موچی کے بچے اور بھوکا ننگا کروڑ پتی تاجر


جو سین میری نظروں کے سامنے تھا، وہ اب تک کے سیکھے گئے ہر درس پر بھاری تھا۔ شہر کے پوش علاقوں کا ایک کمال یہ بھی ہوتا ہے کہ سڑکیں کھلی کھلی اور ٹریفک کم ہوتی ہے۔ میری سپیڈ لگ بھگ 80 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو گی جب اچانک سڑک کے کنارے میں نے یہ منظر دیکھا۔ میں اپنی ہی سوچوں میں گم بھی تھا، سپیڈ بھی کچھ زیادہ تھی، لاشعوری طور پر گزر گیا۔ کچھ دور جا کے احساس ہوا کہ پیچھے کچھ ”اہم“ تھا جو چھوٹ گیا ہے۔ گاڑی گھما کر واپس پہنچا اور دیکھا، سڑک کے کنارے، موچی کا ایک سٹال ہے۔

جس پر دو چھوٹے بچے بیٹھے ہیں۔ ان کا باپ بھی وہیں کہیں آس پاس ہی ہوگا مگر اس وقت وہ موجود نہیں۔ بڑے بچے کی عمر یہی کوئی چار پانچ سال ہو گی، اور چھوٹا دو ایک برس کا ہو گا۔ میں نے دیکھا کہ بڑے بچے کے ہاتھ میں ایک مشروب ہے، بوتل میں سے ایک گھونٹ وہ خود لیتا، ایک اپنے چھوٹے بھائی کو پلاتا، یوں لگتا تھا کہ اس کے ہاتھ میں یہ بوتل نہیں بلکہ دو جہاں کا خزانہ ہے۔ جو نہ جانے کتنی ہی دعاوں اور کوششوں سے اسے ملا ہو۔

اور وہ پورے دل کے ساتھ اپنے خزانے کو اپنے بھائی کے ساتھ شئیر کر رہا تھا۔ اور سچی خوشی ان چہروں پر دمک رہی تھی۔ صاف نظر آ رہا تھا اس خوشی کو خرید کر چہرے پر سجانا ممکن نہیں۔ یہ شکر تھا، توکل تھا، یا پیار تھا، جو بھی تھا بس لاجواب تھا۔ میری نگاہوں کے سامنے چلتا یہ منظر دھندلاتا ہے، میں خود کو ایک وسیع و عریض گھر کے ڈرائنگ روم میں پاتا ہوں۔ دنیا بھر کی آسائشوں سے سجا ڈرائنگ روم، ہر چیز بیش قیمتی، منفرد اور اعلی، شاید سب امیروں کے ڈرائنگ رومز ایسے ہی ہوتے ہوں گے۔

سستے اور میلے کپڑوں میں ملبوس کوئی شخص اگر ان صوفوں پر بیٹھے، تو خود کو بھی سستا اور میلا محسوس کرنے لگے۔ یہ لاہور کے ایک بڑے تاجر کا گھر ہے۔ یہ تاجر میرے دوست ہیں، میرا یہ دوست اپنی غریب بہن سے ناراض ہے۔ میں اس کو بتانے آیا تھا کہ اس کی بہن بیمار ہے اور نادار بھی، سرکاری ہسپتالوں کے چکر کاٹ رہی ہے۔ تمھیں اللہ پاک نے بہت دے رکھا ہے، بلکہ بہت سے بھی زیادہ، اپنی بہن کا کسی اچھے ہسپتال سے علاج ہی کروا دو۔ خیرات ہی سمجھ کر، اگر بہن نہیں سمجھ سکتے۔ میرا دوست، جو کچھ دیر پہلے میرے آنے پر خوشگوار حیرت کا اظہار کر رہا تھا، دوپہر کے کھانے کے مینیو سیٹ کر رہا تھا۔ یک دم سنجیدہ ہو گیا۔ اس نے جو کہا اس کا خلاصہ بس یہی ہے کہ ”حالات بہت خراب ہیں، یہ عیش و عشرت، یہ محل نما گھر، سب جو میں دیکھ رہا ہوں بس نظر کا دھوکا ہے، کام بالکل بھی نہیں چل رہا، یعنی ممکن نہیں کہ وہ“ غریب ”اپنی بہن کا علاج کروا پائے۔ بلکہ اس نے مجھے ترغیب دی، کہ میں اپنے تعلقات کا استعمال کروں اور سرکاری خیرات سے اس کی بہن کا علاج کروا دوں۔

میں وہاں سے اٹھ آیا۔ اور اب میں رے گھر کے راستے پر سڑک کنارے رکا، اس بچے کو دیکھ رہا ہوں سوچ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ ”بڑا آدمی کون ہے، میرا تاجر دوست یا یہ بچہ“؟ میں سوچ رہا ہوں کہ کسی کے کام آنے کے لئے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے یا حوصلے اور ظرف کی؟ اس بچے نے ثابت کر دیا کہ کسی کے کام آنے کے لئے لاکھوں کروڑوں روپوں کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ تھوڑے وسائل کے ساتھ اگر بڑا حوصلہ ہو تو یہ کافی ہوتا ہے۔ انسانیت کا جو سبق جو یہ بچہ مجھے پڑھا گیا وہ اب تک کے سیکھے ہر سبق سے بڑا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments