اردو زبان کا مختصر تاریخی جائزہ


انسان کا علم سے وہی رشتہ ہے جو روح کا جسم سے ہے۔ اس بات کا اندازہ اس حکم خدا وندی سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے علم کی بابت انبیا علیہ السلام کو بڑی وضاحت اور سراحت سے علم حاصل کرنے کی ہدایت و ترغیب دی گئی ہے اور اللہ تعالی نے نبی ص کو خصوصی طور پر یہ دعا سکھائی اور فرمایا کہ اے نبی ؔ یہ دعا کرتے رہا کریں ”و قل ربی زندنی علما“ کہ آئے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما۔

پھر پیام وحی کا پہلا لفظ بھی ”اقراء“ یعنی ”پڑھ“ ہے اور ساتھ ہی قلم سے علم کی ترسیل کا بندوبست کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔

علم کی ترسیل مرہوں ہے زبان سے۔ زبان ہی اظہارِ پیغام اور ترسیلِ پیغام کا ناصرف اہم بلکہ بنیادی جز ہے۔ یعنی ابلاغ کا موثر ترین اور اہم ترین ذریعہ ایک زبان ہی ہو سکتی ہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ خود رب ذوالجلال نے اپنا پیغام اپنے انبیاء کو ان کے دور میں رائج مقامی زبان میں ہی دیا۔ ہمارے بنی ص کا ظہور جزیرہ نما عرب میں ہوا اور وھاں کی مقامی زبان عربی تھی لہذا قرآن کا نزول اسی زبانِ عربی میں کیا گیا تاکہ اللہ تعالی کا پیغام اس کے بندوں تک واضح طور پر ان ہی کی جانی ہہچانی زبان میں ان تک پہنچایا دیا جائے۔ تو گویا زبان ہی بہترین اور موثر ذریعہ ابلاغ ہے۔

ہماری قومی زبان اردو دنیا میں قومی سطح پر رائج زبانوں میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ یہ زبان بر صغیر اور اس سے ملحقہ علاقوں اور قریبی ممالک میں بولی لکھی اور سمجھی جانے والی مختلف زبانوں کا ایک ایسا گلدستہ جس میں ہماری تہذیب، ثقافت، تاریخ اور تمدن کی وہ گہری چھاپ ہے جس کی مہک آج بھی برِصغیر پاک و ہند تروتازہ محسوس کی جاسکتی ہے۔

یہ مقامی زبانیں چاہے وہ آج کی ہندی ہے جو قدیم ترین مقامی ہندوستانی زبان سنسکرت سے نکلی ہو یا اس کے ساتھ ساتھ برصغیر کی مختلف علاقائی طور پہلے سے موجود مقامی زبانیں ہر ایک کی چاشنی اس اردو زبان میں موجود اور پائی جاتی ہے۔

اب اگر اردو زبان کی پیدائش کا ذکر کیا جائے تو اس بابت تاریخ ہند میں ہمیں اس کے مختلف ماخذ ملتے ہیں

اگر اس کی ابتدا کو دکن سے جوڑیں تو یہاں دکن میں بولی جانے والی زبان میں مالابار کے ساحلوں پر اترنے والے عرب و مقامی تاجروں کی اس زبان کی آمیزش ہے جو انہوں نے اپنے کاروباری لیں ن دین کے لئے مقامی اور عربی کے الفاظ کی شمولیت سے ترتیب دی یعنی اگر صرف عرب تاجروں ہی کا حوالہ لیا جائے تو اس میں معیشت اور حساب کتاب سے متعلق الفاظ کی آمیزش کا رنگ بھی نظر آئے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اس آمیزش نے اردو میں نئی تراکیب اور الفاظ بھی شامل کیے دکن والوں کا دعوہ کہ اردو کی ابتدا دکن سے ہوئی اس بات کو کلی نہیں تو جزوی طور پرتسلیم کرنا ہوگا۔ ہاں یہ بات درست ماننا پڑے گی کہ بعد میں دکن سے جو ادب نکلا اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دکن نے اردو کی ترویج و ترقی میں اپنا حصہ ضرور ڈالا ہے۔

ایک دوسرا دعوہ سندھ دھرتی کے باسی کرتے ہیں اور وہ اردو کی ابتدا کو سندھ سے جوڑتے ہیں اور دلالت کے طور پر وہ اس کی توجیح عرب فاتحین کی سندھ میں آمد سے ملاتے ہیں یعنی محمد بن قاسم کی سندھ آمد نے عربی کو مقامی زبان میں شمولیت اختیار کرائی اور اس ہی کی ترقیافتہ صورت نئی زبان بنُکر ابھری اور اس زبان نے ترقی و ترویج کے مختلف مدارج طے کرتے ہوئے اردوز زبان کی صورت اختیار کی۔ اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کیونکہ آج بھی سندھی زبان میں پہاڑ کے لئے ”جبل“ کا لفظ رائج ہے اور جبل عربی میں پہاڑ ہی کے معنی میں لیا جاتا ہے۔ اس کی علاوہ اور بھی بیشمار اسے ہم معنی الفاظ دونوں زبانوں میں موجود اور رائج ہیں۔

پنجاب و سرحد بھی ایجاد ترویج و ترقی اردو کے دعویدار ہیں ہر دو کا دعوہ گذشتہ دو کی نسبت زیادہ پختہ اور مضبوط دکھائی دیتا ہے۔ دور سلاطین کی ابتدا تاریخی طور پر انہیں دو حصوں سے منسوب ہے سلاطینِ ہند غزنی و افغانستان سے صوبہ سرحد میں داخل ہوتے ہوئے پنجاب پہنچے اور لاہور کو اپنا دارلخلافہ بھی بنایا۔ سلاطین نے ان دونوں جگہوں کی مقامی زبانوں میں بیشمار الفاظ کا اضافہ کیا۔ ان الفاظ میں اکثریت فارسی زبان کے الفاظ کی تھی پھر اس میں بعد کے آنے والے سلاطین اور مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر جو ترک نسل سے تھا کی وجہ سے ترکی الفاظ بھی اردو زبان کا حصہ بھی بنے۔

دہلی اور لکھنو کے عظیم الشان شعراء اور ادباء نے اس نئی زبان اردو کو ترقی، تہذیب و تمدن اور خاص طور پر ادب کی معراج عطا کی۔ اس سلسلے میں دیگر کے علاوہ میر و غالب کی خدمات قابل تذکرہ ہیں۔

مغلیہ دربار کی زبان اگرچہ فارسی تھی مگر دہلی کے شعراء نے اسے دربار مغلیہ میں ادبی حیثیت سے متعارف کرایا اور اردو کو باقاعدہ مکمل زبان کے طور پر بھی پذیرائی دلوائی۔ مغلیہ سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر بذات خود اردو کے شہرت یافتہ شاعر بن کر ابھرے جن کے اساتذہ میں استاد ذوق اور غالب جیسے شعراء شامل تھے۔

غالب کا شمار ایک شاعر کے علاوہ اردو کی ترویج و ترقی میں کبھی فراموش نہ ہوسکے گا۔ غالب نے 1857 ء کے غدر کا انکھوں دیکھا حال اپنی شاعری نثر اور خطوط کی شکل میں تاریخ کے سپرد کر دیا ہے ان کی یہ سب خدمات اردو کے حوالے سے تاریخ زبان اردو میں ہمارے لئے مینار نور ہیں اور یہ اردو کے بحیثیت ایک مکمل زبان ہونے کی اپنی جگہ ایک سند ہے۔

تحریک آزادی ہند سے تحریک پاکستان تک پہنچتے پہنچتے اردو ایک مکمل جامع اور مضبوط زبان کی صورت اختیار کرچکی تھی اور ادب کی تمام اصناف میں جلیل القدر ادباء کے اظہار کا واحد و واضح ذریعہ بن کر افک دنیا پر اپنا لوہا منوا چکی تھی۔ اب اردو افسانوں ڈراموں ناولوں اور کالموں کی زبان بن چکی تھی اور ایسا اسی صورت میں ممکن ہے کہ ابلاغ عام کا ذریعہ بننے والی زبان اپنے اندر وہ تمام ابلاغیاتی لوازمات رکھتی ہو کہ لکھنے اور بولنے والوں کو اپنا پیغام کسی ابہام کے بغیر اپنے وصول کنندہ تک اس کی سمجھ اور صلاحیت کے مطابق منتقل کر سکیں۔

علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے خواب پاکستان اور تعبیر پاکستان کی جو روح برطانوی سامراج کے خلاف اور آزادی کی جدوجہد کے لئے مسلمانان ہند میں پھونکی اس کے لئے اردو زبان ہی ہماری آزادی کو نعرہ مستانہ بنی۔ تحریک پاکستان کی کامیابی کے بعد ظہور پاکستان کے ساتھ ہی بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے برصغیر میں پیدا ہونے اور پرورش پانے والی زبان اردو جو ہندوستان کے کونے کونے میں بولی اور سمجھی جانے والی زبان تھی کو پاکستان کی قومی زبان کے طور پر اپنایا کیونکہ قائد کے پیش نذر عوام کو قومی پیغام عوام الناس کی اپنی ہی زبان میں دینا مقصود تھا ایک ایسی زبان جو انہوں نے خود بولی ہو، بنائی ہو، اور اسے اپنے اندر رائج بھی کیا ہو۔

اردو پاکستان کی قومی زبان ہے اور اس زبان کے قومی ہونے کے تقاضوں کے پیش نذر اسے پاکستان میں مکمل طور پر رائج کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کے لئے جدوجہد جاری ہے پاکستان کے متفقہ آئین 1973 ء میں بھی اردو کو بحیثیت دفتری و ابلاغی زبان کے رائج کرنے کے لئے پندرہ سال کا وقت دیا گیا تھا۔ مگر یہ سنگ میل ابھی تک عبور نہیں ہو پایا۔ باوجوہ کہ اس ضمن میں کوئی خاطر خواہ کام تاحال نہیں ہوا ہے مگر مقتدرہ قومی زبان جیسا ادارہ اپنی بساط میں ترویج اردو کے لئے ہر دم کوشاں ہے۔

حال ہی میں پاکستان سپریم کورٹ نے اردو کو مکمل طور پر رائج کردینے کے لئے ایک حکم بھی جاری کیا ہے اور حکومت وقت کو ہدایات دی ہیں کہ وہ اردو کو ہماری قومی زبان کے طور پر امور حکومت میں مکمل طور پر رائج کرے تاکہ اس قومی اور آیئنی فریضہ کی ادائیگی ہوسکے۔ اس کا عملی مظاہرہ پاکستان کی اعلی عدلیہ کے چند جج صاحبان نے اپنے کچھ حالیہ فیصلے اردو میں لکھ کر اس امر کی مضبوط بنیاد رکھ دی ہے۔

اردو ایک خوبصورت زبان ہے اس میں اگر فارسی کا مضبوط تلفظ و تراکیب ہیں تو عربی الفاظ کی اٹھان کا حسن بھی ہے ترکی زبان کا تنوع ہے تو برصغیر میں تاریخی طور پر بولی جانے زبانوں کا علاقائی حسن اور روانی نے اسے ناصرف بام عروج پر پہنچا دیا ہے بلکہ آج اردو قومی شعار کے سنگھاسن پر سب سے اوپر براجمان ہے۔

ہر زبان کا اپنا منفرد لہجہ اسے ابلاغ عام میں قبولیت کا دوام بخشتا ہے۔ اردو اپنی آمیزش اور زبان و بیان میں وہ تمام لوازمات سے مکمل طور پر مزین ہے جو اسے دنیا میں رائج ہونے والی دیگر زبانوں مثلاً انگریزی، عربی، چینی، وغیرہ کے ہم پلہ بنا دیتی ہے۔ اردو ہماری قومی زبان ہے ہماری قومی اساس اور پہچان ہے۔ اسے ابھی اور بہت سے مراحل طے کرنا ہیں اور ماہرین لسانیات اس کام میں شب و روزانہ ہمہ تن گوش ہیں گذشتہ سالوں میں اردو لغت میں دو لاکھ نئے الفاظ شامل کیے گے ہیں جو ان کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور یہ سفر اپنی پوری آب وتاب سے جاری و ساری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments