لڑکا اور لڑکی: فرق صرف تربیت کا ہے


میں عورتوں کے عالمی حقوق کے موقع پر نہ تو خواتین اور لڑکیوں کی حمایت کروں گی، نہ عورتوں کے حقوق اور گھریلو تشدد پر بحث کرنا چاہوں گی اور نہ ہی عورت کی تخلیق اور اس کی کمزوری کو زیرِبحث لاؤں گی کیونکہ میری نظر میں ایکوالٹی یہ نہیں ہے کہ مرد عورتوں کے کام کرے اور عورتیں مردوں کے کام کرے یا مرد اور عورت ایک جیسے کام کریں بلکہ ایکوالٹی تو یہ ہے کہ ہم مساوی سلوک کریں۔ لیکن مساوی سلوک کرنے کا سبق تو اسلام نے ہمیں کئی صدیوں پہلے ہی سکھایا تھا جسے ہم نے آج تک کتابوں میں لکھ کر محفوظ کر دیا ہے۔

اب وہ سبق یاد تو سب کو ہے مگر اس پرعمل کوئی کوئی ہی کرتا ہے، جب خواتین کے عالمی دن پر عورتوں کے حقوق، آزادی مارچ، عورت مارچ اور آنٹی مارچ کے نعرے بلند ہوئے تو کسی کو دین اور مذہب یاد آیا تو کسی کو روایات اور اکثر کو تو ڈرامہ سیریل میرے پاس تم ہو یاد آگیا۔ لیکن اس سب کا اصل مقصد پھر کہیں دفن ہو گیا اور عورتوں کا عالمی دن ایک عجیب ڈرامہ بن گیا۔ لوگ اس پر بات کرتے ہوئے بھی ڈرنا اور سہمنا شروع ہو گئے کیونکہ پاکستان میں اس دن کی شروعات ایک مرد نے ایک عورت کی تذلیل سے کر دی تھی جس سے یہ ثابت ہو گیا کہ ہمارے معاشرے میں عورت کی عزت واقعی دو ٹکے کی ہو کر رہ گئی ہے۔

لڑکی اور عورت تو زندگی کے بہت دیر سے آنے والے مراحل ہیں لیکن افسوس کہ ہم بچے اور بچی میں ہی تفریق کر جاتے ہیں۔ یہ تو گھر گھر کا قصہ ہے جو ہم ہر دن سُنتے ہیں کہ بیٹا پیدا ہوا ہے، بھئی مٹھائی تو بنتی ہے، آہ، پھر بیٹی ہوگئی؟ اس بار بیٹا پیدا نہ کیا اس نے تو ماں باپ کے گھر بھجوا دوں گی اسے؟ بیٹا پیدا کر لو تاکہ سُسرال میں پیر مضبوط ہو جائیں، تمہیں کیا فکر تمہاری کون سی بیٹیاں ہیں؟ کل کو بیٹے کما کر دیں گے۔

اگر بات لڑکے اورلڑکیوں کی کریں تو بھی تفریق کر جاتے ہیں۔ بیٹی اب تم دروازے پر نہ جایا کرو، نظریں نہ اُٹھایا کرو، زیادہ نہ ہنسو، سینہ تان کہ نہ چلو، چھت پر نہ چڑھو۔ کاش! لڑکوں کو بھی ایسے کہا جاتا کہ بیٹا کسی کے دروازے کے سامنے نہ کھڑے ہونا، نظریں جھکا کر رکھنا، گلی کے نکڑ یا دکان پر کھڑے قہقہے نہ لگانا، عاجزی سے چلنا سیکھو، چھت پر جا کر تاکا جھانکی نہ کرنا۔

یہ سب جملے بڑا واضح پیغام دیتے ہیں کہ ہمارے ہاں فرق ہے۔ لڑکا اور لڑکی ہونے میں فرق ہے، لڑکی پیدا ہونے پر شرم ہے اور لڑکا پیدا ہونے پر فخر ہے اور یہی فخر، یہی تکبر مرد کو شہ دیتاہے کہ خود کو عورت سے زیادہ مضبوط اور زیادہ عقل مند سمجھنے لگتا ہے اور اسی نا سمجھی میں وہ ان عورتوں کے حقوق کو پامال کرتا ہے جن سے اس کا کوئی واسطہ نہیں نہ کوئی تعلق ہے، بھئی! اپنی چیز اور اپنے گھر کی تو ہر کوئی حفاظت کرتا ہے، کچھ کر سکتے ہو تو دوسروں کو تحفظ دو تاکہ ہر کوئی خود کو محفوظ سمجھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments