جنوبی پنجاب بل، شریعت بل اور جاتی ہوئی حکومت


اسی اور نوے کی دہائی ملک میں اسلامی نطام کے نفاذ کے نعرہ کی تھی۔ تحریک ِنظام مصطفے ٰکے نتیجے میں ’امیر المومنین‘ جنرل ضیا الحق کی حکومت قائم ہوئی تھی اور اس کی بنیاد پر یہ آمریت برقرار رہی۔ یہ حکومت اپنے دور اقتدار میں ملک میں نظام شریعت کو مرحلہ وار لاگو کرنے کی دعویدار رہی۔ جو کہ صرف ڈراؤنا خواب بنا رہا۔ 1985 میں غیر جماعتی الیکشن کے نتیجے میں پارلیمنٹ دوبارہ وجود میں آئی تو جونیجو کی حکومت کو دباؤ میں رکھنے کے لئے صوبہ سرحد ( موجودہ خیبر پختونخواہ) سے بلا مقابلہ کامیاب ہونے والے سینیٹر مولانا سمیع الحق اور جے یو آئی (ف) کے حافظ حسین احمد نے آئین پاکستان میں نویں ترمیم، ’شریعت بل‘ پیش کیا۔ 7 اگست 1986 کو سینٹ نے اسے منظور کرنے کے بعد قومی اسمبلی میں بھیج دیا۔ انصاف اور پارلیمانی امور کے وزیر وسیم سجاد نے اس بل کو کمیٹی کے حوالے کر دیا جس نے اسے تین ماہ میں اسمبلی میں پیش کرنا تھا لیکن وہ مدت کبھی بھی پوری نہ ہوئی اور مئی 88 میں اسمبلی توڑ دی گئی۔

پھر اسلامی جمہوری اتحاد کے قاضی عبدالطیف اور مولانا سمیع الحق نے 13 مئی 1990 کو سینٹ سے دوبارہ شریعت بل کی منظوری کروائی اوربینظیر بھٹو کی پہلی حکومت پر دباؤ بڑھا دیا۔ مذہبی سیاسی پارٹیاں اس کو بھر پور سپورٹ کر رہی تھیں ان کی قیادت اس وقت کا اپوزیشن کا ’اسلامی جمہوری اتحاد‘ کر رہا تھا۔ بل منظور کروانا مقصد ہی نہیں تھا اس کو ایوان زیریں میں پیش ہونے سے پہلے ہی صدر نے 6 اگست 1990 کو اسمبلی کو فارغ کر دیا اور شریعت بل دوبارہ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔

اگست 1998 کو نواز شریف کی مضبوط حکومت کی مخالفت بڑھنا شروع ہو گئی۔

مسلم لیگ کے سربراہ نواز شریف دسمبر 1997 میں فاروق لغاری اور جسٹس سجاد علی شاہ سے چھٹکارا حاصل کر چکے تھے۔ جنرل جہانگیر کرامت بھی وزیر اعظم سے اختلافا ت کی وجہ سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے چکے تھے۔ لیکن ادارہ اپنے سابق سربراہ کے بیانیے کے ساتھ کھڑا تھا۔ عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ حکومت کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ کراچی اپریشن شروع تھا سابق صوبائی گورنر حکیم سعید بھی قتل ہو چکے تھے۔ حالات اتنے خراب تھے کہ اکتوبر میں نواز شریف کو سندھ میں گورنر راج نافذ کرنا پڑا۔ ملک کی تمام علاقائی پارٹیاں نواز شریف کے خلاف ’پونم‘ Pakistan oppressed Nation movement کے زیر سایہ متحد ہو چکی تھیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے طاہر القادری اور دوسری چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ مل کر ’پاکستان جمہوری اتحاد‘ بنا لیا تھا

نواز شریف کو عوامی حمایت کی ضرورت تھی۔ ایک نیا شریعت بل تیا ر کیا گیا اور آئین میں پندرہویں ترمیم کو 28 اگست 1998 کو قومی اسمبلی نے منظور کرلیا۔ صرف 16 ممبران نے اس کی مخالفت کی جس میں جمعیت علما اسلام (ف) اور آزاد شامل تھے۔ بل سینٹ کو بھیج دیا گیا جہاں مسلم لیگ اقلیت میں تھی اور اسے سینٹ کے فلور پر پیش ہی نہ کیا جاسکا۔ نواز شریف نے دباؤ بڑھانے کے لئے عوامی حمایت کی درخواست کر دی۔ اور یہی مقصد تھا۔

یاد رہے کہ پاکستان کے آئین میں پیش کردہ تمام ترامیم منظور ہوئی ہیں ماسوائے تین کے۔ جن میں دو جو کبھی بھی منظور نہ ہو سکیں ( نویں اور پندرہویں ) شریعت بل کی ہیں۔ جب کہ ترمیم نمبر گیارہ کو واپس لے لیا گیا تھا یہ اسمبلی میں خواتین کی نمائندگی بڑھانے کی تھی جسے بعدمیں 2002 کی اسمبلی نے زیادہ بہتر شکل میں منظور کرلیا تھا۔

پروفیسر عنایت علی خان ٹونکی کا ایک شعر ہے

یہ شریعت کا نہیں گیس کا بل ہے بیگم

بلبلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی

شریعت بل صرف بلبلانے کے لئے ہی تھا منظور کروانا مقصد کبھی بھی نہیں تھا۔ جب کسی حکومت یا اپوزیشن پر دباؤ بڑھانا ہوتا تھا تو اسے میدان میں لا کھڑا کیا جاتا اور حکومت کی رخصتی کے بعد یہ طاق میں رکھ دیا جاتا تھا۔

پچھلی دو دہائیوں سے جنوبی پنجاب کا نعرہ بھی اسی مقصد کے لئے استعمال ہو رہا ہے

اب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جنوبی پنجاب بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا اعلان کر دیا۔

جب بھی کسی دوسرے مسئلے سے توجہ ہٹانی ہو جنوبی پنجاب کا نعرہ لگا دیا جاتا ہے مگر اس کا مقصد صوبہ بنانا نہیں ہوتا اور یہ پہلی بار نہیں ہو رہا۔

پیپلزپارٹی نے اپنے دور حکومت کے اختتام میں جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا اعلان کیا تو محمد علی درانی کو بہاولپور صوبہ کا نعرہ دے کر کھڑا کردیا گیا۔ نواز شریف کی حکومت کے خلاف پچھلی الیکشن میں اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اب جب کہ اس حکومت کا چل چلاؤ ہے تو عمران خان کی حکومت نے اسے پھر اسمبلی میں پیش کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اگر حکومت گر گئی تو اگلی حکومت پر اس کا دباؤ ڈالا جائے گا اور اگر بچ گئی تو بہاولپور سے اپنے کسی اتحادی کو اس کے خلاف کھڑا کر دیا جائے گا اور جنوبی پنجاب کا نعرہ وقتی طور پر طاق میں سجا دیا جائے گا، پھر دوبارہ استعمال کرنے کے لئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments