جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا اعلان، حقیقت یا زبانی جمع خرچ


شاہ محمود قریشی

Getty Images
</figure>&#1608;&#1601;&#1575;&#1602;&#1740; &#1581;&#1705;&#1608;&#1605;&#1578; &#1705;&#1740; &#1591;&#1585;&#1601; &#1587;&#1746;  &#1575;&#1606;&#1578;&#1592;&#1575;&#1605;&#1740; &#1575;&#1605;&#1608;&#1585; &#1670;&#1604;&#1575;&#1606;&#1746; &#1587;&#1746; &#1605;&#1578;&#1593;&#1604;&#1602; &#1580;&#1606;&#1608;&#1576;&#1740; &#1662;&#1606;&#1580;&#1575;&#1576; &#1705;&#1608; &#1575;&#1604;&#1711; &#1589;&#1608;&#1576;&#1746; &#1705;&#1575; &#1583;&#1585;&#1580;&#1729; &#1583;&#1740;&#1606;&#1746; &#1587;&#1746; &#1605;&#1578;&#1593;&#1604;&#1602; &#1576;&#1604; &#1602;&#1608;&#1605;&#1740; &#1575;&#1587;&#1605;&#1576;&#1604;&#1740; &#1605;&#1740;&#1722; &#1662;&#1740;&#1588; &#1705;&#1585;&#1606;&#1746; &#1705;&#1746; &#1575;&#1593;&#1604;&#1575;&#1606; &#1705;&#1746; &#1576;&#1593;&#1583; &#1604;&#1608;&#1711;&#1608;&#1722; &#1575;&#1608;&#1585; &#1582;&#1608;&#1583; &#1662;&#1575;&#1705;&#1587;&#1578;&#1575;&#1606; &#1578;&#1581;&#1585;&#1740;&#1705; &#1575;&#1606;&#1589;&#1575;&#1601; &#1705;&#1746; &#1585;&#1705;&#1606; &#1662;&#1575;&#1585;&#1604;&#1740;&#1605;&#1606;&#1657; &#1705;&#1575; &#1705;&#1729;&#1606;&#1575; &#1729;&#1746; &#1705;&#1729; &#1711;&#1586;&#1588;&#1578;&#1729; &#1581;&#1705;&#1608;&#1605;&#1578;&#1608;&#1722; &#1705;&#1740; &#1591;&#1585;&#1581; &#1605;&#1608;&#1580;&#1608;&#1583;&#1729; &#1581;&#1705;&#1608;&#1605;&#1578; &#1705;&#1746;  &#1575;&#1587; &#1575;&#1593;&#1604;&#1575;&#1606; &#1662;&#1585; &#1740;&#1602;&#1740;&#1606; &#1705;&#1585;&#1606;&#1746; &#1705;&#1746; &#1593;&#1604;&#1575;&#1608;&#1729;  &#1575;&#1606; &#1705;&#1746; &#1662;&#1575;&#1587; &#1575;&#1608;&#1585; &#1705;&#1608;&#1574;&#1740; &#1570;&#1662;&#1588;&#1606; &#1606;&#1729;&#1740;&#1722; &#1729;&#1746;&#1748;

سابق حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور پھر پاکستان مسلم لیگ نواز نے اپنے ادوار میں جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے لیے نہ صرف دعوے کیے تھے بلکہ پنجاب اسمبلی سے ایک قرارداد بھی متنفقہ طور پر منظور کروائی تھی لیکن زبانی جمع خرچ کے علاوہ اس پر عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

واضح رہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، جن کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے، نے بدھ کے روز اعلان کیا تھا کہ حکومت نے صوبہ پنجاب میں گورننس کو بہتر کرنے کے لیے جنوبی پنجاب کو انتظامی امور کے لیے اسے ایک الگ صوبے کا درجہ دینے کا حوالے سے بل قومی اسمبلی کے رواں اجلاس میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیر خارجہ کے مطابق قومی اسمبلی میں بل پیش کرنے کے بعد پارلیمنٹ میں موجود مختلف سیاسی جماعتوں سے اس بل کی حمایت کے لیے مزاکرات کیے جائیں گے۔

ملتان کے رہائشی اظہر نوید کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد جنوبی پنجاب کو بہتر انداز میں چلانے اور اس علاقے کے لوگوں کی محرومیوں کو درر کرنے کے لیے سول سیکرٹریٹ ملتان میں قائم کیا تھا تاہم وجہ بتائے بغیر اس کو ختم کردیا گیا ۔

اُنھوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانا تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور میں شامل ہے لیکن عملی طور پر اس پر اقدام نہیں اُٹھائے گئے۔

اظہر نوید کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب کے اضلاع میں رہنے والے افراد کو اپنے کام کروانے کے لیے سینکٹروں کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے لاہور جانا پڑتا ہے اور اکثر معاملات میں اُنھیں ناکام ہی لوٹنا پڑتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اس مجوزہ بل کے تحت ملتان میں ایڈشنل چیف سیکرٹری جبکہ بہاولپور میں ایڈشنل آئی جی کی تعیناتی کا ذکر کیا گیا ہے۔

صوبہ پنجاب کی آخری تحصیل روجھان سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی سردار ریاض محمود خان مزاری کا کہنا ہے کہ ان کا علاقہ صوبہ پنجاب کا سب سے پسماندہ ترین علاقہ ہے اور اُنھوں نے منتخب ہونے کے بعد اپنے ووٹرز سے وعدہ کیا تھا کہ وہ علاقے کے لوگوں کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے جنوبی پنجاب کو الگ سے صوبہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب سے منتخب ہونے والے ارکان پارلیمنٹ جن کا تعلق حکمراں جماعت سے ہے، وہ موجودہ حکومت پر دباو ڈال رہی ہے کہ وہ جنوبی پنجاب کو الگ سے صوبہ بنانے کے اقدامات کریں۔

ریاض محمود مزاری نے اس سوال پر خاموشی اختیار کی کہ موجودہ حکومت کی طرف سے جنوبی پنجاب میں انتظامی امور کے حوالے سے قومی اسمبلی میں بل پیش کرنے کا اعلان ان کے دباؤ کا نتیجہ ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ انڈیا نے اپنے پنجاب کو تین صوبوں میں تقسیم کر دیا ہے جبکہ پاکستان میں ابھی تک پنجاب کو ایک ہی صوبہ رکھا گیا ہے ۔

ریاض محمود مزاری کا کہنا ہے کہ اگر جنوبی پنجاب کو انتظامی امور کے حوالے سے الگ صوبے کی شناخت دی گئی تو اس سے تین کروڑ سے زائد عوام کو فائدہ پہنچے گا۔ ریاض محمود مزاری سابق نگراں وزیر اعظم میر بلخ شیر مزاری کے صاحبزادے ہیں۔

سنہ2018 میں عام انتخابات سے قبل سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے سابق ارکان اسمبلی نے جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی تحریک کا اعلان کیا تھا۔

تاہم گزشتہ عام انتخابات سے چند روز قبل اس جماعت نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی اور جنوبی پنجاب سے منتخب ہونے والے حکمراں جماعت کے ان ارکان کی طرف سے ڈیڑھ سال سے اپنے اس مطالبے پر عمل درآمد کے لیے کوئئ دباو نہیں ڈالا گیا۔

حکمراں اتحاد میں شامل وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ بہاولپور کو الگ صوبہ بنانے کے حامی ہیں تاہم حکومت کی طرف سے اس بل کے اعلان کے بعد ابھی تک ان کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

حزب مخالف کی جماعتوں نے حکومت کی طرف سے اس اعلان کے بعد اس بل کی حمایت کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں ابھی تک کوئی ردعمل نہیں دیا۔

حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی ریاض پیززادہ نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت کی طرف سے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا اعلان اس علاقے کی عوام کو لولی پاپ دینے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں الگ صوبہ بنانے کا کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔

ریاض پیرزادہ جن کا تعلق جنوبی پنجاب کے علاقے بہاولپور سے ہے کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین کا خالق اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پانچواں صوبہ نہیں بنوا سکے تو موجودہ وزیر اعظم کیا کریں گے۔

اُنھوں نے کہا کہ وہ اپنی جماعت کو مشورہ دیں گے کہ وہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبے کا سٹیٹس دینے سے متعلق موجودہ حکومت کے بل کی حمایت نہ کریں۔

اُنھوں نے کہا کہ پہلے ہی 18ویں ترمیم کی وجہ سے صوبوں کے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی کا کہنا ہے کہ آئین سازی کے لیے موجودہ حکومت کے پاس مطلوبہ نمبر موجود نہیں ہیں اور نہ صوبہ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کو واضح اکثریت حاصل ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر ایک مرتبہ جنوبی پنجاب کو انتظامی امور کے حوالے سے الگ صوبے کا سٹیٹس دیا گیا تو پھر ایم کیو ایم کراچی اور ہزارہ کو الگ صوبہ بنانے سے متعلق مطالبات زور پکڑ جائیں گے۔

تجزیہ کار طلعت حسین کا کہنا ہے عمران خان کو معلوم ہے کہ اگر ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان جن کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے، اگر ان کے مطالبات پر دھیان نہ دیا گیا تو ان کی حکومت ختم ہو جائے گی۔

طلعت حسین کا کہنا تھا کہ چونکہ جہانگیر ترین عملی سیاست سے الگ ہو چکے ہیں اس لیے شاہ محمود قریشی ان کی عدم موجودگی میں چیمپئن بننے کے لیے اس بل کو لانے کا اعلان کیا ہے۔

طلعت حسین کا کہنا تھا کہ اگر حزب مخالف کی جماعتوں نے اس بل کی حمایت نہ کی تو پھر حکمراں جماعت اپنے ووٹرز کو اس بات پر مطمعن کرنے کی کوشش کرے گی کہ چونکہ ان کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں تھی اس لیے وہ اس بل کو منظور نہیں کرواسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp