پابند صحافت، آزاد حکومت اور کورونا وائرس کی موجیں


وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا ہے کہ وہ بنفس نفیس کورونا وائرس کے خلاف قومی اقدامات کی نگرانی کررہے ہیں ، اس لئے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ وہ قوم کو مزید اعتماد میں لینے کے لئے خطاب کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ عمران خان کے وعدوں اور تقریروں سے اگر ملک کے مسائل حل ہوسکتے تو پاکستان اس وقت تک کسی مسلمہ فلاحی ریاست کے معیار سے بھی بہتر حالت میں پہنچ چکا ہوتا۔ پھر بھی فی الوقت باتوں سے کام چلانے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔

دنیا بھر میں پھیلنے والے کورونا وائرس سے ہر ملک کو دو طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سب سے پہلا اور اہم ترین چیلنج تو شہریوں کو اس وائرس سے محفوظ رکھنا اور وائرس کا شکار ہونے والوں کو آئسولیٹڈ وارڈز میں رکھ کر ان کا علاج کرنا ہے۔ دسمبر میں چین سے شروع ہونے والا یہ وائرس اگرچہ مہلک نہیں ہے لیکن مناسب طبی امداد نہ ملنے اور بروقت اس کا پتہ نہ لگنے کے سبب دو صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک تو بروقت اور مناسب علاج و نگرانی میسر نہ آنے کی صورت میں کمزور اور ناتواں لوگ اس کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جاسکتے ہیں اور دوسرے اگر اس وائرس سے متاثرین کے فوری ٹیسٹ کرکے یہ تعین نہ کیا جائے کہ کس شخص میں یہ وائرس موجود ہے تو اس کی وجہ یہ وائرس لاتعداد لوگوں تک پہنچ سکتا ہے۔ ایک فرد سے دوسرے تک پہنچنے کی وائرس کی اسی خاصیت نے اس وقت دنیا بھر کو پریشان کیا ہؤا ہے۔ سرحدیں بند کی جارہی ہیں، شہریوں کو اپنے گھروں میں محدود رہنے کی ہدایت کی جارہی ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کی تشخیص کا اہتمام ہورہا ہے۔

پاکستان میں یہ ٹیسٹ کرنے اور علاج کی سہولتوں کا فقدان ہے اور حکومت نے اس طرف کوئی خاص توجہ دینے کوشش بھی نہیں کی ہے۔ وفاقی حکومت نے گزشتہ روز پہلی بار اس معاملہ پر غور کرنے کے بعد کچھ فیصلے ضرور کئےہیں جن میں اسکولوں کو بند کرنا اور اجتماعات پر پابندی کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ یہ جاننے اور آگاہ ہونے کے باوجود کہ یہ وائرس خطرناک رفتار سے ایک سے دوسرے شخص تک پہنچ سکتا ہے، ابھی تک مدرسے بند کرنے، مساجد میں نمازیوں کی تعداد محدود کرنے یا کم از کم جمعہ کے بڑے اجتماعات کو ممنوع قرار دینے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکا۔ اگر حکومت ہی اپنے لوگوں کو نہیں بتائے گی کہ کن وجوہ کی بنا پر یہ وائرس پھیلتا ہے اور اس سے بچاؤ کا سب سے بہتر طریقہ کیا ہوسکتا ہے، تو پاکستان جیسے ملک میں جہاں کم علمی و جہالت کے علاوہ ضعیف الاعتقادی، توہم پرستی اور لاپرواہی عام ہے۔، لوگوں کو اس مرض سے بچانا ممکن نہیں ہوسکتا۔ یہ مقصد ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مقامی نمائیندے کے توصیفی بیان کی تشہیر سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

پاکستان میں بتایا جارہا ہے کہ ابھی صرف 32 افراد اس وائرس کا شکار ہوئے ہیں۔ اس بات پر یقین کرلینے کی کوئی عملی وجہ موجود نہیں ہے کہ پاکستان میں وائرس کا شکار ہونے والوں کے یہ اعداد و شمار درست ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ہوائی اڈوں پر مسافروں کا ٹمپریچر لینے کا اہتمام گزشتہ ماہ سے ہی کرلیا گیا تھا لیکن کسی شخص کو بخار نہ ہونے کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہوسکتا کہ وہ وائرس کا کیرئیر نہیں ہے۔ اس کا تعین صرف اس وائرس کی جانچ کرنے والے ٹیسٹ کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔ اس وائرس کے بارے میں جو معلومات سائنسدانوں اور ڈاکٹروں نے اب تک فراہم کی ہیں، ان کے مطابق کسی شخص میں یہ وائرس داخل ہونے کے کم از کم دو ہفتے بعد ہی ٹیسٹ لینے سے یہ پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ وائرس کا شکار ہے یا نہیں۔ اسی لئے بیشتر ممالک نے بیرون ملک سفر سے واپس آنے والے تمام لوگوں کو دو ہفتے تک قرنطینہ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس دوران علامات ظاہر ہونے پر یا یہ مدت پوری ہونے کے بعد ہی ان کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے تاکہ انہیں عام نقل و حرکت کی اجازت دی جاسکے۔

پاکستان میں لوگوں میں یہ شعور پیدا کرنے کی کوئی جامع اور ٹھوس کوشش دیکھنے میں نہیں آئی۔ نہ ہی صوبائی یا مرکزی حکومتوں کی طرف سے یہ بتانے کی زحمت کی گئی ہے کہ ان کے پاس کورونا وائرس ٹیسٹ کرنے کے کتنے انتظامات ہیں ۔ دنیا بھر میں اس وائرس کے موجودہ پھیلاؤ کی خطرناک صورت حال میں یہ بے حد ضروری ہے کہ حکومت شہریوں کے ٹیسٹ کرنے کے لئے مناسب مقدار میں ٹیسٹ کٹ فراہم کرنے کا بند و بست کرلے۔ تاہم اس بارے میں ابھی تک کوئی واضح معلومات سامنے نہیں آسکی ہیں۔ سند ھ کی حکومت نے ضرور اسکول بند کرکے اور اضلاع میں آئسولیشن مراکز بنا کر بیرون ملک سے آنے والے لوگوں کو وہاں رکھنے کا اعلان کیا ہے لیکن بین الصوبائی آمد و رفت پر کنٹرول یا دوسرے صوبوں میں اس وائرس کا شکار ہونے والوں کا سراغ لگانے کی کوئی جامع پالیسی دیکھنے میں نہیں آتی۔

اب یہ بات واضح ہورہی ہے کہ اس وائرس سے نمٹنے کے لئے کثیر فنڈز درکار ہوں گے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز قومی ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے 50 ارب ڈالر فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس رقم کو ٹیسٹ کرنے کے علاوہ وائرس سے متاثر ین کی مدد کے لئے استعمال کیاجائے گا۔ یورپ کے بیشتر ممالک کا نظام صحت سوشل ویلفئیر کے اصولوں پر استوار ہے۔ اس کے باوجود ہر یورپی ملک کو اپنے طور پر اس وائرس سے نمٹنے کے لئے مشکلات کا سامنا ہے اور حکومتیں اس مقصد کے لئے کثیر فنڈز فراہم کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ شرح سود میں کمی کے ذریعے معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان میں ایسی کوئی کوشش دیکھنے میں نہیں آئی۔

پاکستان کا یہ دعویٰ کہ ہم وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں حقائق کی بجائے خوش فہم اندازوں پر استوار لگتا ہے۔ ملک کے ہسپتالوں میں عام مریضوں کو کھپانے کی گنجائش ہی موجود نہیں ہے۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ وسائل اور جگہ کی شدید قلت کا شکار شعبہ صحت کس طرح کورونا وائرس کے چند ہزار یا چندسو مریضوں کو آئسولیشن میں رکھ کر ان کا علاج کرسکے گا؟ اس کے علاوہ اس وائرس کا شکار ہونے والے مریض سب سے پہلے سانس ، پھر پھیپھڑوں کی تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں تنفس بحال رکھنے کے لئے وینٹیلیٹرز استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہ جاننا دشوار نہیں ہونا چاہئے کہ چھوٹے ہسپتال تو درکنار ملک کے بڑے ہسپتالوں میں بھی ایسے آلات کی شدید قلت ہے ۔ اس کمی کو دور کئے بغیر کورونا وائرس کا پھیلاؤ صرف دعاؤں یا نگرانی کے دعوؤں سے ہی روکا جاسکتا ہے۔

پاکستان میں اس گمان میں مبتلا ہونے کی بجائے کہ ہم نے وائرس پر کنٹرول کیا ہؤا ہے ، یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس بات کا بہت امکان ہے کہ متاثر لوگوں کی بڑی تعداد وائرس کنٹرول کرنے کے سرکاری راڈار میں آئی ہی نہ ہو اور یہ شہری اس خطرناک وائرس کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے کا سبب بن رہے ہوں۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے عوام میں شعور پیدا کرنے اور ٹھوس معلومات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایسا بحرانی وقت ہے کہ اس میں سیاسی اختلافات کو بھلا کر ایک قوم کے طور پر ایک دوسرے کا سہارا بننے اور مواصلات کے تمام ذرائع عوامی آگاہی پر صرف کئے جائیں۔ لوگوں کو اس وائرس کی شدت اور سنگینی سے آگاہ کرنے کے سوا پاکستانی حکومت کے پاس اس چیلنج سے نمٹنے کا کوئی دوسرا مؤثر ذریعہ نہیں ہے۔

بدقسمتی سے حکمران تحریک انصاف قومی یک جہتی پیدا کرنے کا یہ اقدام کرنے میں کامیاب نہیں ہورہی۔ پہلے وائرس کے خلاف اقدامات کے معاملہ میں سندھ حکومت سے تعاون استوار کرنے کی بجائے اختلاف اور ضد کی صورت حال پیدا کی گئی۔ اس کے بعد این ایف سی ایوارڈ کا حوالہ دے کر وفاقی حکومت کے نمائیندوں نے اپنی ذمہ داری سے گریز کی کوشش کی۔ حال ہی میں جنگ و جیو گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان کو گرفتار کرکے ملکی میڈیا سے براہ راست تصادم کی کیفیت پیدا کی گئی ہے۔ حالانکہ اس وقت کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں میڈیا ہی حکومت کا سب سے مؤثر اور کارآمد ہتھیار ہوسکتا ہے۔ عین اس وقت نیب کے ہاتھوں میر شکیل الرحمان کی گرفتاری اور ایک دیرینہ معاملہ کو جرم قرار دینے کا تنازعہ کھڑا کرکے حکومت نے وائرس کے خلاف قومی کوششوں کو شدید نقسان پہنچایا ہے۔ یہ ایسا بحران ہے کہ جس کے دوران دیگر اختلافات کو بھلا کر صرف کورونا سے بچاؤ مہم کو مباحث و معلومات کا موضوع ہونا چاہئے۔

کورونا وائرس کے براہ راست حملہ کا دورانیہ ختم ہونے کے بعد اس کے معاشی اثرات سامنے آنا شروع ہوں گے۔ دنیا بھر کی معیشت میں سست روی کا اثر پاکستان کی کمزور معیشت پر بھی مرتب ہوگا۔ وائرس کی وجہ سے اس وقت چین سمیت متعدد ملکوں میں پیداواری یونٹ بند اور سفری سہولتیں محدود ہونے کی وجہ سے عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں شدید کمی آئی ہے۔ اس کمی سے پاکستان کو بہر حال فائدہ ہؤا ہے۔ تیل کی خریداری میں ہونے والی اس بچت کو صرف سال رواں کے بجٹ میں سرکاری اعداد و شمار کو بہتر کرنے کے لئے استعمال کرنے کے علاوہ، ابھی سے ان اضافی وسائل کو مناسب طریقہ سے صرف کرنے کی منصوبہ بندی ضروری ہے۔ تاکہ اس سال کے آخر اور اگلے برس کے دوران پیداوار اور برآمدات میں کمی کے چیلنج سے نمٹنے کی تیاری کی جا سکے۔

ملک میں البتہ میڈیا کو پابند کرنے اور کورونا وائرس کے بارے میں سہل پسندی سے حکومت اپنی ’خود مختاری اور آزادی‘ کا برملا اظہار کر رہی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ غلطیوں کی نشاندہی کرنے والوں کو خوفزدہ کر کے وہ ہر فکر سے آزاد ہو چکی ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھی اس گمراہ کن کیفیت سے باہر نکل آئیں تب ہی کورونا وائرس کے خلاف کسی قومی ایکشن پلان پر عمل ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments