نئے صوبے وقت کی ضرورت یا محض سیاسی نعرے


گذشتہ کئی دنوں سے نئے صوبوں کا پھر سے شور مچا ہوا ہے، کچھ لوگ جنوبی پنجاب (سرائیکی) صوبہ کو پنجاب کی تقسیم کہہ رہے ہیں تو کچھ لوگ اسے سرائیکی وسیب کے لوگوں کے دکھوں اور مصائب کا مداوا سمجھ رہے ہیں۔

جہاں تک میری ذاتی رائے ہے پاکستان میں نئے صوبے وقت کی اھم ترین ضرورت اور عقل کا تقاضا بھی ہیں۔ اگر صوبہ پنجاب کی بات کی جائے تو 2017 کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 11 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ دنیا میں صرف 11 ممالک ایسے ہیں جن آبادی پنجاب سے زیادہ ہے۔ اگر پنجاب کو ملک تصور کر لیا جائے تو یہ چین، بھارت، امریکہ، انڈونیشیا، پاکستان، برازیل، نائیجیریا، بنگلہ دیش، روس، میکسیکو اور جاپان کے بعد دنیا کا بارہواں بڑا ملک ہو گا۔ اگر ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کے بجائے حقائق کو سامنے رکھیں تو اتنی بڑی آبادی کو ایک انتظامی یونٹ میں کنٹرول کرنا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔ ورلڈ پاپولیشن آرگنائزیشن کا ڈیٹا چارٹ بطور ریفرنس لگا دیا ہے۔ (ریفرنس فوٹو)

صوبوں کا مقصد عوام کو بہتر سہولیات زندگی میسر کرنا ہوتا ہے۔ جو لوگ اسے پنجاب تقسیم کا رنگ دے کر لسانیت کارڈ کھیل کر نئے صوبوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا چاھتے ہیں تو ان سے دست بستہ گزارش ہے کہ بڑے ہو جائیں۔ پنجاب کے کم از کم 4 سے 5 صوبے بننے چاھیں۔ اگر بہاولپور والوں کو الگ صوبہ چاھیے تو بنا دیں، اس مطالبے پہ میرے سرائیکی وسیب کے باقی سرائیکی بھائیوں کو اعتراض نہیں ہونا چاھیے۔ قیام پاکستان سے لے کر ون یونٹ والی حماقت تک ریاست بہاولپور ایک الگ صوبے کی حیثیت رکھتی تھی۔

جس کو ون یونٹ کے خاتمے پہ پنجاب میں ضم کر دیا گیا۔ بہتر ہو گا اگر بہاولپور صوبہ، ملتان (سرائیکی) صوبہ، راولپنڈی (پوٹھوھار) صوبہ اور سینٹرل پنجاب کو الگ صوبہ بنا دیا جائے۔ لوگوں کو اپنے گھر سے 2 گھنٹے میں وزیراعلی آفس تک پہنچنے میں یا صوبائی سیکرٹریٹ تک رسائی ہو گی۔ ابھی اگر کسی کو رحیم یار خان یا راجن پور سے تخت لاھور آنا پڑے تو 10 گھنٹے کی مسافت اسے سوچ کر ہی تھکاوٹ کا شکار کر دیتی ہے۔ اور بعض اوقات وسائل کی کمی بھی رکاوٹ بن کر ارادہ ترک کرنے پہ مجبور کر دیتی ہے۔

ھر سیاسی جماعت نئے صوبے بنائے بغیر ہی نئے صوبے کا کریڈٹ لینا چاھتی ہے۔ میرے وسیب کے نادان دوست جو پیپلز پارٹی سے گذشتہ پچاس سالوں سے سرائیکی صوبے کی امید لگائے بیٹھے ہیں وہ کیسے بھول جاتے ہیں کہ کراچی صوبے کی مخالف پیپلز پارٹی ان کو نیا صوبہ کیسے دے سکتی ہے۔ ن لیگ کا سرائیکی صوبہ بنانے کے لیے بات کرنا ایسے ہی ہے جیسے یزید، حضرت امامِ حسین کے دفاع کے لیے کھڑا ہو جائے۔ ن لیگ کی سیاست پنجاب سے وابستہ ہے پنجاب کے تین صوبے بنے تو ن لیگ اور ایم کیو ایم میں فرق کرنا مشکل ہو جائے گا۔ مثال ایم کیو ایم کی اس لئے دی کہ دونوں ڈکٹیٹر ضیاءالحق کے بغل بچے اور پیداوار ہیں۔

آخر میں یہی گزارش ہے کہ اگر پاکستانیوں کو اپنے حقوق اور نئے انتظامی یونٹ چاھیں تو میدان میں آئیں مطالبات میں شدت لائیں صرف اور صرف کسی سیاسی جماعت پہ توکل و تکیہ نا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments