کیا کرونا وائرس جنسی خواہشات کو بھی ختم کر دے گا؟


کرونا وائرس کے بعد دنیا مسلسل ایک آزمائش سے گزر رہی ہے۔ لوگ ہاتھوں کی بجائے آئیسولیشن میں دم توڑ رہے ہیں۔ بڑے بڑے لوگ جان جانے کے خوف سے گھروں میں قید ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، عرب، ایشیا، یورپ ساری دنیا لاک ڈاؤن ہو چکی ہے۔ مسیحی، مسلم، ہندو سب اپنے خدا سے بھی ناتا توڑ چکے ہیں۔ اگر کوئی ڈر ہے تو وہ بس جان جانے کا ڈر۔ اور اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی تمنا۔

مگر کوئی حل نہیں۔ آدمی مر رہے ہیں۔ اور انسان؟ تو کیا اب تک کوئی انسان زمین پر باقی تھا؟

میں نے آئینے میں دیکھا۔ مگر یہ چہرہ کس قدر چھپا ہوا ہے۔ میں اکیلے میں بھی ماسک نہیں اتار سکتا۔ شاید اب مجھ کو مجھ ہی سے خطرہ ہے۔ حکومت نے کچھ عرصے پہلے اعلان کر دیا تھاکہ گھروں سے باہر نا نکلیں۔ حکومت نے۔ ہاں حکومت نے۔ مگر کیا اب بھی اس ملک میں یا دنیا میں کوئی حکومت بچی ہے۔ میرے سوال مسلسل خود ہی سے ہیں۔ میں ہی اپنا سب کچھ ہوں۔ دوست، مونس ہجراں، مالک، خدا یا شاید میں ہی اس دنیا کی حکومت یا حکمران ہوں۔ پتا نہیں کون ہوں۔ یہ میرے سولات ہیں آپ اسے ہر گز کسی ڈرے ہوئے، اکیلے، یا آئیسولیٹڈ انسان کی نفسیاتی بیماری نا سمجھیں۔

سات ارب سے کچھ زیادہ آبادی تھی دنیا کی اور اب۔ کچھ پتا نہیں۔ اب توتمام سوشل میڈیا، ٹی وی، اخبار کچھ بھی نہیں بچے۔ میں نے اسی کشمکش میں اپنے ہاتھ سے کمرے کی چیزوں کو ٹٹولنے کی کوشش کی کہ کوئی تو پاس آ سکے میں کسی چیز کو چھو سکوں۔ مگر کچھ دن پہلے کا اعلان کانوں میں گونج گیا۔ کہ اب آپ کوشش کریں کہ اپنے کمرے میں موجود چیزوں کو بھی نا چھوویں۔

میں سوچنے لگا کیا میں واقعی ہی دنیا میں اکیلا ہو گیا ہوں؟

حالانکہ کچھ مہینے پہلے جب میں اپنی بیٹی کو اپنی بیوی کے ساتھ مل کر دفنا رہا تھا تو میں اکیلا نہیں تھا۔ میں محسوس کر رہا تھا۔ مگر رو نہیں رہا تھا۔ کیا مجھ میں کوئی احساس نہیں بچا تھا۔ میں نے رونے کی کوشش کی۔ مگر مجھے میری بیوی نے منع کر دیا کہ رو نہیں سکتے۔

ہم دونون کتنے مہینوں تک ایک دوسرے کے ساتھ رہے مگر مختلف کمروں میں، ایک دوسرے کے احساس کے بغیر۔ ایک دوسرے کو چھوئے اور دیکھے بنا۔

ہم نے تو اپنی بیٹی دفنا دی تھی۔ مگر جب میرے بڑے بھائی کی بیوی مری تو وہ بس اسے کمرے میں چھوڑ کر چلے گئے۔ اس کے بعد ان کا کچھ پتا نہیں۔ اور کچھ دن پہلے تک خبریں تھیں کہ لوگ اب منتقل ہونے کے لئے جگہ ڈھونڈ رہے تھے۔ مگرکون سی جگہ۔ ہر جگہ انسانوں کی لاشیں۔ مگر میں کیوں ہوں اب تک۔ اس پورے شہر میں اکیلا یا شاید ملک ہو سکتا ہے کہ دنیا میں۔ کوئی ذرائع بھی تو نہیں بچے کہ معلوم کیا جا سکے کہ اس زمین پر کوئی بچا بھی کہ نہیں؟

دو مہینے پہلے تک خبر تھی کہ آدھی دنیا کی آبادی ختم ہو چکی ہے۔ اور مہینہ پہلے تو خبریں آنا بند ہوگئیں تھیں۔ شاید چند لاکھ یا ہزاروں لوگ بچے ہوں۔ کس کو کیا خبر، لوگ بھی کس قدر بے حس ہو چکے تھے۔ بوڑھے ماں باپ کو گولیاں مارنے لگے تھے کہ ان سے وبا پھیل رہی ہے۔ مگر میں تو اتنا بے حس نہیں کہ اپنے پالنے والوں کو زندہ مار سکوں۔ میں نے کوشش کی کہ ان کو آرام کی موت دے سکوں۔ کہیں میں خدا تو نہیں؟ شاید کیونکہ میں بھی تو کسی کو موت دے سکتا ہوں۔ اور اپنی زندگی بچا سکتا ہوں۔

سردیوں کی رات میں ان بوڑھے جسموں کو سوپ سے بھلا زیادہ کوئی چیز سکون دی سکتی تھی۔ سو میں نے سوپ میں سکون ملا کے دے دیا۔ میں بے حس نہیں تھا۔ اور کیا کرتا؟ کیا خدا کو بھی مرنے دیتا۔ آخر کوئی تو ہونا چاہیے جو اس دنیا کا حال جان سکے۔ اس کے لئے مجھے خود کو تو بچانا تھا۔ مگر میں بے حس نہیں ہوں۔ میری مجبوریوں کو سمجھیں۔

ان کے آخری وقت میں ان کو گاڑی میں بٹھایا اور دور جگہ پر چھوڑ آیا۔ ان دونوں کو نیم بے ہوشی میں پیا س لگ رہی تھی۔ اور پانی مانگ رہے تھے۔ میرے پاس پانی کی ایک ہی بوتل تھی کیا کرتا۔ ان کو تھوڑی سی دیر میں یہاں سے چلے جانا تھا۔ اور مجھے تو رہنا تھا۔ سو میں مجبور تھا۔ مگر بے حس ہرگز نہیں۔ ان کو چھوڑنے کے بعد میں اپنے اکیلے کمرے میں آگیا۔

اب میں اور میری بیوی ہیں۔ اس ڈر، خوف میں ایک عجیب سے کیفیت میں ہوں۔ سمجھ نہیں آتا کہ آپ سے بات کروں بھی کہ نا۔ مگر آپ۔ ہیں آپ۔ یہاں ہے کون میرے علاوہ۔ مگر اپنے آپ سے بھی بات کرنے کو خوفزدہ ہوں۔ میں اپنی بیوی کے پاس تین مہینے سے نہیں گیا۔ ڈر اپنی جگہ مگر جسم کی ضرورت بھی اپنی جگہ ہے۔ اس سے چھٹکارہ کیسے پایا جا سکتا ہے جب آپ کے پاس کوئی نا ہو۔

میں نے کچھ دنوں سے اس کی آواز نہیں سنی اس کو کھانسی بھی نہیں آتی اب چھینکتی بھی شاید آہستہ آواز میں ہے۔ میں اپنے آپ سے مجبور ہوں۔ سب کچھ ہوتے میں اپنے آپ کو نہیں روک سکتا۔ احتیاطی تدابیر میں ایک جنسی عمل نا کرنا بھی تھا۔ مگر میں کیا کروں۔

میں نے سوچا کہ اپنا ماسک اتاروں، آئینہ دیکھوں۔ ماسک اتارنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مسلسل اپنے چہرے سے ماسک اتار رہا ہوں۔ مسلسل چہرہ بدل رہا ہے۔ مسلسل ایک سے ایک۔ میں چہرے بھی تخلیق کر سکتا ہوں۔ ہاں۔ اور مسلسل روپ بھی بدل سکتا ہوں۔ آپ سے پھر ایک دفعہ کہوں گا کہ اس کو دنیا میں اکیلے رہ جانے والے انسان کا خوف، ڈر وحشت یا نفسیاتی بیماری نا سمجھیں۔ میں پوری طرح سے ہوش میں ہوں، اور مسلسل کرامات دکھا رہا ہوں۔

میں نے تین چار کمروں سے گزرتے ہوئے دروازے پے دستک دی۔ مگر کوئی کھول نہیں رہا شاید میری بیوی سلمیٰ مجھ سے ہی خوفزدہ ہو گئی ہے۔ یا ہو سکتا ہے وہ سو رہی ہو۔ مگر میں ان جذبات کا کیا کروں جو ہمیشہ کی طرح مجھ پے حاوی ہو رہے ہیں۔ آپ مجھے ہوس کا پجاری نا سمجھیں۔ جسم کی ضروریات ہیں۔ ان کو کس طرح روکا جا سکتا ہے۔ اور مجھے۔ آپ تو جانتے ہیں نا میں اب ایک انسان نہیں رہا۔ میں نے دروازہ کھولا شاید توڑنے کی طرح کھولا۔

اندر کمرے میں سلمیٰ بستر پر موجود تھی۔ میں نے کوئی بات نہیں کی۔ ہو سکتا ہے ہم میں سے کوئی وائرس کا شکار ہو جائے۔ میں نے اس کا ربن کھولا وہ آرام سکون سے آنکھیں موندے لیٹی رہی۔ جیسے وہ ہمیشہ رہتی ہے۔ میں اسے اکژ غصے سے کہتا تھا کہ کچھ احساس دلایا کرو۔ ایسے لگتا ہے جیسے میں ایک مردے کے ساتھ لیٹا ہوں۔ کوئی احساس نہیں دیتی تم مجھے۔ کہ مجھے محسوس ہو میں کسی انسان کے ساتھ سو رہا ہوں۔

اس کا جواب یہی ہوتا تھا کیا آپ نے اس انسان کی مرضی کبھی دریافت کی؟

مگر میں کبھی اس کی ان فضول باتوں پے کان نہیں دھرتا۔ کمزور ذات ہے وہ بھلا کیا فیصلہ کر پائے گی۔

میں مشغول رہا۔ اتنے دنوں کی تھکان چند منٹوں میں اتر گئی۔ سلمیٰ بالکل اس طرح ہی بے سدھ پڑی تھی۔ جس طرح ہمیشہ رہی۔ میں نے اسے ہلا کے دیکھا کہ شاید سوئی ہوئی تھی۔ مگر مجھے لگا کہ اس کی سانس نہیں چل رہیں۔ وہ مر چکی تھی۔ مگر اس کے جسم میں تو کوئی بدلاؤ نہیں آیا۔ بالکل ویسا ہی جسم۔ میں ایک دم چونکا۔ کیا میں ایک مردے کے ساتھ یہ عمل انجام دیتارہا۔ میں چیخا۔ میں بے حس تو نہیں مگر یہ کیا ہوا؟

میں جلدی جلدی اپنے کمرے میں بھاگا۔ ا اور خود کو لاک کر لیا۔ کہیں اس کے مردہ جسم سے کوئی جراثیم مجھ میں منتقل نا ہو سکیں۔ کہیں اس زمین کا آخر حساس انسان بھی بے حسی میں دم نا توڑ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments