متبادل موقف کی تلاش


\"wusatullahامریکا میں پاکستان کے سابق سفیر، پاکستانی سیاست و خارجہ پالیسی پر تین کتابوں کے مصنف اور مدرس حسین حقانی کے بارے میں بھلے کوئی کیا خیالات بھی رکھے۔ مگر پچھلے دنوں لندن میں انھوں نے متبادل ریاستی بیانئیے کی ضرورت پر منعقد کانفرنس میں جن خیالات کا اظہار کیا، اس کی وڈیو میں نے سوشل میڈیا پر دیکھی۔ باتیں دلچسپ لگیں لہذا پیش کر رہا ہوں۔ رائے اپنی اپنی۔

’’ انیس سو چورانوے میں جب میں وفاقی سیکریٹری اطلاعات بنا تو متعلقہ فائلوں کے ساتھ مجھے ایک سیف کی چابی بھی دی گئی۔ اس سیف میں ایک دستاویز  پر لکھا تھا ’’وار پروپیگنڈہ پلان، ڈائریکٹوریٹ آف انفارمیشن ‘‘۔ یہ دستاویز انیس سو انتالیس میں برطانوی ہند کی حکومت نے تیار کی تھی۔ آزادی کے بعد کسی سیکریٹری اطلاعات نے بس یہ تبدیلی کی کہ پروپیگنڈہ کے اوپر انفارمیشن اور ڈائریکٹوریٹ کے اوپر منسٹری کی ٹائپ شدہ پرچی چپکا دی۔

اس دستاویز میں ایک باب ریڈیو کے بارے میں بھی تھا کیونکہ انیس سو انتالیس میں ریڈیو ہی ایک صوتی میڈیم تھا۔ مگر سن ساٹھ کے عشرے میں جب ٹی وی شروع ہوا تو اس وقت کے کسی سیکریٹری اطلاعات نے بس یہ ترمیم کی کہ ریڈیو کے برابر ’’ اینڈ ٹی وی‘‘ کی ٹائپ شدہ پرچی بھی چیپ دی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری ریاستی ذہنیت اور ادارے آج بھی آزادی سے پہلے کے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر کی بنیاد پر چل رہے ہیں۔

ایک عرصے سے تحقیقی مصروفیت کے سبب پاکستان کی بنیادی مشکلات کی نوعیت بھی آشکار ہوتی چلی گئی۔ مثلاً اگر کسی شخص کا دل کمزور ہے، ہائی بلڈ پریشر بھی ہے، گھٹنوں میں بھی درد رہتا ہے، زخم بھی جلد ٹھیک نہیں ہوتا۔ تو انھیں ایک الگ الگ بیماری کے طور پر دیکھنے کے بجائے یہ دھیان دینا چاہیے کہ کہیں مریض کو زیابطیس تو نہیں۔

دوسری مثال یہ ذہن میں آتی ہے کہ فقہِ حنفیہ کے مطابق اگر کسی کنوئیں میں کتا گر جائے تو کلمہ پڑھ کے چالیس ڈول نکالنے سے کنواں پاک ہو جاتا ہے۔ مگر کتا نکالنے کے بعد۔

مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی ریاست پچھلے ستر برس سے جس انتظامی مشینری کے قبضے میں ہے وہ یہ چاہتی ہے کہ سیاست ایک فرنٹ کمپنی کے طور پر کام کرے اور بنیادی نظریہِ مملکت، خارجہ و داخلہ پالیسی کے بارے میں جو بنیادی نکات طے کر دیے گئے ہیں ان کے بارے میں عوامی سطح پر کوئی متبادل گفتگو یا مباحثہ  نہ ہو ورنہ ایسی گفتگو پاکستان اور اسلام دشمنی تصور کی جائے گی۔ یعنی اگر ریاست کے علاوہ کوئی کہے کہ بھائی افغانستان سے تعلقات بہتر کرنے میں یہ یہ فائدہ ہے تو وہ افغان ایجنٹ، بھارت سے تعلقات کی بہتری سب کے مفاد میں ہے تو وہ بھارتی ایجنٹ، امریکا سے محاذ آرائی کا اس وقت متحمل نہیں ہوا جا سکتا تو وہ امریکی ایجنٹ۔

پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں صرف کمزوریاں اور خامیاں نہیں ہیں۔ ان کی کچھ مجبوریاں بھی ہیں۔ اگر ریاست ایک گھر ہے تو سیاسی جماعتوں کو اس گھر کے ایک چھوٹے سے کمرے تک محدود کر دیا گیا ہے۔ یقیناً سیاسی جماعتوں میں بد دیانتیاں، بے ایمانیاں بھی ہیں مگر ان کے آپریٹ کرنے کے لیے دائرہ اتنا محدود کر دیا گیا ہے کہ خیالات کے میدان میں اتر کر مباحثے کی گنجائش ہی نہیں بچی۔ ( اتنی محدود جگہ میں تو صرف سر پھٹول ہی ہو سکتی ہے)۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ، خارجہ وداخلہ پالیسی اور حالاتِ حاضرہ میں نقطہِ نظر رکھنے کی جو بنیادی پالیسی ہم نے ( اسٹیبلشمنٹ ) طے کر دی ہے اسے چھیڑے بغیر آپ کو گفتگو اور غور و فکر کی مکمل آزادی ہے۔ کیا باقی دنیا میں بھی اسی طرح کی آزادیِ فکر ہے یا جمہوریت کا یہی تصور ہے کہ پالیسی تو ہم بنا چکے اب اس میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ آپ کو صرف یہ طے کرنے کا حق ہے کہ اس پالیسی کو اللہ دتہ آگے بڑھائے گا یا غلام رسول۔ اس بارے میں ووٹنگ کر کے کسی ایک کو منتخب کر لیں۔

حالانکہ جمہوریتوں میں ووٹ تو ہوتا ہی اس بات پر ہے کہ کون سی پالیسی غلط یا درست ہے اور کونسی پالیسی کیسے چل رہی تھی اور اب کیسے چلنا چاہیے۔ اس میں خارجہ و داخلہ سبھی کچھ شامل ہے۔ مثلاً عراق میں ایک امریکی صدر نے جنگ شروع کی اور دوسرے صدر نے اس وعدے پر الیکشن جیتا کہ وہ عراق سے امریکی فوج نکال لے گا۔ اس سے قبل ویتنام کی جنگ جانسن سے شروع ہوئی اور انیس سو اڑسٹھ میں رابرٹ کینیڈی نے صدارتی امیدواری کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ امریکا کو واپس بلا لیں گے۔ ان میں سے کون کس کا غدار قرار پایا؟ سب جمہوری ممالک میں فوج، انٹیلی جینس ادارے وغیرہ ہوتے ہیں مگر ان کا مقصد ملک کو ڈیفینڈ کرنا ہے ڈیفائن کرنا نہیں۔ اگر کوئی یہ بات کہہ رہا ہے تو کیا وہ کسی ادارے کا دشمن قرار پائے گا یا محض اپنا نقطہِ نظر بیان کر رہا ہوگا؟

کسی بھی مہذب کہلانے کے شوقین معاشرے میں انٹیلی جینشیا ( دانش مند ) کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ متبادل بیانیوں اور مباحث کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ بہتر سے بہتر خیالات کو پنپنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے۔ لیکن جب پوری توجہ اس پر ہو کہ پورے کے پورے بیانئیے پر ہی قبضہ کر لیا جائے۔ اخبارات و ٹی وی میں شخصی تنوع  تو ہو مگر خیالات و متن کا تنوع نہ ہو تاکہ ایک خاص بیانیہ بلا رکاوٹ جگہ پاتا رہے۔ جیسے یہی کہ ہمارے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب بین الاقوامی سازشوں کا نتیجہ ہے۔ اگر کوئی کہے کہ مسئلہِ کشمیر حل ہونا چاہیے مگر فی الحال یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا تو کیا یہ حقیقت کا بیان ہے یا غدارانہ بیان۔ چین نے فیصلہ کیا کہ تائیوان اس کا اٹوٹ حصہ ہے مگر وہ طاقت استعمال نہیں کرے گا۔ چین اور تائیوان کے درمیان تجارت بھی ہے اور آمد و رفت بھی اور اختلاف بھی۔

رائے کا تنوع برداشت کرنا آج کا نہیں ستر برس پرانا مسئلہ ہے۔ انیس سو چھیالیس میں سابق صوبہ سرحد میں کانگریس اور خدائی خدمت گاروں نے حکومت بنائی۔ باچا خان نے کہا کہ وہ ان ان وجوہات کے سبب پاکستان کا قیام نہیں چاہتے۔ جب پاکستان بن گیا تو انھوں نے کہا کہ اب یہ حقیقت ہے کہ ہم پاکستانی ہیں مگر اس میں صوبائی خود مختاری اور ثقافتی و لسانی تحفظ کو کم نہیں زیادہ ہونا چاہیے۔ باچا خان غدار قرار پائے اور جتنی قید انھوں نے انگریز دور میں کاٹی تھی اس سے زیادہ پاکستان بننے کے بعد کاٹی۔ حالانکہ باچا خان نے کبھی ہتھیار نہیں اٹھایا۔ وہ سیاسی آدمی تھے۔ بلوچوں نے متعدد بار ہتھیار اٹھائے مگر جن لوگوں نے ایسا نہیں کیا وہ بھی تو غدار کہلائے۔ صرف اس لیے کہ ان کی رائے ریاست پر نافذ کردہ رائے سے مختلف تھی۔

بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ بیرونی دنیا پاکستان کے بارے میں کیا سوچتی ہے اس بارے میں بھی اطلاعات کو ایک خاص زاویہ دینے کی کوشش ہوتی ہے۔ تازہ ترین مثال یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران ہر پاکستانی چینل پر یہ پٹی چلتی رہی کہ چینی وزیرِ اعظم نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کو بھر پور حمایت کا یقین دلایا ہے۔

چینی وزیرِ اعظم کا جنرل اسمبلی سے خطاب کا پورا متن انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ مجھے اس پوری تقریر میں کشمیر کا لفظ دکھا دیجیے۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ دنوں وزرائے اعظم نے سائیڈ لائن پر ملاقات کی اور پاکستانی دفترِ خارجہ کی جانب سے یہ کہا گیا کہ اس ملاقات میں چینی وزیرِ اعظم نے پاکستانی موقف کی تائید کی۔ تاہم چینی وزیرِ اعظم یا چینی دفترِ خارجہ نے اس موقع پر بیان جاری کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ حالانکہ چین اور پاکستان تعلقات کے تناظر میں ایسا ہونا یا نہ ہونا اتنا اہم نہیں مگر نکتہ یہ ہے کہ بیانیہ فیڈ کیا کیا جا رہا ہے۔

کچھ خوشگوار حقائق بھی ہوتے ہیں مگر حقائق اور خوش فہمیوں کو الگ الگ رکھنے کے بجائے اگر خلط ملط کر دیا جائے تو اس سے کنفیوژن ہی پیدا ہوتا ہے۔ جیسے ہمیں کئی برس تک فیڈ کیا جاتا رہا کہ امریکی امداد کے سبب پاکستان میں دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی۔ اب یہی بات چین کے بارے میں بتائی جارہی ہے۔ اس وقت جو امریکی امداد کی افادیت اور شرائط پر سوال اٹھاتے تھے وہ پاکستانی مفادات کے غدار کہلائے اور آج جو سی پیک پر سوالات اٹھا رہے ہیں وہ بھی غدار ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ تنوع اور مختلف رائے کے حق پر یقین رکھنے والے آپس میں مل بیٹھیں تاکہ بڑے پیمانے پر نہیں تو چھوٹے پیمانے پر ہی کسی کارآمد ڈبیٹ کی روائیت کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جا سکے۔ ورنہ تو بقول امجد اسلام  امجد

تیر آتا ہے جدھر سے یہ میرے شہر کے لوگ

کتنے سادہ ہیں کہ مرہم بھی وہیں دیکھتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments