بیٹیوں کی آزادی اور ماں باپ کی بے اعتباری


آزادی کا مطلب ہے کھل کے جینے کے اختیارات دینا، کھل کے جینے کے اختیارات کا کیا مطلب ہے انسان اپنی مرضی سے اپنی زندگی کے فیصلےکر پائے، اپنی مرضی کا پروفیشن منتخب کر پائے، اپنی پسند کی شادی کا فیصلہ کر پائے، اپنی مرضی سے جہاں جانا چاہے چلا جائے، جہاں تک تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے، حاصل کر پائے۔ اسے اس کی جائیداد میں حصہ دیا جائے۔ یہ ہے آزادی کا مطلب، جہاں بات لباس کی آ جائے اور غلط تعلقات کی آ جائے تو وہاں بھی گھرکی تربیت کی بات آتی ہے۔ 8 مارچ عورت مارچ میں پلےکارڈز پر لکھے گئےغلط اور ناجائز مطالبات پر یا اس کے پیچھے ناپاک عزائم کیا تھے، اس پر میں بات نہیں کروں گی۔ آزادی مارچ کے بعد میں نےسوشل میڈیا پر کئی ایسی بچیاں دیکھیں، جو گھرمیں بیٹھ کر عورت مارچ کو اس لیے سپورٹ کر رہی تھیں، جیسے واقعی اس مارچ سے انہیں بھی وہ آزادی مل جائےگی، جوعورت مارچ میں مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ مجھے ان بچیوں کی معصویت پر ترس بھی آیا کہ کس قدر آزادی کے لیے ترسی ہوئی ہیں ہماری بچیاں، جیسے کوئی قیدی پرندہ قید سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنے پنجرے کے پاس سے ہر گزرنے والے راہی کو دیکھ کر اس لیے خوش ہو کر اچھلنے لگتا ہے کہ شاید یہ مجھے آزاد کرنے کے لیے آیا ہے، مگراس قیدی پرندے کی خواہش اور خوشی تب ماند پڑجاتی ہے جب راہی اسے دیکھے بنا آگے بڑھ جاتا ہے اور پرندہ پھر سے اداس بیٹھ جاتا ہے کسی نئے راہی کے انتظارمیں۔ یہی عمل شاید ہرعورت مارچ پر ہماری وہ بچیاں دہراتی ہوں گی جو گھروں کی چاردیواری میں بیٹھ کر اس آزادی مارچ کو سپورٹ کرتی ہوں گی۔ مگر ہر عورت مارچ گزر جانے کے بعد اداس  پرندے کی طرح بیٹھ  کر کسی نئی تحریک کا انتظار کرتی ہوں گی۔

اب آ جائیں کہ اصل آزادی دینےکا اختیار کس کے ہاتھ میں ہے۔ اسلام نےایک عورت کو جتنےاختیارات دیے ہیں، کسی بھی مذہب نے نہیں دیے، بلکہ عورت کو انسان سمجھنے اور جینےکا حق ہی اسلام نے دیا ہے تو کوئی انسان یا کوئی اور مذہب کیا کسی عورت کو کچھ دے گا۔ انسان کو اور خاص طور پرعورت کو قید کرنے  والا  اور اس سے جینے کا حق چھیننے اور اسے جینے کا حق دینے والا مرد ہے اور ایک عورت کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد اس کا باپ ہوتا ہے اس کے بعد اس کے بھائی۔ ایک باپ اگر اپنی بیٹی کو عزت، آزادی اور اعتماد دینا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس سے وہ عزت، آزادی اور اعتماد چھین نہیں سکتا۔ اور نہ اس عورت یا بیٹی کی زندگی میں آنے والا کوئی دوسرا مرد اس عورت سے کچھ چھین سکتا ہے۔ بیٹیوں کا باپ بیٹی کا بہترین دوست بن جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اس بیٹی کوتکلیف نہیں پہنچا سکتی۔ آج مجھے یہ لکھتے ہوئے بہت تکلیف سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ملک میں باپ اپنی بیٹیوں کو اپنی عزت کا محافظ تو سمجھتے ہیں۔ مگر خود عزت کے نام پر بیٹی پر اعتماد اور اعتبار تک نہیں کرتے۔ گھر میں قید کی گئی بیٹیوں سے ماں باپ کا تعلق نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے کبھی کسی کے باپ نےبیٹی سے اس کی خواہش تک نہیں پوچھی ہو گی اور نہ پوچھنا گوارا کرتے ہیں، کیونکہ انہیں بیٹیوں پر اس بات کا مان تو ہوتا ہے کہ میری بیٹی میری مرضی کے خلاف کچھ نہیں کرے گی۔ مگربیٹی کو وہ یہ مان نہیں دیتا کہ کبھی میری بیٹی نے مجھ سے کچھ نہیں مانگا تو اس کی کسی خوشی کو میں بھی پورا کر دوں۔ بیٹی کے مرجھائے ہوئے چہرے پر کبھی باپ غور نہیں کرتے کہ میری بیٹی کا چہرہ اداس کیوں ہے؟ اس کے دل میں کیا چل رہا ہے۔ وہ مجھ سے کیا چاہتی ہے اور کیا نہیں چاہتی۔ کبھی باپ نےایسا نہیں سوچا ہو گا۔

 مجھے آج بھی سمجھ نہیں آتی کہ ہر باپ یہ کیوں سمجھتا ہے کہ اگر میں نے اپنی بیٹی کوآزادی دی تو وہ بھی گھٹیا لباس پہن لے گی، مردوں کے ساتھ غلط تعلقات رکھ لے گی، یاغلط کام ہی کے لیے آزادی مانگتی ہیں بیٹیاں۔ خدارا بیٹیوں کے دلوں میں جھانک کے تو دیکھیں، وہ تو بس جینا چاہتی ہیں اپنے بھایئوں کی طرح، اپنے بھایئوں کی طرح اپنی مرضی کا پروفیشن منتخب کرنا چاہتی ہیں، اپنےدل کی ہر بات اپنے ماں باپ سے اسی طرح کہنا چاہتی ہیں، جیسے بیٹے ماں باپ سے اپنی ہر بات کہہ دیتے ہیں۔ تربیت ہمیشہ گھر کی ہوتی ہے۔ لباس، رشتوں کے تقدس اور جائز تعلقات بنانےدینے یا نہ بنانے دینے کے معاملےمیں۔ مگر افسوس ہوتا ہے اس معاشرے کے متوسط طبقے کے والد کی سوچ دیکھ کر کہ وہ اپنی پاک دامن بیٹیوں کو غلط کردار کی مالک لڑکیوں کے ساتھ ملا کے سوچتے ہیں کہ ہم نے اپنی بیٹیوں کو ڈھیل دے دی تو ہماری بیٹی بھی ایسی ہو جائے گی۔ بس یہی سوچ کر باپ بیٹیوں کو معاشرے کے ساتھ چلنا نہیں سکھاتے، انہیں شعور نہیں دیتے، انہیں بہادر نہیں بناتے۔ ان پر اعتبار نہیں کرتے۔ باپ کے اسی خوف کی بھینٹ اس بیٹی کی پوری زندگی چڑھ جاتی ہے، بیٹیاں معاشرے کے غلط مردوں کی ہوس کی بھینٹ بھی چڑھتی ہیں اور ظالم، جاہل اور گنوار مردوں کے ظلم کا نشانہ بھی بنتی ہیں۔ ظالم شوہروں سے مار بھی کھاتی ہیں، اور سسرال کی جلی کٹی بھی سنتی ہیں۔ صرف اپنے سگےرشتوں کی بےاعتباری اور اپنے حقوق سے لاعلمی کی بدولت۔ یہی بےاعتباری بیٹیاں ختم کروانا چاہتی ہیں۔ بیٹیاں بری نہیں ہوتیں، انہیں رشتوں کی بےاعتباری برا بننے پر مجبور کرتی ہے۔

بیٹیوں کو تو کبھی باپ جیسے رشتے نے غورسے دیکھا بھی نہیں ہو گا۔ آج جو معاشرےمیں بیٹیاں کھلے ہوئے چہروں سے چلتی ہیں، ڈاکٹر، انجئیر، آرمی، صحافت، سیاست، کرکٹ اور ہر شعبے میں جو خواتین اور کسی کی بیٹیاں نظرآتی ہیں، ان کے پیچھےان کے باپ جیسے مقدس رشتےکا اعتماد اور اعتبار ہوتا ہے۔ جو وہ معاشرے کے ساتھ چلتی ہیں اور مقابلہ کرتی ہیں۔ ہمارےمڈل اور متوسط طبقے کے باپ کب بیٹیوں کے دلوں میں جھانکیں گے؟ وہ بیٹیوں کو اپنے اعتماد اور اعتبار کی طاقت کب دیں گے؟ کب اپنی بیٹوں کے دوست بن کر انہیں معاشرے کے براب رکریں گے؟ میں ایسے والد حضرات سے کہن اچاہتی ہوں، بیٹیاں آزادی کے نام پرغلط کام کبھی بھی نہیں کرتیں، آپ انہیں ایک بار بولیں کہ بیٹا میں آپ کو معاشرے کے ساتھ چلنا تو سکھا رہا ہوں، مگر اپنے باپ کی عزت کا ہمیشہ خیال رکھنا۔ بخدا بیٹی اپنی جان دے دے گی، مگرباپ کی عزت پر کوئی حرف نہیں آنے دے گی۔ میں تمام والد حضرات سے کہنا چاہتی ہوں شوہر کے رشتےکا مرد اگر شادی کے بعد آپ کی بیٹی کو مارتا ہے، اس کی تذلیل کرتا ہے تو اس بےعزتی، ذلت کے اصل حقدار آپ لوگ ہیں۔ وہ شوہر اصل میں آپ کی بیٹی کو گالی نہیں دے رہا ہوتا، آپ کی بیٹی کو نہیں مار رہا ہوتا، آپ کی بیٹی کی تذلیل نہیں کر رہا ہوتا، وہ آپ کی تذلیل کر رہا ہوتا ہے، آپ کو لفظوں کی مار مار رہا ہوتا ہے، اپنی بیٹیوں کے مجرم آپ ہیں، نہ کہ شوہر۔ جو بیٹیاں سسرال اور شوہر کے ہاتھوں ماری جاتی ہیں، جن بیٹیوں پر سسرال میں تشدد ہوتا ہے وہ اس لیے ہوتا ہے کہ ایک بچی کے سر پر باپ کا مضبوط ہاتھ نہیں ہوتا۔ باپ کے شعوراور اعتبار کی دی ہوئی وہ طاقت نہیں ہوتی، جو باپ ایک بیٹے کو دیتا ہے۔ جو بیٹیاں سسرال میں ماری جاتی ہیں، ان بیٹیوں کا خون اصل میں آپ کے ہاتھوں پر لگے گا پہلے۔ کیونکہ جو باپ اپنی خود غرضی کے لیے بیٹی کو علم و شعورنہ دے، اسے اس کے جائز حقوق نہ دے، اسے اپنا مضبوط ساتھ نہ دیں، اسے اپنا اعتبار اور اعتماد نہ دیں اور اسے اس لیے قید کر دیں کہ اگر یہ زمانے کے ساتھ چلنا سیکھ گئی تو آپ کی عزت خراب کر دے گی، اس لیے اسے معاشرے سے ہی دور کر دیا جائے تاکہ آپ کی عزت محفوظ ہو جائے، تو مت بھولیں، آپ کا شمار بھی ان باپوں میں ہو گا جو بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے ہیں۔ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا صرف زندہ قبر میں اتار دینے سے نہیں ہوتا۔ اس سے اس کا جنیےکا حق چھین لینا اسے زندہ لاش بنا دینا ہی اسے زندہ درگور کرنے کے برابر ہے۔ انسان آزاد پیدا ہوا ہے، اسے قید رشتوں کے نام پر کیا جاتا ہے اس کے حقوق چھین کراسے کمزور کر دیا جاتا ہے۔ ایک پرندے کے بھی پر کا ٹ دیے جائیں تو وہ کمزور ہو جاتا ہے اور اسے کوئی بھی تکلیف پہنچا سکتا ہے اور کوئی بھی مار سکتا ہے۔ جس طرح ایک جنگ میں جنگجو بنا ہتھیار کے نہیں جا سکتا، ایک بیٹی بھی معاشرے میں اپنے باپ اور رشتوں کے دیے گئےاعتبار اور اعتماد کے ہتھیار کے بنا نہیں چل سکتی۔ خدارا بیٹی پر بھی اس طرح اعتماد کرنا سیکھیں، جیسے بیٹوں پر کرتے ہیں، بیٹیوں کو اپنی طاقت بنائیں اور انہیں اپنی طاقت دیں۔ حقوق اور آزادی آپ نےچھین لیے، تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کی بیٹی کو حقوق اور آزادی نہیں دے سکتے۔

آج اگر عورت مارچ میں “میراجسم میری مرضی” کے سلوگن سے لڑکیاں اٹھ رہی ہیں اور بچیاں گھروں میں بیٹھ کراسے سپورٹ کر رہی ہیں، تو یہ ان تمام والدین کے لیے لمحہ فکریہ ہے یہ بچیوں کے اندر چھپا ہوا وہ لاوا ہے جو آہستہ آہستہ پھٹنے کی طرف جا رہا ہے اپنی بچیوں اور بچوں کو غلط راستے پر ڈالنے والے والدین کی وہ ناجائز پابندیاں ہیں، جنہوں نےبیٹیوں کو باہر دیکھنے پر مجبور کر دیا ہے ہرانسان اپنےخلوص اور قربانی کے بدلے دوسرے سے خلوص، قربانی، اعتباراور اعتماد چاہتا یے، توجہ چاہتا ہے اپنےدل کی آواز کو سنانا چاہتا ہے جو ماں باپ، ماں باپ ہوتے ہوئے چاہ کر بھی سننا نہیں چاہتے اپنی ضد، انا، جھوٹی شان اور عزت کی خاطر۔ جو والدین سمجھتے ہیں کہ بیٹیوں کو قید کر دینے سے وہ دنیااور اللہ کی نظر میں سرخرو ہو رہے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے بلکہ وہ اور گناہگار ہو رہے ہیں، اپنےبچوں کے بھی اور اللہ کے بھی۔ آج جو بچیاں اور بچے پسند کی شادی نہ ہونے پر خودکشی کر رہے ہیں، گھروں سے بھاگ رہے ہیں، ناجائز تعلقات بنا رہے ہیں۔ ان بچوں اور بچیوں کے قاتل اور گناہ گار والدین ہیں، جو بچیاں اور بچے ناجائز تعلقات بنانے کی طرف دیکھ ر ہے ہیں، ان کا ذمہ بھی والدین پر جاتا ہے، بچوں کو گھر میں پیار، محبت، توجہ، جائز حقوق، اعتماد اور اعتبار ملے تو کوئی بچہ اور بچی باہر نہیں دیکھتا۔ آج بچوں کا اور خاص کر بچیوں کا باہر کی طرف دیکھنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ والدین کی زیادتیوں کو جان گئی ہیں، وہ جان چکی ہیں ہمارےوالدین ہم سے مخلص نہیں ہیں، ہمارےوالدین ہمارےدوست نہیں ہیں۔ ہمارے ملک کے اسلامی ہوتے ہوئے بھی آج اس ملک میں بچوں کا غیر ملکی لوگوں کی طرز پر حقوق مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ اب ماں باپ اپنے بچوں کی سنیں، ان سے برابری کا سلوک کریں، ان کے جائز مطالبات خود پورے کرنے شروع کریں، اس سے پہلےکہ وہ بچیاں بھی باہر آ جائیں، جو اس وقت صرف گھر میں بیٹھ کر ایسی تحریکوں کو سپورٹ کر رہی ہیں۔ اب اس ملک میں جو کچھ اسلامی اقدار اور روایات بچی ہیں، اسے بچانےکا اختیاروالدین کے ہاتھ میں ہے کیونکہ جو حقوق، آزادی اور بچوں کی محرومیوں کا ازالہ سگےرشتے کر سکتے ہیں، وہ کوئی نہیں کرسکتا اور جو آزادی سگے رشتے اپنے بچوں کو دے سکتے ہیں، وہ کوئی نہیں دے سکتا۔

 اگر عورت مارچ اور ریاست کے قوانین کسی انسان کے حقوق اسے دلوا سکتے تو آج اس دنیا میں کوئی پسا ہوا طبقہ نہ ہوتا، جاگیردار، وڈیرے، چوہدری کسی انسان پرظلم نہ کر رہے ہوتے۔ ہر انسان پر ہونے والا ظلم اس کی کمزوری کی وجہ سے اس پرہوتا ہے جب انسان اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑاہوتوکوئی اس پرظلم نہیں کرتا۔ اسی طرح جن رشتوں میں اعتبار نہ ہو، وہی رشتے ناانصافی کرتےہ یں۔ اور انہی کے رشتوں کے ساتھ ناانصافی دنیا کرتی ہے۔ امریکہ جیسی ریاست پر کسی عورت کا حاکم نہ بننا، اس معاشرےکا اپنی عورت پر اعتبار اور اعتماد نہ ہونےکی وجہ سے ہے۔ کیا آج امریکہ میں عورت مارچ ہو جائے کہ عورت کو بھی ملک کا حاکم بنایا جائے تو کیا ایک مارچ سے حاکم بن جائے گی وہاں کی عورت؟ کبھی نہیں۔ جب تک کسی پر اعتبارنہ کیا جائے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ حقوق بھی اپنے ہی دیں تو دنیا سے حقوق ملیں گے، اپنے سگے رشتے حقوق چھین لیں تو دنیا کی کوئی طاقت کسی کے حقوق نہیں دلوا سکتی۔ اس کی مثال دیکھنی ہے تو ہراسانی کے خلاف قانون کو ہی دیکھ لیں، ہراساں کرنے کے جرم پر قانون تو بنا ہے مگر آج تک کسی کو اس جرم کی سزا ملی؟ یہاں تک کہ کسی کو اس قانون تک کا علم نہیں ہو گا، اور جن کو علم ہو گا ان کے والدین تھانہ کچہری کے جھمیلوں میں نہیں پڑتے۔ جو بچیاں والدین کے کہنے پرزبردستی شادی نہ کرنے کے لیے گھروں سے بھاگتی ہیں، وہ بھی اپنےحقوق اپنےسگےرشتوں سے لینے کے لیے یہ قدم اٹھاتی ہیں، جن میں سے کئی بچیوں کو ان کے حقوق مل بھی جاتےہیں، جن بچےاور بچیوں کو پسند کی شادی کے جرم پر مار دیا جاتا ہے وہ بھی اپنوں سے اپنےحقوق کی جنگ لڑتے ہوئے ہی مارے جاتے ہیں۔ بہت کم خوش قسمت لوگ ہوتے ہیں، جن کو ان کے اپنے ان کے جائز حقوق دے دیتے ہیں، اور زیادہ لوگوں کو اپنی جنگ خود لڑنی پڑتی ہے، اپنوں سے جنگ لڑنا ہی سب سے مشکل کام ہے

جو بچیاں یہ سمجھتی ہیں کہ انہیں عورت مارچ والی خواتین حقوق دلوا سکتی ہیں، تویہ ان کی بھول ہے، اگرآپ عورت مارچ میں شریک ہونےکی اہلیت نہیں رکھتیں، تو باقی حقوق تو چھوڑ ہی دیں۔ مت بھولیں، جوخواتین عورت مارچ میں شریک ہوئی تھیں، وہ اپنےباپ اور بھائیوں کے شانہ بشانہ تھیں۔ اور آپ کی اس مارچ میں رسائی کو روکنے والے آپ کے باپ، بھائی اور سگے رشتے تھے۔ اگر آپ ان کے سامنے بول نہیں سکتیں اور ان سے اپنےحقوق مانگ نہیں سکتیں، تو کوئی آپ کو کچھ نہیں دے سکتا۔ ریاست پھر بھی قانون بنا سکتی ہے مگر گھر گھر جا کر کسی کو اس کے حقوق نہیں دلوائے گی۔ یہ پھر بھی رشتوں پر منحصر ہے کہ وہ آپ کو وہ سب کچھ دیں یا نہ دیں۔ جو ریاست قوانین بناتی ہے۔ اس لیے اپنے والد سے اپنےدل کی بات کہیں، انہیں اپنا دوست بنانےکی کوشش کریں۔ ان سے اپنےحقوق کے لیے لڑیں، بغاوت کریں۔ کیونکہ وہ آپ کو آپ کے حقوق دیں گے تو پوری دنیا آپ کے قدموں میں ہو گی۔ اصل آزادی اور حقوق گھر والے ہی دیا کرتے ہیں، گھروں سے لڑنا شروع کریں، وہ ہو گی اصل حقوق کی جنگ، نہ کہ کوئی بیٹھےبٹھائے آپ کو کچھ دےگا۔ سگے رشتے ظالم بن جائیں، تو اولاد کو بھی مظلوم رعایا نہیں بننا چاہیے، گھر سے ملنےوالی آزادی ہی اصل آزادی ہے نہ کہ ریاست کے قوانین اور عورت مارچ آزادی دلوا سکتے ہیں۔ ریاست تیزاب گردی، ریپ، قتل، کارو کاری، ستی، ونی، ہراسگی جیسے جرائم پر سخت سزائیں مختص کر سکتی ہے قوانین بنا سکتی ہے۔ تعلیم اور جابز کے برابر مواقع کے لیے قوانین بنا بھی دے گی۔ لیکن اگر آپ کے گھر والے پھر بھی جاب اور اعلی تعلیم کی اجازت نہیں دیتے تو بھی آپ کو ہی اٹھنا پڑے گا اپنے حقوق کے لیے، ریاست لڑنے نہیں آئے گی آپ کے لیے آپ سے والدین سے۔ بچہ دنیا میں آسانی سے بھی نہیں آتا اور نہ ہی آسانی سے بڑا ہو سکتا ہے جب وہاں اسے اتنی محنت کرنی پڑتی ہے تو سوچیں، اپنی بقا کے لیے کتنی محنت کرنی پڑے گی اسے۔ قوموں کو آزادی کے لیے لڑنا بھی پڑتا ہے اور خون دینا پڑتا ہے۔ گھر کی حکمرانی تو سگےرشتوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہاں ان کی مرضی دیں یا نہ دیں۔ جب کوئی پیار سے نہ دے تو گھر سے بغاوت شروع کرنی پڑتی ہے تبھی منزلیں ملتی ہیں۔ گھر کی آزادی اور گھر سے ملنےوالےحقوق ہی اصل حقوق اور آزادی ہے۔ دنیا میں بھی اللہ تعالی انسان کو پلیٹ میں رکھ کے تو نہیں بھیج دیتے۔ سوچیں اور اٹھیں اپنےلیے، اپنے حق کے لیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments