سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی کم از کم تنخواہ 19 ہزار، نجی میں پانچ ہزار بھی وقت پر نہیں ملتے


آزاد جموں وکشمیر میں نجی تعلیمی اداروں میں تعینات پچاس ہزار سے زائد اساتذہ حکومت کے مقرر کردہ معیار سے کئی گنا کم تنخواہوں پر پڑھا رہے ہیں جبکہ فیسوں کی وصولی کا کوئی معیار مقرر نہ ہونے کی وجہ سے سکول بھاری فیسیں وصول کرتے ہیں۔

معلمہ تسلیم اختر مظفرآباد کے جس نجی سکول میں گذشتہ چھ سال سے پڑھا رہی ہیں وہاں ان کو آج بھی ماہانہ پانچ ہزارروپے تنخواہ ملتی ہے۔ اس سکول کی کئی دوسری استانیوں کا معاوضہ تسلیم اختر کی تنخواہ کا نصف یا اس سے کچھ ہی زیادہ ہے۔ ان کے بقول: ’اگر تنخواہ بڑھانے کی بات کریں تو سکول مالکان کہتے ہیں اس تنخواہ میں نہیں پڑھا سکتیں تو نوکری چھوڑ دیں۔ ‘

تین بچوں کی ماں تسلیم اختر کہتی ہیں کہ اگر وہ آج یہ نوکری چھوڑیں گی تو کل کوئی اور یہاں آ جائے گا کیونکہ پڑھے لکھے بے روزگاروں کی کوئی کمی نہیں اور سکول مالکان اسی وجہ سے ملازمین کا کھل کر استحصال کرتے ہیں۔

اس سے قبل تسلیم اختر جس سکول میں پڑھاتی تھیں وہاں انہیں ماہانہ دو ہزار روپے تنخواہ ملتی تھی اور ایک دن اچانک بغیر کسی نوٹس کے انہیں ملازمت سے نکال دیا گیا۔ اور وجہ، ان کے بقول، یہ تھی کہ سکول مالک کی بیٹی کالج سے فارغ ہو کر وہاں پڑھانے آ گئی۔ تسلیم اختر اور ان کے جیسی کئی استانیوں کو نجی سکولوں کے مالکان سے شکائت ہے کہ ’ایک تو تنخواہ دیتے ہی بہت کم ہیں اور وہ بھی بروقت نہیں ملتی۔ ‘

محکمہ تعلیم کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق آزاد جموں و کشمیر میں 1800 نجی سکولز جبکہ 430 کالجز رجسٹرڈ ہیں۔ 1800 سکولوں میں سے 11 ہائر سیکنڈری سکول، 998 ہائی سکول جبکہ 791 پرائمری اور مڈل سکول قائم ہیں تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ نجی شعبہ میں قائم سکولوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔

آزاد جموں وکشمیرحکومت نے نجی تعلیمی اداروں کی مانیٹرنگ کے لیے اگرچہ پرائیویٹ سکولز رجسٹریشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے نام سے محکمہ تعلیم کا ایک پورا شعبہ کام کر رہا ہے تاہم عملاً اس شعبہ کا کردار تعلیمی اداروں کو رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ جاری کرنے تک محدود ہے۔

بظاہر یوں لگتا ہے کہ فیسوں کے تعین اور وصولی، نصاب، اساتذہ کی تعیناتی، قابلیت کی جانچ اور دیگر امور میں حکومت کی پالیسی کا ان تعلیمی اداروں پر عملاً کوئی اطلاق نہیں ہوتا۔ اسی لیے نجی تعلیمی ادارے اکثر حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے احکامات کو نہیں مانتے۔ اس کی ایک مثال حالیہ دنوں سامنے آئی جب نجی تعلیمی اداروں نے سردی کی چھٹیوں میں توسیع کے معاملے پر سرکاری احکامات ماننے سے انکار کر دیا۔ سردی کے شدت میں اضافے اور برف باری کے باعث حکام نے سکولوں کی چھٹیوں میں ایک ہفتے کی توسیع کی تو سخت ہدایات کے باوجود نجی سکول کھل گئے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے قبل بھی گرمیوں اور سردیوں کے موسم میں حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے چھٹیوں کے شیڈول کے برعکس نجی تعلیمی ادارے کھلے رہتے رہے۔

2007 میں بننے والے ’آزاد کشمیر پرائیویٹ ایجوکشنل انسٹی ٹیوشن ریگولیشن اینڈ پروموش ایکٹ‘ نامی قانون میں اگرچہ تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن اور ریگولیشن کے اکثر معاملات سے متعلق قانون سازی ہو چکی ہے مگر ان قوانین پر عملدرآمد کم ہی ہوتا ہے۔ حکومت کی جانب سے نجی تعلیمی اداروں کی مناسب نگرانی کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے یہ ادارے فیسوں اور نصاب کے تعین، امتحانات کے نظام اور اساتذہ کی تقرری سمیت کئی معاملات میں نہ صرف من مانی کرتے ہیں بلکہ کئی مرتبہ حکومت کے اعلانات اور فیصلوں کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہیں۔ پرائیویٹ سکولز رجسٹریشن اینڈ ریگولیشن اتھارٹی کے سربراہ اور محکمہ تعلیم کے سپیشل سیکرٹری خالد محمود مرزا نامعلوم وجوہات کی بناء پر اس موضوع پر بات کرنے سے کتراتے ہیں

پرائیویٹ سکولوں کی تنظیم ’آزاد جموں وکشمیر پرائیویٹ سکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن‘ ان احکامات اور قوانین کو یک طرفہ اقدام کے طور پر دیکھتی ہے۔ تنظیم کے عہدیداروں کے بقول حکومت فیصلے کرتے وقت ان سے مشاورت نہیں کرتی جبکہ محکمہ تعلیم کے حکام کے مطابق محکمہ کے پاس افرادی قوت کی قلت کی وجہ سے ان قوانین پر عملدرآمد میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

تنظیم کے سربراہ چودھری محمد اقبال کے مطابق نجی شعبہ میں قائم سکولوں اور کالجز کی تعداد پانچ ہزار تک ہے اور ان اداروں کے ساتھ کم از کم 50 ہزار اساتذہ اور انتظامی ملازمین منسلک ہیں جبکہ چھ لاکھ سے زائد طلبہ و طالبات نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ یہ اعداد و شمار محکمہ تعلیم کے جاری کردہ اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہیں۔

اعداد و شمار میں اس تفاوت کے بارے میں پرائیویٹ سکولز رجسٹریشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرمن خالد محمود مرزا کوئی واضح جواب نہیں دے رہے۔ تاہم محکمہ تعلیم کے ایک اور عہدیدار کے بقول کچھ ادارے محکمہ ہائیر ایجوکیشن کے پاس بطور کالج رجسٹرڈ ہیں اور ان کے تحت الگ الگ ہائی سکولز اور پرائمری سکول چل رہے ہیں۔ اس لیے وہ ہمارے اعداد و شمار میں شامل نہیں۔ تاہم نجی تعلیمی اداروں سے منسلک بعض افراد کا کہنا ہے کہ کئی سکولوں نے اپنی درجنوں شاخیں کھول رکھی ہیں جو محکمہ تعلیم کے پاس رجسٹرڈ ہی نہیں۔

کیا بغیر رجسٹریشن کے سکول چلانا غیر قانونی نہیں؟ اس سوال کے جواب میں محکمہ تعلیم کے عہدیدارکہتے ہیں کہ یہ واقعی غیر قانونی ہے اور ہم اس کی روک تھام کے لیے کام کر رہے ہیں مگر محکمہ کے پاس افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے ہم ان تمام اداروں تک نہیں پہنچ پا رہے۔

چودھری محمد اقبال کا دعویٰ ہے ان کی تنظیم بارہا حکومت کو یہ دعوت دے چکی ہے کہ وہ نجی تعلیمی اداروں کا اچانک معائینہ کریں۔ ’ہماری خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لیں اور پھر فیصلہ کریں۔ ہم تو کہتے ہیں کہ آئیں بیٹھ کرایک دوسرے کے تجربات سے سیکھیں اور ایسا نظام تیار کریں جس میں مانیٹرنگ اور ریگولیشن کے ذریعے اس شعبہ میں بہتری لائی جا سکے۔ تاہم حکومت کی جانب سے اکثر فیصلے یک طرفہ ہوتے ہیں۔ انہیں ماننے میں ہمارے لیے بھی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ ‘

آزاد جموں وکشمیر میں رائج قانون اور مروجہ تعلیمی پالیسی کے مطابق نجی شعبہ میں قائم تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تعیناتی کے لیے وہی معیار اپنایا جائے گا جو سرکاری سکولوں میں رائج ہے اور ان اساتذہ کو گورنمنٹ کے طے شدہ پے سکیل کے مطابق سرکاری سکولوں کے اساتذہ کے برابر تنخواہیں دینا ہوں گی۔ 2019 میں آزاد جموں وکشمیر کی حکومت نے مزدور کی کم از کم ماہانہ اجرت 17 ہزار روپے مقرر کی تھی تاہم نجی تعلیمی اداروں میں سے بہت کم تعلیمی ادارے اپنے سٹاف کو اس معیار کے مطابق تنخواہیں ادا کر رہے ہیں۔

معلمہ تسلیم اختر کے بقول سکولوں میں تعینات اکثر اساتذہ مقررہ تعلیمی میعار پر پورا نہیں اترتے اس لیے ادارے انہیں نہ تو پوری تنخواہیں ادا کرتے ہیں اور نہ ان کے ساتھ ملازمت کا کوئی معائدہ کیا جاتا ہے۔

حکومت کی تعلیمی پالیسی کے تحت سرکاری شعبہ میں ایلیمنٹری ٹیچر کی کم از کم تعلیمی قابلیت ایسوسی ایٹ ڈگری ان ایجوکیشن یا بی اے، بی ایس سی اور بی ایڈ مقرر ہے جبکہ پرائمری معلم کو تعیناتی کے بعد 19500 روپے تنخواہ دی جاتی ہے۔ جبکہ نجی شعبہ میں میٹرک پاس اساتذہ بھی پڑھا رہے ہیں۔

محکمہ تعلیم کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ رجسٹریشن کے وقت سکول مالکان جن اساتذہ کی تعلیمی اسناد رجسٹریشن اتھارٹی کے پاس جمع کرواتے ہیں ان میں سے کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جنہوں نے کبھی اس سکول کو دیکھا بھی نہیں ہوتا اور یہ بات رجسٹریشن اتھارٹی کے حکام بھی جانتے ہیں تاہم اس پر کبھی کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ ان کے بقول محکمہ تعلیم کے کئی ریٹائرڈ افسران نے نجی تعلیمی ادارے کھول رکھے ہیں اس لیے محکمہ ان کے خلاف کھل کو کئی کارروائی نہیں کر پاتا۔

چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے سکول مالکان پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں اور خاص طور پر خواتین اساتذہ کا استحصال کرتے ہیں۔ کالج اور یونیورسٹٰی کی کئی طالبات جز وقتی طور پر مختلف سکولوں میں پڑھاتی ہیں جہاں انہیں آج بھی دو سے تین ہزار روپے ماہانہ معاوضہ دیا جاتے جاتا ہے۔

کیا نجی تعلیمی ادارے اساتذہ اور ملازمین کے ساتھ ملازمت کاکوئی معائدہ کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں چودھری اقبال بتاتے ہیں کہ عام طور پر ایک سال کا معائدہ کیا جاتا ہے۔ مگر کئی اساتذہ سال کے درمیان میں ہی نوکری چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آزاد کشمیر میں کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں جو اپنے ملازمین کو سرکاری سکیل کے مطابق تنخواہیں پنشن یا دیگر الاونسز ادا کر سکے۔ ان کے بقول: ’کئی سکول تو ایسے ہیں کہ ان کی کل آمدن بھی ایک سرکاری معلم کی ماہانہ تنخواہ سے کم ہے ایسے میں وہ بھلا کیسے اتنی بھاری تنخواہیں ادا کر سکتے ہیں۔ ‘

نجی تعلیمی اداروں کے لیے حکومت کی جانب سے فیسوں کی وصولی کا بھی کوئی معیار مقرر نہیں اور وہ اپنی مرضی سے فیسیں وصول کرتے ہیں۔ ناظم اعلیٰ تعلیمات (کالجز) ڈاکٹر خواجہ عبدالرحمان کے بقول محکمہ ہائیر ایجوکیشن نجی کالجز کی رجسٹریشن اور مانیٹرنگ تو کرتا ہے البتہ ان کے لیے فیسیوں کے معیار کا تعین ہمارے دائرہ اخیتار میں نہیں۔ 2015 میں بننے والے قوانین میں اگرچہ حکومت نے فیسوں کی وصولی کی بالائی حد مقرر کرنے کے لیے اقدامات کیے تھے تاہم سکولوں کی ایک معروف چین اس معاملے کو عدالت لے گئی تھی اور یہ معاملہ کئی سالوں تک عدالت میں زیر کار رہا۔

حیرت انگیز طور پر محکمہ تعلیم کے پاس رجسٹرڈ ان سکولوں میں سے 90 فیصد سے زائد ایسے ہیں جنہوں نے کبھی ٹیکس رجسٹریشن نہیں کروائی اور نہ ہی کبھی گورنمنٹ کوئی ٹیکس ادا کیا ہے۔

پرائیویٹ سکولز رجسٹریشن اینڈ ریگولیشن اتھارٹی کے پاس فی الوقت ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ گذشتہ پانچ سالوں میں یہاں کتنے سکول رجسٹرڈ ہو اور وہ کن کن اضلاع میں ہیں۔ نہ ہی ایسی کوئی معلومات دستیاب ہیں کہ قانون کی خلاف ورزی یا حدود سے تجاوز پر آج تک کتنے سکولوں کے خلاف کاراوئی کی گئی۔ تاہم خالد محمود مرزا کے مطابق انہوں نے کچھ سکولوں کو وارننگ ضرور جاری کی ہے۔

بظاہرحکومت نے نجی سکولوں کی رجسٹریشن اور ریگولیشن کے لیے ایک ادارہ تو قائم کر دیا مگر اس کو فعال بنانے پر آج تک کسی نے توجہ نہیں دی۔ ان اداروں کی غیر فعالیت کا براہ راست فائدہ نجی سکولوں کے مالکان اٹھاتے ہیں اور اپنے سکولوں میں تعینات تسلیم اختر جیسی ہزاروں استانیوں کا معاشی استحصال کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments