افغانستان امن معاہدہ: بدامنی کو امن میں بدلنے کا موزوں ترین موقع


29 فروری بروز ہفتہ امریکی حکومت نے طالبان کے ساتھ امن معاہدہ پر دستخط کیے ہیں جو امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے خاتمہ کا پیش خیمہ بن سکتاہے۔ اگرچہ اس معاہدہ پر عملدرآمد کے حوالہ سے غیریقینی کی صورتحال پائی جاتی ہے مگر اس امرمیں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہی کہ پاکستان نے امریکہ اورطالبان کے درمیان ہونے والے اس معاہدہ میں بہترین سہولت کاری کی اورافغانستان میں مستقل اوردیرپا امن کے لئے اس موقع کو حقیقت کا روپ دینے میں معاون ثابت ہوسکتاہے۔

پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی معاہدہ طے پانے کے وقت دوحہ میں موجود تھے اورطالبان اورامریکہ کے درمیان مذاکرات کے دوران کئی اہم امورمیں وہ اپنا کردار بھی اداکرتے رہے تھے۔ اس امن معاہدہ کے مطابق امریکہ افغانستان میں موجود اپنی 13 ہزار سے زائد افواج 14 ماہ کے دوران مختلف مراحل میں واپس بلالے گا جبکہ اس معاہدہ کے تحت طالبان افغانستان کی سرزمین امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال کی اجازت نہیں دیں گے اوراس کے ساتھ ساتھ افغانستان میں متحارب دھڑوں کے درمیان باہمی مذاکرات کی راہ بھی اس معاہدہ کے تحت ہموارکی گئی ہے۔

بدقسمتی سے افغانستان میں معاہدہ کے فوری بعد ہونے والے چند واقعات سے معاہدہ پر عملدرآمد پر غیریقینی کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔ ان میں سرفہرست افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے 5000 طالبان قیدیوں کی غیر مشروط رہائی سے انکار تھا جس کا وعدہ امریکہ نے اس معاہدہ میں طالبان سے کیاتھا۔ افغان صدر کاکہناتھاکہ طالبان قیدیوں کی رہائی کا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا تھا۔ یہ بین الافغان مذاکرات کے ایجنڈا کا حصہ تو ہوسکتاہے مگر پیشگی شرط نہیں اورنہ ہی اس سے فریقین کی نیک نیتی کے معاملہ کے طورپر دیکھاجا نا چاہیے۔

معاہد کے تحت طالبان نے بھی افغان سکیورٹی فورسز کے ایک ہزاراہلکار اپنے جنگجوؤں کے تبادلہ میں رہا کرنے تھے۔ اس کے بعد معاہدہ کی کامیابی میں دوسری رکاوٹ طالبان کی طرف سے مختلف سکیورٹی اداروں پر حملوں کے نتیجہ میں 6 اہلکاروں کی ہلاکت سے سامنے آئی۔ امن معاہدہ کو تیسرا دھچکا اس وقت لگا جب طالبان نے 4 مارچ کو ایک جھڑپ میں افغان سکیورٹی فورس کے 28 اہلکاروں کو ہلاک کردیاجس کے جواب میں امریکہ نے طالبان حملہ آوروں پر فضائی حملہ کرکے جواب دیا۔

ان منفی واقعات کے سامنے آنے کے بعد امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے طالبان کے سینئر رہنما عبدالغنی برادر کو فون کال کی اور اس کے بعد ان کا کہناتھا کہ ملا برادر کے ساتھ ان کی اچھی بات چیت ہوئی ہے اوردونوں طرف سے ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے دلچسپی پائی جاتی ہے۔

اس تناظرمیں سوال یہ پیداہوتاہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کیسے ممکن ہوگی۔ ایک ایسے معاہدہ سے جو تمام فریقین کے مفاد میں ہو اورخطہ میں دیرپا امن قائم کرنے میں معاون ہویا ایک ایسے سطحی معاہدہ سے جس کا مقصدمحض ڈیل کرنا ہو یا صورتحال جوں کی توں رکھتے ہوئے سرے سے کوئی معاہدہ نہ کرنا۔ یہ میرا پختہ یقین ہے کہ کوئی بھی فرد جو افغانستان کے عوام اوراس خطہ کا بہتر مستقبل دیکھنا چاہتاہو، وہ بغیرکسی معاہدہ یا سطحی نوعیت کے معاہدہ یا ڈیل کو پسند کرے گا۔

بامقصد اورمثبت نتائج کے حصول کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اورمیرے خیال میں اس کا آغاز ایک نئی صبح کے طلوع کے احساس کے ساتھ ہوناچاہیے جیساکہ مسی ریان نے واشنگٹن پوسٹ میں حال ہی میں لکھاہے

20 سالہ طویل امریکی جنگ کے دوران پہلی مرتبہ ایسا پہلاحقیقی موقع آیا جب یہ محسوس ہوا کہ افغان مسئلہ کا سیاسی حل اورپرامن تصفیہ ممکن ہے۔ اس لمحے کی اہمیت کو تسلیم کرنا ضروری ہے خواہ یہ جنگ بندی کے تمام تقاضے پورے نہ بھی کرپائے۔ اس احساس کے ساتھ یہ امریقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ امریکہ کی اس عمل میں شرکت محض سیاسی کی بجائے عملی طورپر حقیقت پسندانہ ہو، پاکستان سمیت خطہ کے تمام ممالک ایک ٹھوس تصفیہ کے لئے کردارادا کریں اورسب سے بڑھ کر افغان حکومت طالبان کے اشتراک سے دیرپا امن کے قیام کے لئے مناسب فریم ورک طے کرے۔ ”

اپنی انتخابی مہم کے دوران 2016 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ کی نہ ختم ہونے والی جنگوں سے جان چھڑائیں گے۔ ماہرین اس وقت یہ سوال کررہے ہیں کہ کیا افغانستان معاہدہ واقعتا بہترین ہے کیونکہ اسے بعض حلقے طالبان کی بڑی کامیابی قراردے رہے ہیں یا یہ دوبارہ منتخب ہونے کے لئے ان کی صدارتی مہم کا محض حصہ ہے۔

افغانستان جیسے سنگین مسئلہ کو انتخابی مہم میں پوائنٹ سکورنگ، سیاسی مفاد اورجلد بازی میں کسی طورپر بھی استعما ل نہیں کیاجانا چاہیے بلکہ جنگ سے تباہ حال اس ملک میں انفراسٹرکچر کی بحالی، تعلیم اورہیلتھ کیئر جیسی سہولیات کسی بھی ممکنہ حل میں شامل ہونی چاہئیں۔ افغان امن معاہدہ میں پاکستان ابھی تک پیش پیش رہا ہے اور اسے ایک غیرجانبدار ہمسایہ کے طور پر اس عمل کا حصہ رہنا چاہیے نہ کہ طالبان کے وکیل یا ان کی بالادستی کے لئے کوشاں طاقت کے طورپر وہ اپنا کردار اداکرے۔

جیسا کہ پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی کے الفاظ ہیں کہ پاکستان امریکہ اورطالبان کے درمیان پارٹی نہیں ہے اورہمارا کردار محض سہولت کارکاہے۔ اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق افغانیوں کا اپنا ہونا چاہیے۔ جیسے جیسے افغان امن عمل آگے بڑھتا ہے پاکستان کی طرح خطہ کے دیگر ممالک انڈونیشیا، قطر اورچین بھی افغانستان میں وسائل کی فراہمی اورانفراسٹرکچر کی بہتری کے لئے مددگارثابت ہوسکتے ہیں۔

افغانستان کی حکومت کو حتمی اورقابل قبول امن معاہدہ کے لئے معاون اورمتحرک ہونا چاہیے حالانکہ 29 فروری کے معاہدہ کو حتمی شکل دینے اوراس کے خدوخال طے کرنے میں اسے شریک نہ کرنا یقینی طورپر ایک غلطی تھی۔ افغان حکومت اورطالبان کو امن مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی کوئی ایسا فارمولا طے کرلینا چاہیے تاکہ تنازعہ بڑھنے یا جنگ بندی ٹوٹنے سے بچا جاسکے۔ اپنے مختلف نظریات پر مذاکرات کرکے دونوں فریقین کو ملک میں حکومت کی ہیئت اوراسکی تشکیل کا قابل عمل اورایک دوسرے کے لئے قابل قبول حل نکال کر آگے بڑھنا ہوگا۔

آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ایک مستقل اوردیرپا امن سمجھوتہ کے لئے بے شمار نکات پر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہوگی مگر ا س کے ساتھ ساتھ کسی بھی معاہدہ تک پہنچنے کے لئے متاثرہ فریقین کے جنگ کے خاتمہ کے لئے مستند ارادے اورپائیدارعزم کی اہمیت سب سے بڑھ کر ہوگی تاکہ 2001 سے ہزاروں انسانوں کی ہلاکت کا باعث بننے والی جنگ کی تباہ حالی کے اثرات سے افغانستان کونکالا جاسکے۔ یہ ارادے اورعزم ہی افغانستان میں امن معاہدہ کو موجودہ غیر یقینی صورتحال سے دیرپا امن، استحکام اورترقی کے مواقع میں بدل دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments