت کے نام پر قتل کا خدشہ: کوہستان کی لڑکی کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم


پشاور ہائی کورٹ

BBC
</figure>&#1662;&#1575;&#1705;&#1587;&#1578;&#1575;&#1606; &#1705;&#1746; &#1589;&#1608;&#1576;&#1746; &#1582;&#1740;&#1576;&#1585; &#1662;&#1582;&#1578;&#1608;&#1606;&#1582;&#1608;&#1575; &#1605;&#1740;&#1722; &#1593;&#1583;&#1575;&#1604;&#1578; &#1606;&#1746; &#1581;&#1705;&#1575;&#1605; &#1705;&#1608; &#1590;&#1604;&#1593; &#1705;&#1608;&#1729;&#1587;&#1578;&#1575;&#1606; &#1587;&#1746; &#1578;&#1593;&#1604;&#1602; &#1585;&#1705;&#1726;&#1606;&#1746; &#1608;&#1575;&#1604;&#1740; &#1575;&#1587; &#1604;&#1681;&#1705;&#1740; &#1705;&#1608; &#1576;&#1583;&#1726; &#1705;&#1608; &#1662;&#1740;&#1588; &#1705;&#1585;&#1606;&#1746; &#1705;&#1575; &#1581;&#1705;&#1605; &#1583;&#1740;&#1575; &#1729;&#1746; &#1580;&#1587; &#1705;&#1746; &#1588;&#1608;&#1729;&#1585; &#1606;&#1746; &#1582;&#1583;&#1588;&#1729; &#1592;&#1575;&#1729;&#1585; &#1705;&#1740;&#1575; &#1578;&#1726;&#1575; &#1705;&#1729; &#1575;&#1587;&#1746; &#1594;&#1740;&#1585;&#1578; &#1705;&#1746; &#1606;&#1575;&#1605; &#1662;&#1585; &#1602;&#1578;&#1604; &#1705;&#1740;&#1575; &#1580;&#1575; &#1587;&#1705;&#1578;&#1575; &#1729;&#1746;&#1748;

ضلع کوہستان کے علاقے جل کوٹ کے رہائشی محمد ریاض نے پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ آباد بینچ میں دائر کردہ درخواست میں کہا تھا کہ ان کی منکوحہ یاسلینہ کے خاندان والے اسے غیرت کے نام پر قتل کر سکتے ہیں کیونکہ ان سے ناجائز تعلقات کے شبہے میں ایک لڑکے کو پہلے ہی قتل کیا جا چکا ہے۔

درخواست گزار کے وکیل اسجد عباسی کے مطابق کہ منگل کو سماعت کے بعد عدالت نے کوہستان کے ضلعی پولیس افسر کو حکم دیا ہے کہ مذکورہ خاتون کو بدھ 11 مارچ کو عدالت میں پیش کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیے

غیرت کے نام پر قتل یا خودکشیاں ؟

زیادتی اور پھر طالب علم کی خود کشی، ملزمان کو سزا

غیرت کے نام پر قتل: ’آواز اٹھائی تو مار دیے جاؤ گے‘

جل کوٹ کے رہائشی محمد ریاض کا کہنا ہے کہ ان کی منکوحہ یاسلینہ بی بی کو چند ماہ سے ان کے والدین اور بھائیوں نے حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے اور خدشہ ہے کہ انھیں غیرت کے نام پر قتل کر دیا جائے گا۔

درخواست گزار کے مطابق تقریباً ایک سال قبل یاسلینہ بی بی پر سازش کے تحت ناجائز تعلقات کا الزام لگایا گیا تھا اور مقامی جرگے نے ان کی منکوحہ کو قصوروار ٹھہرایا تھا۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس الزام کے بعد ایک کم عمر طالبعلم رحم شاہ کو یاسلینہ بی بی سے مبینہ طور پر تعلقات رکھنے پر جرگے کے فیصلے کے تحت قتل بھی کیا گیا جس کا مقدمہ ریاست کی مدعیت میں درج ہے۔

محمد ریاض نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ ان کی منکوحہ کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے اور انھیں عدالت میں پیش کرنے کے احکامات دیے جائیں۔

درخواست گزار محمد ریاض کے وکیل محمد اسجد پرویز عباسی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس خدشے سے متعلق عدالت کے سامنے مزید شواہد پیش کریں گے کہ کیسے ایک انسانی جان خطرے میں ہے۔

کوہستان

BBC
کوہستان میں ماضی میں بھی غیرت کے نام پر قتل کے واقعات پیش آتے رہے ہیں

غیرت کے نام پر قتل‘

اس مقدمے کی تفصیلات بتاتے ہوئے محمد ریاض کے بھائی عبداللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے بھائی کی منکوحہ اور قتل ہونے والے لڑکے رحم شاہ پر جھوٹا الزام عائد کیا گیا تھا۔

محمد ریاض نے اپنی درخواست میں لکھا کہ گذشتہ سال رمضان میں ان کی منکوحہ اپنی اس سہیلی کے گھر گئیں جو کہ غیرت کے نام پر قتل ہونے والے رحم شاہ کی بہن تھیں۔ ان کے مطابق اس واقعے کے کچھ عرصے بعد یاسلینہ اور رحم شاہ پر ناجائز تعلقات کے الزامات عائد کر دیے گئے۔

درخواست گزار کے مطابق ان الزامات کے بعد محمد ریاض کی منکوحہ کے بھائی عبدالوہاب نے آٹھویں جماعت کے طالبعلم 14 سالہ رحم شاہ کو اس وقت قتل کر دیا جب وہ گاؤں کی مسجد میں وضو کر رہے تھے۔

درخواست گزار کے مطابق رحم شاہ کے بعد یاسلینہ کو بھی قتل کیا جانا تھا مگر فوری طور پر ایسا ممکن نہ ہو سکا کیونکہ پولیس حرکت میں آ گئی تھی اور یاسلینہ کے والدین اور بھائی اسے اپنے ساتھ بالائی علاقوں کی طرف لے کر چلے گئے۔

عبداللہ کے مطابق ’ہم ان سے ساتھ رابطے میں تھے کہ لڑکی کا نکاح ہو چکا ہے، اب اسے ہمارے حوالے کیا جائے۔ ہم انھیں یہ باور کرانے کی کوشش میں ہیں کہ رحم شاہ کا قتل بھی غلط ہوا ہے اور اگر یاسلینہ بی بی کو قتل کیا گیا تو وہ بھی ناجائز ہو گا جس پر وہ ہمیں تسلی دیتے رہے کہ لڑکی کو جلد ہمارے حوالے کردیں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔‘

عبداللہ کے مطابق انھوں نے عدالت کا رخ کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب انھیں یہ اطلاع ملی کہ اب لڑکی کو بھی قتل کیا جا سکتا ہے۔

عدالت کا رخ کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں

عبداللہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’جب سے ہم لوگوں نے قانون کا سہارا لیا اور عدالت کا رخ کیا ہے، اس کے بعد سے ہمیں بھی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ علاقے میں ہمارے خلاف جرگے ہو رہے ہیں وہاں پر ایک طرف کا موقف رکھا جارہا ہے کہ ہم کوہستان کے غیرت کے قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے اپنے اور اپنے خاندان کے لیے حکومت اور پولیس سے تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے مطابق ’لوگوں کو اشتعال دلایا جارہا ہے، جس سے ہمارے خاندان کے لیے صورتحال باعث تشویش ہو چکی ہے۔‘

رحم

BBC
رحم شاہ کو دس ماہ قبل کوہستان میں غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا تھا

پولیس کا موقف کیا ہے؟

کوہستان پولیس کے ضلعی افسر راجہ عبدالصبور کا کہنا ہے کہ ’ہماری اطلاعات کے مطابق لڑکی ابھی زندہ ہے۔‘ تاہم اگر لڑکی درخواست گزار کی منکوحہ ہے اور اسے گھر میں بسایا نہیں جا رہا تو یہ معاملہ پولیس کے دائرہ کار میں نہیں آتا ہے اور اس معاملے میں اگر کوئی پیچیدگی ہے تو عدالت ہی اس پر بہتر فیصلہ کر سکتی ہے۔

پولیس کے مطابق گذشتہ سال جب یہ واقعہ پیش آیا تھا تو اس وقت ہی لڑکی کی حفاظت کے اقدامات کرلیے گئے تھے۔

حکام کا کہنا ہے کہ لڑکی کے لواحقین کو بھی طلب کر کے اس کی حفاظت کے لیے ضمانتی بانڈ بھی حاصل کیے گئے تھے جبکہ رحم شاہ کے قاتل عبدالوہاب کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ اس واقعے کے بعد رحم شاہ کے لواحقین کی جانب سے کوئی مقدمہ درج نہیں کروایا گیا تھا جس پر ریاست خود مدعی بنی اور پولیس نے لواحقین سے بیانات لے کر مقدمہ درج کیا تھا۔

راجہ عبدالصبور نے بی بی سی کو بتایا کہ جب پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی تھی تو مقتول کے والد عبدالحکیم نے پولیس کو بتایا کہ ان کے بیٹے کو عبدالوہاب نے فائرنگ کر کے قتل کیا ہے تاہم انھیں دشمنی کی وجہ کا علم نہیں ہے۔

چور قرار دینے کا مطلب موت کی سزا

انسانی حقوق کے کارکن اور کوہستان میں غیرت کے نام پر قتل کے معاملات پر نظر رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن تیمور کمال نے بی بی سی کو بتایا کہ علاقے میں غیرت کے رواجوں کے مطابق لڑکے کے قتل کے بعد اب لڑکی کو قتل کیا جانا ہے اور یہ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ لڑکی کس حال میں ہو گی۔

تیمور کمال کا کہنا تھا کہ ’کوہستان میں غیرت کے نام پر قتل و غارت کے معاملے پر لڑکی والوں کی طرف سے یہ کہہ دینا کافی ہے کہ ان کی لڑکی کسی لڑکے ساتھ چور ہو چکی ہے۔

’چور قرار دینے کا مطلب موت کی سزا ہوتا ہے اوراس کے ساتھ ہی لڑکی کے خاندان کو لڑکے اور لڑکی دونوں کا قتل کرنے کا لائسنس مل جاتا ہے جس میں پہلے لڑکے اور پھر لڑکی کو قتل کیا جاتا ہے کیونکہ خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں لڑکا فرار نہ ہو جائے۔‘

افضل کوہستانی

BBC
کوہستان ویڈیو سکینڈل کو منظر عام پر لانے والے افضل کوہستانی اور ان کے تین بھائیوں کو قتل کیا جا چکا ہے

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب کوہستان میں غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں تو اس کا فیصلہ جرگے میں ہوتا ہے اور کوئی بھی پولیس وغیرہ میں مقدمہ نہیں کرتا کیونکہ جرگہ قتل کرنے کے فیصلے کی پشت پر کھڑا ہوتا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکن اور ممتاز قانون دان امان ایوب ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’میرا تجربہ ہے کہ کوہستان میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والے واقعات میں استغاثہ کے پاس کوئی بھی شہادت، گواہی وغیرہ موجود نہیں ہوتی اور نہ ہی متاثرہ خاندان اس میں کوئی دلچسپی لیتے ہیں جس وجہ سے عموماً ملزم چند ہی تاریخوں میں بری ہو جاتے ہیں۔‘

تیمور کمال اور امان ایوب ایڈووکیٹ کے مطابق گذشتہ سال کوہستان میں غیرت کے نام پر کم از کم چار پانچ واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں مگر غیرت کے نام پر قتل ہونے والے واقعات کی بڑی تعداد ایسی ہے جو کہ کہیں بھی رپورٹ نہیں ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ کوہستان میں غیرت کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔

صرف اِکا دُکا واقعات ہی منظر عام پر آتے ہیں جس میں اگر کوئی واقعہ پولیس کے علم میں آ جائے تو وہ ایف آئی آر درج کر لیتے ہیں یا میڈیا کے اندر کوئی کوریج ہو تو پولیس اس پر کارروائی کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کوہستان میں روایتی جرگہ نظام اور اس کی جڑیں بہت زیادہ مضبوط ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوہستان ویڈیو سکینڈل کو منظر عام پر لانے والے افضل کوہستانی اور ان کے تین بھائیوں کو قتل کیا جا چکا ہے جبکہ مجموعی طور پر اس واقعے میں نو لوگ قتل ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp