نیب نے جنگ گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمان کو گرفتار کر لیا


قومی احتساب بیورو، نیب کی جانب سے جنگ گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

نیب کے ترجمان نے جنگ گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ اُن پر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں 54 پلاٹ حاصل کرنے کا الزام ہے۔

اس سے پہلے نیب لاہور نے ملزم شکیل الرحمن کو پانچ مارچ کو طلب کیا تھا اور انھیں اس ضمن میں ایک سوال نامہ بھی فراہم کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیے

’اخبار کو ضرورت نہیں لہذا کل سے مت آئیں’

جمعرات کو نیب کے حکام نے میر شکیل الرحمن کو طلب کیا اور دو گھنٹے تفتیش کے بعد اُنھیں گرفتار کرلیا گیا۔ نیب کے حکام کے مطابق ملزم کو جمعے کے روز لاہور کی احتساب عدالت میں پیش کرکے ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کی استدعا کی جائے گی۔

قومی احتساب بیورو کی طرف سے جس مقدمے میں میر شکیل الرحمن کو گرفتار کیا گیا ہے اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے ترجمان نے کہا ہے کہ سنہ 1986 میں لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے 180 کنال اراضی پر استثنیٰ قرار دیتے ہوئے اسے ہدایت علی اور حاکم علی کے نام الاٹ کیا تھا جبکہ اس کی پاور آف اٹارنی میر شکیل الرحمن کے پاس تھی۔

نیب کی طرف سے جاری کیے بیان میں کہا گیا ہے کہ سنہ1986 میں اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف نے استثنیٰ کے قواعد کو تبدیل کرتے ہوئے 55 کنال پانچ مرلےاراضی ہدایت علی اور حاکم علی کے نام کردی جس کی اٹارنی میر شکیل الرحمن کے پاس تھی۔

اس بیان میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ کسی بھی سرکاری ہاؤسنگ سکیم میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ قرعہ اندازی کے ذریعے ہوتی ہے لیکن اس میں قرعہ اندازی نہیں کروائی گئی۔

اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ میر شکیل الرحمن کو مختلف مقامات پر تین پلاٹ الاٹ کیے گئے جن میں 33 کنال کا پلاٹ کنال بینک روڈ پر،124 کنال کا پلاٹ سوک سیٹر کے پاس جبکہ 33کنال کا پلاٹ سوک سیٹر سے دور آلاٹ کیا گیا۔

نیب کے حکام نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ اگر ان 55 پلاٹوں کی الاٹمنٹ میں قرعہ اندازی کروائی جاتی تو ہر ایک الاٹی کو ایک ایک کنال کا ایک پلاٹ مل جاتا ۔

سوشل میڈیا پر میر شکیل الرحمان کی ویڈیو فوٹیج جاری کی گئی ہیں جن میں صحافی احتساب بیورو کے دفتر کے باہر ان سے سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ آج کوئی ثبوت لے کر آئے ہیں۔

سوشل میڈیا پر صارفین خاص طور پر صحافتی حلقوں کی جانب سے اس خبر پر تبصرے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ کچھ کی جانب سے اسے صحافت پر حملہ قرار دیا جا رہا ہے کچھ کی جانب سے سوال کیا جا رہا ہے کہ صرف جنگ گروپ ہی کیوں؟

صحافی و اینکر پرسن معید پیرزادہ نے اپنی ٹویٹ میں سوال اٹھایا کہ کیا تقریباً 30 سال پرانے کیس کو کھولا جانا ایک دانشمندانہ اقدام ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32557 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp