فوجی اڈے پر حملہ: امریکہ کا عراق میں ایران کے حمایت یافتہ جنگجوؤں پر جوابی فضائی حملہ


US soldiers in Iraq

اس وقت عراق میں 5000 امریکی فوجی موجود ہیں

امریکا نے عراق میں ایران کے حمایت یافتہ ملیشیا گروپ کے خلاف جوابی فضائی حملے کیے ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع کے مطابق ان حملوں میں ایران کے حمایت یافتہ ملیشیا کے ملک بھر میں ہتھیاروں کے ذخیرہ کرنے کی پانچ تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

یاد رہے کہ بدھ کے روز اتحادی فوج کے اڈے تاجی کیمپ پر راکٹ حملے میں دو امریکی اور ایک برطانوی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔

اس سے قبل ایک امریکی کمانڈر نے کہا تھا کہ ممکنہ طور پر ایران کے حمایت یافتہ ملیشیا گروپ نے یہ راکٹ حملہ کیا ہے۔ سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینتھ میک کینزی نے سینیٹ کی ایک کمیٹی کو بتایا کہ ‘ایرانی پراکسی گروپ کتائب حزب اللہ وہ واحد گروہ ہے جس نے پہلے بھی عراق میں امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف اس پیمانے کا بالواسطہ حملہ کیا تھا۔’

جمعرات کی شام کو ایک بیان میں امریکی محکمہ دفاع نے اس بات کی تصدیق کی کہ کتائب حزب اللہ کی تنصیبات پر ‘دفاعی فضائی حملے’ کیے گئے تھے۔

اس بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ ‘ان میں وہ تنصیبات شامل ہیں جہاں امریکی اور اتحادی فوجیوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیے جانے والے ہتھیاروں کو رکھا جاتا تھا۔’ ‘[یہ حملے] دفاعی، متناسب تھے اور براہ راست ایران کی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا گروپوں کی طرف سے لاحق خطرے کے جواب میں کیے گئے ہیں۔’

یہ بھی پڑھیے

عراق میں اتحادی فوج کے اڈے پر راکٹ حملہ، تین فوجی ہلاک

ایرانی جنرل کو مارنے کا فیصلہ ’جنگ روکنے‘ کے لیے کیا

عراق: امریکی فضائی اڈوں پر ایران کے میزائل حملے

امریکہ

امریکی سیکریٹری دفاع مارک ایسپر نے مزید کہا کہ ‘امریکہ اپنی عوام، مفادات یا اپنے اتحادیوں کے خلاف حملے برداشت نہیں کرے گا۔’ انھوں نے مزید کہا کہ ‘ہم اپنی افواج کے تحفظ کے لیے کوئی بھی ضروری اقدام اٹھائیں گے۔’

واضح رہے کہ امریکہ نے گذشتہ ایک سال میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا گروپوں پر عراق میں اتحادی افواج کے اڈوں پر اسی طرح کے 13 حملوں کا الزام عائد کیا ہے۔

گذشتہ برس دسمبر میں ایک ایسے ہی واقعے میں ایک امریکی شہری کی ہلاکت کے بعد سے کشیدگی شروع ہوئی تھی جس کے نتیجے میں صدر ٹرمپ نے جنوری میں اعلیٰ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی اور کتائب حزب اللہ کے کمانڈر ابو مہدی المہندیس کے قتل کا حکم دیا تھا۔

جوابی حملے کا پس منظر

اس سے قبل جمعرات کو خطے میں امریکہ کے زیرقیادت اتحاد نے مشرقی شام میں ایران کے حمایت یافتہ عراقی شیعہ ملیشیا گروپ پر فضائی حملے کرنے کی تردید کی تھی۔

خطے میں ایک مانیٹرنگ گروپ کے مطابق بدھ کی رات پاپولر موبلائزیشن فورس کے نیم فوجی دستے کے اڈوں پر حملہ کیا گیا جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ امام علی فوجی اڈہ جسے ایران نے تعمیر کیا تھا اس کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔

تاہم فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ حملے کس نے کیے ہیں۔

یہ حملے گذشتہ روز عراق کے دارالحکومت بغداد کے شمال میں امریکہ اور برطانیہ کی فوج کے لیے قائم تاجی فوجی اڈے پر راکٹ حملے کے جواب میں کیے گئے ہیں۔ اس حملے میں دو امریکی اور ایک برطانوی فوجی اہکار ہلاک اور کم از کم 12 اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے ایک بیان میں کہااس حملہ کو ‘افسوسناک’ قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘وزیر خارجہ نے امریکی وزیر خارجہ سے بات کی ہے اور ہم اس گھناونے حملے کی تفصیلات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ رابطے جاری رکھیں گے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp