کیا ٹی وی پر سوقیانہ زبان استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے؟


ریاست کے امن و استحکام میں صحافت کا کردار سیاست، حکمرانی اور بیوروکریسی سے کہیں زیادہ اہم ہے کیونکہ صحافت عوامی سوچ اور ردعمل کی صورتگر ہے۔ صحافت کے بغیر جمہوریت کا تصور بے معنی ہے۔

ترقی کی منازل طے کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے پرانے نظریات بھی جدت کی طرف جا رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے صحافت کو کاروبار سمجھا ہے تو کچھ لوگوں نے اسے جہاد سمجھا۔ یہاں کسی پہ تنقید کرنا مقصود نہی مدعا صرف اتنا ہے کہ جیسے اچھے برے لوگ ہر محکمے میں ہوتے ہیں ویسے ہی صحافت جیسے مقدس کاز کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

مارچ شروع ہوتے ہی الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ”عورت مارچ“ کا بادل اپنی گھن گرج کے ساتھ برسنا شروع ہو گیا۔ کوئی اس کے حق میں ہے اور کسی کو اس سے ختلاف ہے۔ میرے مطابق اختلاف کسی بھی معاشرے کے صحتمند ہونے کی نشانی ہے لیکن جب یہی اختلاف کسی کی تزلیل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے تب معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔

عورت مارچ سے متعلق ایک پروگرام میں نیو نیوز ماروی سرمد صاحبہ کے ساتھ ڈرامہ سیریل ”میرے ساتھ تم ہو“ کے لکھاری خلیل الرحمٰن قمر صاحب کو دعوتِ سخن دیتا ہے لیکن اس پروگرام میں معاشرتی آداب اور صحافت جیسے پیشے کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں۔ ماروی سرمد صاحبہ کی طرف سے لفظی گولہ باری کے بعد خلیل الرحمٰن قمر صاحبہ کی سوقیانہ زبان کے باعث پروگرام روکنا پڑتا ہے۔

معاملہ یہاں تک نہی رہا بلکہ اس واقعے نے صحافیوں کی عزت کو سرِ عام پامال کرنے کی داغ بیل ڈالی۔

اردو پوائنٹ کے نامور نمائندے جناب فرخ شہباز وڑائچ کل ایک پروگرام میں خلیل الرحمٰن قمر صاحب کے ساتھ بیٹھے حقائق کو منظرِ عام پہ لانے کی کوشش کرتے ہوئے پائے گا حالانکہ تمام بڑے میڈیا ہاؤسز بشمول جیو پاکستان نے خلیل الرحمٰن قمر سے ایک فلم اور کچھ ڈراموں کا کانٹریکٹ ختم کر دیا ہوا ہے۔ فرخ شہباز صاحب اس پابندی کے باوجود خلیل الرحمان قمر کے ساتھ ایک نشست رکھتے ہیں اور اپنے پروفیشل اور ٹھنڈے لہجے سے بات چیت کا آغاز کرتے ہیں لیکن خلیل الرحمٰن صاحب متکبرانہ لہجے کا استعمال کرتے ہوئے ایک بار صحافت اور صحافی کی عزت کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔ اور اب تک شرمندگی کا کوئی ردِ عمل ان کی طرف سے نہی آیا۔

صحافت اور صحافی جہاں کسی بھی معاشرے کی بقا کے لیے ضروری ہیں وہاں معاشرے کی برائیوں سے پردہ ہٹانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن آج چند ”بزنس مائنڈ سیٹ“ رکھنے والے صحافیوں اور لکھاریوں کی وجہ سے صحافت پہ وار ہو رہے ہیں۔

وڑائچ صاحب بلاشبہ ایک معتدل لب و لہجے کے مالک صحافی ہیں جن کے ساتھ اس قسم کا متکبرانہ رویہ کسی طور جسٹیفائی نہی ہوسکتا۔

انفرادی طور پہ ہم سب بگاڑ پیدا کر رہے ہیں اور اجتماعی طور پہ اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

عورت مارچ صحیح ہے یا غلط اس چیز سے قطع نظر کسی کو بھی نیشنل ٹی وی پہ آ کے ایک سوقیانہ زبان استعمال کرنے کی اجازت نہی ہونی چاھیے۔ ساتھ ہی ساتھ صحافی برادری کو فرخ شہباز وڑائچ صاحب کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر چلنا چاھیے تاکہ متکبر دماغوں کو یہ باور کروایا جا سکے کی ”صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments