‘اسلام آباد والے بھی قلندر بن گئے؟’


اسلام آباد یونائیٹڈ

ہندسے کبھی دھوکہ نہیں دیتے، یہ پڑھی لکھی جانچی پرکھی بات ہے۔ ریاضیاتی حساب نے ہی اس کائنات کا وجود تھام رکھا ہے۔ حساب کر کے اگلا قدم دھرنے والے کبھی ناکام نہیں ہوتے تا آنکہ حساب میں ہی کوئی گڑبڑ نہ کر جائیں۔

اسلام آباد یونائیٹڈ ہمیشہ سے پی ایس ایل کی انڈر ریٹڈ ٹیم رہی ہے۔ یہ ٹیم کبھی بھی بڑے ناموں پہ بھروسہ نہیں کرتی۔ ان کے ہاں اعداد و شمار اور سٹریٹیجی ہی سب کچھ ہے۔

چونکہ یہ ٹیم کسی بڑے جغرافیائی خطے سے وابستہ نہیں ہے اس لیے اس کا فین کلب بھی محدود سا ہے۔ لاہور، کراچی، کوئٹہ یا پشاور کے برعکس اسے کسی پورے صوبے کی حمایت حاصل نہیں ہے، یہ محض گیارہ لاکھ آبادی کے شہر کی نمائندہ ٹیم ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’بھلا ہوا نسیم شاہ ورلڈ کپ کھیلنے نہیں گئے‘

وہ کھلاڑی جو پی ایس ایل سے پہچانے جاتے ہیں

پاکستانی ٹیم میں جگہ کے لیے پی ایس ایل کتنا ضروری؟

اس کے مالکان بھی نہ تو رانا برادران کی طرح جذباتی ہیں نہ ہی جاوید آفریدی اور سلمان اقبال کی طرح خودنمائی کے شوق سے مالا مال۔ علی نقوی ایک نہایت سنجیدہ بزنس مین ہیں اور اپنے وسائل کو عین درست سمت میں استعمال کرنا جانتے ہیں۔

فواد رانا

جب پی ایس ایل کا پہلا سیزن شروع ہوا تو لاہور اور کراچی دو فیورٹ ٹیمیں تھیں مگر ٹورنامنٹ میں آگے بڑھتے کوئٹہ اور اسلام آباد چھاتے چلے گئے تا آنکہ اسلام آباد یونائیٹڈ افتتاحی سیزن کی فاتح ٹیم ٹھہری۔

اس فتح میں کلیدی کردار اس فرنچائز کے پلاننگ اور سٹریٹیجی ڈیپارٹمنٹ کا تھا جہاں حسن چیمہ اور ریحان الحق نے بہترین تزویراتی حسیات کا مظاہرہ کیا۔ مصباح الحق نے بھی اس پلاننگ اور ڈیٹا کا بخوبی استعمال کیا اور ‘انڈر ڈاگ’ فاتح ٹھہرے۔

تب سے اس فرنچائز کا فارمولہ ہی ناموں پہ نمبرز کو ترجیح دینا ہو گیا۔

اس بار بھی یونائیٹڈ نے ڈیٹا اور پلاننگ پہ بھرپور انحصار کیا۔

مینیجمنٹ میں دو بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔ دو ٹائٹل جتوانے والے، فرنچائز کے کامیاب ترین کپتان مصباح الحق ہیڈ کوچ کی کرسی پہ براجمان ہوئے جبکہ نوجوان ترین کپتان شاداب خان نے قیادت کی باگ تھامی۔ سٹریٹیجی ڈیپارٹمنٹ میں کماحقہ حسن چیمہ اور ریحان الحق برقرار رہے۔

پشاور اور کوئٹہ کی طرح اسلام آباد یونائیٹڈ نے بھی اپنے ‘کور گروپ’ کو برقرار رکھا۔ ڈیل سٹین جیسے سپر سٹار کی خدمات بھی حاصل کیں اور احمد سیفی عبداللہ و عاکف جاوید جیسے دلچسپ نوجوان ٹیلنٹ بھی ڈھونڈ لائے۔

مگر اس کے باوجود اسلام آباد یونائیٹڈ کا یہ سیزن بری طرح ناکامی سے دوچار رہا۔ اگر پورے سیزن کی جھلکیاں دیکھی جائیں تو یہ بدقسمت سی ٹائم لائن سامنے آتی ہے۔

  • پہلا میچ۔ اوپنرز اور مڈل آرڈر کی ناکامی، شاداب خان کی بدترین بولنگ فارم۔ کوئٹہ سے شکست۔
  • دوسرا میچ۔ رونکی نے بساط پلٹ دی۔ پیسرز کی شاندار بولنگ، یونائیٹڈ نے ملتان سلطانز کو شکست دے دی۔
  • تیسرا میچ۔ شاداب خان کی آل راؤنڈ پرفارمنس۔ اسلام آباد نے لاہور کو مات کر دیا۔
  • چوتھا میچ۔ جیسن روئے اور بین کٹنگ نے میلہ لوٹ لیا۔ یونائیٹڈ کے پیسرز کی بدترین پرفارمنس، ساڑھے تیرہ اوورز میں 137 رنز کے بدلے صرف دو وکٹیں حاصل کر پائے۔
  • پانچواں میچ بارش میں بہہ گیا۔
  • چھٹا میچ۔ مڈسیزن سٹریٹیجی میں بدلاو بھی یونائیٹڈ کو شکست سے نہ بچا پایا۔ سٹین کی شمولیت ٹیم کو مہنگی پڑ گئی۔
  • ساتواں میچ۔ منرو اکیلے ہی میچ پلٹ گئے۔ لاہور کو بھاری مارجن سے شکست دے ڈالی۔
  • آٹھواں میچ۔ بہترین ٹوٹل اور شاداب کی 77 رنز کی جارحانہ اننگز کے باوجود شکست۔ فہیم اشرف اور رمان رئیس کی آڑی ترچھی فارم سر درد بن گئی۔
  • نواں میچ۔ بارش کی بدولت نو اوورز کے مقابلے میں سٹریٹیجی پھر بکھر گئی۔ مڈل میں بیٹنگ فلاپ، بولنگ ونس کا ہی توڑ نہ کر پائی۔

اب عالم یہ ہے کہ یونائیٹڈ کا صرف ایک میچ باقی ہے، ٹیبل میں اگرچہ وہ تیسرے نمبر پہ ہیں مگر کوئٹہ، لاہور اور کراچی میں سے کوئی بھی انہیں بآسانی پلے آف سے باہر کر سکتا ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان کی وکٹوں پہ پہلی بار یہ پورا ٹورنامنٹ کھیلا جا رہا ہے اور حیران کن طور پہ یونائیٹڈ نے پیسرز پہ بہت زیادہ بھروسہ کیا ہے۔ حالانکہ ٹی ٹونٹی لیگ دنیا میں کہیں بھی کھیلی جا رہی ہو، مڈل اوورز میں سپنرز کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔

مڈل اوورز میں عموماً پارٹنرشپس جمنے کا وقت ہوتا ہے، ایسے میں اگر گیند پہ پیس موجود ہو تو بلے بازوں کے لیے سٹروک بنانا اور ڈرائیو کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے لہٰذا سپنرز کو لایا جاتا ہے کہ سکورنگ کی شرح سست پڑے۔

اگر تو سپنرز لائن لینتھ میں اچھا توازن برقرار رکھیں، رن ریٹ گرنے اور وکٹیں اڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں لیکن اگر سپنرز شاداب خان کی سی فارم میں ہوں تو یہ جُوّا مہنگا پڑ جاتا ہے۔

شاداب خان کی بولنگ فارم اس وقت ناگفتہ بہ مراحل سے گزر رہی ہے۔

شاداب

بیٹنگ میں انھوں نے بہت دلیرانہ فیصلہ کیا کہ لوئر آرڈر کی بجائے مڈل میں آنا شروع کیا اور اس کے نتائج بھی زبردست ملے مگر مڈل اوورز میں گیند کے ساتھ نہ تو وہ رنز روک پائے نہ ہی کوئی خاص وکٹیں حاصل کر پائے۔

سٹریٹیجی کی کنفیوژن پورے سیزن میں برقرار رہی۔

پیسرز نتائج نہیں دے پا رہے تھے مگر گھوم پھر کے انہی پہ انحصار کیا گیا۔ عاکف جاوید سے جو توقعات وابستہ تھیں، وہ انہی کے بوجھ میں دب گئے۔ فہیم اشرف اس وقت بدترین فارم کا سامنا کر رہے ہیں، رمان رئیس تو پہلے سے بولر رہے ہی نہیں جبکہ عماد بٹ کو کوئی سمجھ ہی نہیں پایا حتٰی کہ وہ خود بھی خود کو سمجھ نہیں پائے۔

ڈیل سٹین کی شمولیت کے لئے میلان کو باہر بٹھانا بھی کوئی خوشگوار فیصلہ ثابت نہیں ہوا۔ نہ تو سٹین پہلے سے بولر رہے ہیں نہ ہی ان وکٹوں پہ ان سے زیادہ امیدیں جوڑنا درست ٹھہرا ہے۔

ٹی ٹونٹی واقعتاً نمبرز کی گیم ہے۔

یونائیٹڈ کا نمبرز پہ انحصار کا فارمولہ عین بجا ہے مگر اس بار ان کے نمبرز ہی انہیں غچہ دے گئے ہیں۔ جس کور گروپ پہ انحصار کیا گیا تھا، ان میں سے کوئی بھی اپنی بہترین فارم میں دکھائی نہیں دیا۔ حسین طلعت اور آصف علی تو ابھی تک اپنا رول ہی نہیں سمجھ پائے۔

قسمت کی ستم ظریفیاں بھی شاملِ حال رہیں اور تزویراتی جنگ میں بھی اسلام آباد چھوٹے چھوٹے مارجنز سے مات کھاتا رہا۔

اب تک کے سبھی سیزنز میں یہ غالباً یونائیٹڈ کی بدترین پرفارمنس ہے۔ اعداد و شمار پہ بھروسہ بالکل درست تکنیک ہے مگر اس بار شاید حساب کرنے والے جمع تفریق میں تھوڑی گڑبڑ کر گئے۔

اور ٹی ٹونٹی میں تھوڑی سی گڑبڑ بھی بڑا نقصان کر جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp