پانچ سو پچیس روپے میں قتل کا مقدمہ انوسٹی گیٹ کریں!


پنجاب پولیس میں ریفارمز ایک خواب بن کر رہ گیا ہے، ریفارمز لانے والے رہے نہ اس مدعے پر بات کرنے والے۔ جرائم کی شرح ہر گزرتے دن کے ساتھ تیزی سے بڑھتی جارہی ہے، ایسے میں محدود وسائل کے ساتھ پنجاب پولیس کی کارکردگی دن بدن ناقص ہوتی جارہی ہے۔ آبادی کے پھیلاؤ اور فرائض میں اضافے نے پنجاب پولیس کی استطاعت کار پر شدید اثرات مرتب کیے ہیں۔ باوثوق اور آزادانہ ذرائع سے دستیاب اعداد وشمار اس بابت بھیانک حقائق پیش کرتے ہیں۔

گیارہ کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کل 717 تھانے ہیں، ان تھانوں کے جس فارمولے کے تحت فنڈز جاری کیے جاتے ہیں وہ انگریز سرکار نے انیس سو چونتیس میں متعارف کرایا تھا۔ گزرے چھیاسی برسوں میں جرائم کی شرح، آبادی کی شرح، فورس کی استطاعت کار اور ان گنت دیگر عناصر یکسر تبدیل ہو کر رہے گئے لیکن فارمولا ابھی بھی انیس سو چونتیس والا ہی نافذفذ ہے۔ سات سو سترہ تھانوں کے اخراجات پورے کے لئے آٹھ اعشاریہ چھ ارب روپے کی ضرورت ہوتی ہے، حیرت انگیز طور پر اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر پنجاب پولیس کو سرکار کی جانب سے صرف چار اعشاریہ چھ ارب ہی مل پاتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی چار ارب روپے پنجاب پولیس کہاں سے اور کیسے پوری کرتی ہے؟ ظاہر ہے باقی ماندہ اخراجات عوام کی جیب سے ہی پورے کیے جاتے ہیں۔ اور پھر یہاں سے شروع ہوتی ہے عجب غضب کی نہ ختم ہونے والی کرپشن کہانی۔

اب آجاتے ہیں انوسٹی گیشن کے شعبے کی جانب جہاں سرکار اس اہم مد میں سالانہ پچیس کروڑ روپے جاری کرتی ہے۔ دستیاب اور مصدقہ معلومات کے مطابق پنجاب بھر میں سالانہ پانچ لاکھ پرچے درج ہوتے ہیں، پانچ لاکھ پرچوں پر پچیس کروڑ کی رقم کا حساب لگایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ فی کیس یہاں پانچ سو پچیس روپے انوسٹی گیشن کی مد میں رکھے جاتے ہیں۔

یہ پانچ سو پچیس روپے تین سو دو اور تین سو چوبیس جیسے سنگین جرائم کی تحقیقات کے لئے کیسے خرچ ہوتے ہیں یہ سوچ کر کلیجہ منہ کو آجا تا ہے۔ مثلاً خون آلود کپڑے، جرم میں استعمال ہوئی گولیوں کے خول یا دیگر ثبوت ڈیرہ غازی خان یا اٹک سے آنے والے پولیس اہلکار نے لاہور کی فرانزک لیب میں جمع کرانا ہیں وہ بھی پانچ سو پچیس روپوں کے حساب کتاب میں۔ ایسے میں پولیس اہلکار متاثرہ فریق سے ہی پھر کہتے ہیں کہ گاڑی کرائیں، کھانا کھلائیں اور مزید تعاون کریں تاکہ آپ کا کیس سپیڈ اپ کیا جا سکے۔

انوسٹی گیشن کا ہی ایک اور اہم مرحلہ قتل کیس کا کرائم سین محفوظ اور ڈاکومنٹ کرنا ہوتا ہے، کرائم سین کی سمت، جگہ حدود اربع بیان کرنے کے لئے پٹواری کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، پٹواری ایک کیس کا کرائم سین سکیل کرنے کے لئے ان دنوں بارہ سے پندرہ ہزار فی کیس چارج کرتا ہے۔ لیکن یادر ہے کہ سرکار نے انوسٹی گیشن کے مد میں فی کیس صرف پانچ سو پچیس روپے ہی جاری کر رکھے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ خرچہ بھی عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ روٹی چائے، سگریٹ، پٹواری، گاڑی، پٹرول، یہ سب تو سرکاری کام کے لئے مانگا جاتا ہے، جب سرکاری کام کے لئے ڈیمانڈ کرنا معمول بن جائے تو پھر ذاتی جیب بھرنا قطعاً مشکل نہیں رہتا۔

قتل کا پرچہ درج ہونے سے کرائم سین سکیل کرنے کے بعد قتل کا چالان ایک اور انتہائی اہم مرحلہ ہوتا ہے، فی چالان پچیس سے پچاس ہزار وصول کرنا ایک کھلی حقیقت ہے جس کی تردید پولیس اہلکار بھی نہیں کر پاتے۔ سرکار اگر مناسب فنڈز جاری کرے تو یہ کوتاہیاں شاید کسی حد تک کم ہوجائیں۔

انوسٹی گیشن کے بعد اگر رخ کریں لاجیسٹکس کا تو یہاں بھی برے حال ہیں، گزرے دس برسوں میں سندھ پولیس نے پندرہ سو نئی گاڑیاں خریدی ہیں جبکہ اسی مدت کے دوران پنجاب پولیس کے حصے میں فقط تین سو نئی گاڑیاں آسکی ہیں۔ دستیاب گاڑیوں میں تقریباً پچپن فیصد گاڑیاں ایسی ہیں جو دس لاکھ کلومیٹر سے زائد چل چکی ہیں، ستائیس فیصد ایسی گاڑیاں ہیں جو پانچ لاکھ کلومیٹر چل چکی ہیں۔ یہ ناکارہ کھٹارے کسی جدید گاڑی کا پیچھا کرنے کی بجائے نئی موٹر سائیکل تک کو کیسے روک سکتی ہیں یہ سوال بھی ارباب اختیار کا منہ تو یقینا چڑاتا ہوگا۔

اور سنئیے۔ پرویز الہی کے دور میں پنجاب بھر میں پٹرولنگ پوسٹیں قائم کی گئیں، صوبے بھر میں تین سو چھپن پوسٹیں بنائی گئیں، ان پوسٹوں کے لئے فراہم کردہ گاڑیاں آج دو ہزار بیس میں ناکارہ اور کھٹارا حالت میں زنگ آلود ہو چکیں۔

انفراسٹرکچر یعنی عمارات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ صوبے بھر کے سات سو سترہ تھانوں میں سے تینتس فیصد تھانے ایسے ہیں جہاں واش روم تک کی سہولت دستیاب نہیں۔ ان میں ایک سو چون تھانے ایسے ہیں جنہیں سرکاری طور ’خطرناک‘ حد تک مخدوش قرار دیا جاچکا ہے۔ ایک سو ایک تھانے ایسے ہیں جو کرائے کی دکانوں یا عارضی ٹینٹ میں قائم کیے گئے ہیں۔

دو ہزار دس دو ہزار گیارہ کے بجٹ میں پنجاب پولیس کے لئے عمارات کی مد میں مجموعی بجٹ کا گیارہ فیصد مختص کیا گیا۔ دو ہزار انیس بیس میں یہ مد گیارہ فیصد سے کم کر کے محض چار فیصد کر دی گئی۔ اب ایسے میں جدید تھانے کا حصول ایک خواب ہی بن کر رہ گیا ہے۔

صوبے کی پولیس سوشل سکیورٹی سے محروم، پولیس اسپتال سے محروم، پولیس تعلیمی اداروں سے محروم اور ریٹائرمنٹ کے بعد دیگر اداروں کی طرح مراعات سے بھی محروم رکھی گئی ہے۔ فورس کی نفری بڑھانے کے لئے البتہ دس ہزار نئی بھرتیاں کی جارہی ہیں، یہ تمام کانسٹیبل رینک کی بھرتیاں ہوں گی جن کی منظوری بزدار سرکار نے دے دی ہے۔ انیس سو چونتیس کے پولیس قانون ہی اگر فارمولا مان لیا جائے تو اس کے مطابق پاپولیشن تو فورس کا تناسب یہ بتاتا ہے کہ اس وقت صوبے میں مزید اسی ہزار نئی بھرتیوں کی ضرورت ہے۔

اس وقت پنجاب پولیس کی نفری تقریبا پونے دو لاکھ ہے۔ اس میں بھی صرف ایک تہائی نفری آپریشنل ہے، باقی مانندہ نفری وی آئی پی، وی وی آئی پی، ایلیٹ، ایس پی یو، سی ٹی ڈی اور اس جیسی دیگر ڈیوٹیوں پر معمور ہے۔ یعنی بوجھ اضافی تو ڈال دیا گیا لیکن وسائل اضافی نہ دیے گئے۔

لندن سے موازنہ کیا جائے تو وہاں ایک پولیس اہلکار پر پر کیپٹا انکم میں سات سو چون ڈالر فی اہلکار خرچ ہوتی ہے، بھارت میں یہ سولہ سے سترہ ڈالر فی اہلکار اور ہمارے ہاں پنجاب میں چھ اعشاریہ چار ڈالر فی اہلکار۔ تیزی سے بڑھتی آبادی، ہوشربا جرائم، اور عجب غضب کی کرپشن کے ہنگام پنجاب پولیس بدنام نہ ہوگی تو کیا فرشتے پید ا کرے گی؟

اجمل جامی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اجمل جامی

اجمل جامی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، آج کل دنیا ٹی وی کے لئے لائیو ٹالک شو کرتے ہیں، خود کو پارٹ ٹائم لکھاری اور لیکچرار کے علاوہ فل ٹائم ملنگ مانتے ہیں، دوسری بار ملا جائے تو زیادہ پسند آسکتے ہیں۔ دل میں اترنے کے لئے ٹویٹر کا پتہ @ajmaljami ہے۔

ajmal-jami has 60 posts and counting.See all posts by ajmal-jami

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments