سعودی عرب اور روس کے درمیان ’تیل کی جنگ‘ کیوں شروع ہوئی؟


پوتن اور محمد بن سلمان

کورونا وائرس چیلنجز کے درمیان جمعے کے روز تیل کی قیمتیں سنہ 2008 کی معاشی مندی کے بعد سب سے کم سطح پر پہنچ گئی ہیں

دنیا بھر کی معیشت دہری مشکلات سے دوچار ہے۔ اس کی ایک وجہ کورونا وائرس ہے تو دوسری طرف تیل پر شروع ہونے والا تصادم ہے۔ سعودی عرب اور روس کے مابین شروع ہونے والے تنازعے سے خام تیل کی قیمت جیسے سر کے بل نیچے گری ہو۔

تیل کے معاملے میں امریکہ کے خود کفیل ہونے کے بعد روس اور سعودی عرب کے درمیان تیل کی پیداوار پر تنازع شروع ہو گیا ہے۔

سعودی عرب نے قیمتوں میں اضافے کی غرض سے تیل کی پیداوار میں کمی کی تھی۔ سعودی عرب اس کے ذریعے کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی مندی کو کم کرنا چاہتا تھا لیکن اسی دوران روس نے اپنا رد عمل ظاہر کر دیا۔

روس نے تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے ساتھ تعاون کرنا بند کر دیا۔ کہا جارہا ہے کہ روس ایشیائی مارکیٹ میں تیل کی برآمد میں سعودی عرب کی اجارہ داری کو چیلنج کرنے جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سعودی عرب اور روس کی بڑھتی قربت، ہو کیا رہا ہے؟

تیل کی قیمتوں کی سیاست

ماضی میں تیل کی رسد کب کب متاثر ہوئی؟

خبر رساں ادارے رویٹرز کے مطابق روس کی جوابی کارروائی کے پیشِ نظر سعودی عرب اب 25 امریکی ڈالر فی بیرل تک خام تیل فروخت کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

کورونا وائرس چیلنجز کے درمیان جمعے کے روز تیل کی قیمتیں سنہ 2008 کی معاشی مندی کے بعد سب سے کم سطح پر پہنچ گئی ہیں۔

کورونا کی وجہ سے خام تیل کی طلب اور رسد کے مابین کوئی توازن نہیں بن پا رہا ہے۔

تیل

سعودی اور روس کی تیل کی جنگ کیا ہے؟

دسمبر 2016 میں روس اور سعودی عرب نے ویانا میں 11 غیر اوپیک ممالک (اب 10) اور اوپیک ممالک کے مابین ایک معاہدے پر دستخط کیے۔

اس معاہدے کا مقصد تیل کی قیمتوں کو مستحکم رکھنا تھا اور اسے کم نہیں کرنا تھا۔ ابتدا میں یہ معاہدہ چھ ماہ کے لیے تھا لیکن بعد میں اس کی آخری تاریخ میں توسیع کر دی گئی۔

اسے اوپیک پلس کہا گیا۔

اس کے تحت اوپیک اور روس کی سربراہی میں اوپیک کے تیل پیدا کرنے والے ممالک تیل کی پیداوار میں توازن برقرار رکھنے پر کام کریں گے۔ دسمبر 2019 میں اس معاہدے میں 20 اپریل تک کی توسیع کی گئی تھی اور توقع کی جارہی تھی کہ یہ مزید جاری رہے گا۔

دریں اثنا روس اور سعودی عرب نے اپنے معاشی مفادات کے مطابق متعدد معاہدوں پر دستخط کیے لیکن چھ مارچ کو ایک چونکا دینے والا واقعہ پیش آیا۔ تاہم روس پر نگاہ رکھنے والے پہلے ہی اس سے واقف تھے۔

ویانا میں سعودی عرب نے روس کو تیل کی پیداوار میں کمی کی تجویز پیش کی تاکہ مطالبے کے مطابق قیمت مستحکم رہے۔

روس نے نہ صرف اس مطالبے کو مسترد کیا بلکہ یہ اعلان بھی کیا کہ اب وہ پہلے کی طرح ویانا معاہدے کا پابند نہیں ہو گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اوپیک پلس ختم ہوا۔ یہیں سے روس اور سعودی عرب میں تیل کے تنازعے کا آغاز ہوا جسے تیل کی جنگ کہا جاتا ہے۔

تیل کی قیمتوں پر سعودی عرب اور روس کے مابین جاری تلخی بڑھتی جارہی ہے۔ روس اور اوپیک اس سپلائی کو روکنے کے لیے کسی نئے معاہدے پر راضی نہیں ہو سکے ہیں جبکہ سعودی عرب نے تیل کی قیمت کم کر کے سپلائی بڑھانے کی بات کہی ہے۔

خبر رساں ادارے رویٹرز کے مطابق سعودی عرب اب بڑھتی کشیدگی کے پیش نظر روس کی بجائے چین اورانڈیا میں تیل خریدنے والوں کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ روسی تیل کی مانگ بہت کم ہے اور سعودی عرب اپنے ساتھی ممالک کو تیل کی مزید سپلائی لینے کے لیے تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

پوتن اور ایم بی ایس

تیل کے معاملے میں امریکہ کے خود کفیل ہونے کے بعد روس اور سعودی عرب کے درمیان تیل کی پیداوار پر تنازع شروع ہو گیا ہے

مصالحت کا راستہ نہیں

سعودی عرب ہی نہیں بلکہ دوسرے خلیجی ممالک نے بھی پیداوار بڑھانے کے بارے میں بات کی ہے۔ دوسری طرف روس فی الوقت سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہے۔

روس کے وزیر توانائی الیگزینڈر نوواک نے جمعے کو کہا تھا کہ اوپیک پلس ممالک سے مذاکرات کی کوئی وجہ نہیں ہے اور اب وہ اپریل میں اپنے تیل کی پیداوار میں دو لاکھ بیرل یومیہ تک پہنچائیں گے۔ اسی کے ساتھ ہی سعودی عرب کا ارادہ ہے کہ اپریل میں یومیہ 20.6 ملین بیرل تیل پیدا کرے۔

دنیا کے دو بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک سعودی عرب اور روس کے مابین اس جنگ کے بارے میں متعدد سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔

کیا یہ دونوں ممالک اس طرح کی لڑائی میں اپنا نقصان کر رہے ہیں؟ سعودی عرب اور روس واقعتاً کیا چاہتے ہیں؟

در حقیقت گذشتہ ہفتے ویانا میں سعودی عرب، روس اور دیگر اوپیک ممالک کے مابین تیل کی پیداوار میں کمی کے لیے ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں کورونا وائرس کے اثر کی وجہ سے تیل کی پیداوار کو کم کرنے پر غور کیا گیا تھا تاکہ خام تیل کی قیمتوں پر قابو پایا جا سکے۔

اُس وقت خام تیل کی قیمت 50 ڈالر فی بیرل تھی۔

سعودی عرب نے خام تیل کی پیداوار میں کمی کی تجویز پیش کی لیکن روس نے انکار کردیا، جس کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں مزید کمی واقع ہوئی۔ اِس وقت خام تیل کی قیمت فی بیرل 33 ڈالر ہے۔

اس کے بعد سعودی عرب نے یکسر مختلف فیصلہ کیا۔ سعودی عرب نے جہاں اپنے خام تیل کی قیمتوں میں کمی کی وہیں اس نے تیل کی پیداوار بڑھانے کی بات بھی کی۔

سعودی عرب اور روس دونوں کے لیے تیل کی فروخت اور اس سے ملنے والی رقم ملکی معیشت کے لیے بہت اہم ہے لیکن ان کے مابین جو کھیل چل رہا ہے وہ اور زیادہ خراب ہو سکتا ہے۔

روس کا خیال ہے کہ اگر تیل کی قیمتوں پر بات نہیں بنتی ہے اور تصادم کے حالات پیدا ہوتے ہیں تو وہ سعودی عرب اور اوپیک کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنا غیر رسمی تعاون ختم کر سکتا ہے۔

پہلی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ برسوں میں تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے بعد سے اس نے بہت پیسے لگائے ہیں جس کی وجہ سے اسے بڑی مالی طاقت ملی ہے۔

کورونا وائرس کے بعد بازار میں بڑی گراوٹ

دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر تیل کی قیمتوں پر کوئی بات ہوتی ہے تو روس کے اندازے کے مطابق سب سے زیادہ نقصان امریکہ کو ہو گا۔

تیل کی قیمتوں میں کمی سے امریکہ کو معاشی نقصان پہنچے گا اور جس طرح وہ بین الاقوامی دباؤ بنانے کے لیے پابندیاں عائد کر کے اپنے آپ کو مضبوط بنانے کی کوشش کرتا ہے اس کا اثر اس پر بھی پڑے گا اور امریکہ کی صورتحال بھی کمزور ہو گی۔

روس نے گذشتہ پانچ برسوں میں اپنے بجٹ کو اس طرح کنٹرول کیا ہے کہ وہ اپنے خزانے میں 550 بلین ڈالر جمع کرنے میں کامیاب ہوا ہے تاکہ اگر آئندہ تیل کی قیمت 25 سے 30 ڈالر فی بیرل تک گر جائے تب بھی اسے بہت بڑا نقصان نہ ہو۔

روس کی وزارت خزانہ نے کہا ہے کہ اگر تیل کی قیمتوں میں اس طرح کمی ہوتی رہی تو وہ اپنے قومی فنڈ سے 150 بلین ڈالر نکال لے گی تاکہ بجٹ کو سنبھالا جا سکے۔

گذشتہ ہفتے خام تیل کی قیمت 30 ڈالر فی بیرل تھی۔ اگر یہ فی بیرل اوسطاً 27 ڈالر تک آتی ہے تو روس کو اپنا بجٹ برقرار رکھنے کے لیے ہر سال فنڈ سے 20 ارب ڈالر نکالنا ہو گا۔

سنہ 2015 میں معاشی سست روی کا شکار ہونے والے روس نے اپنی معیشت کی تنظیم نو کا فیصلہ کیا۔ روس نے حالیہ برسوں میں ترقی کو مستحکم کرنے پر زور دیا ہے اور بہت سے طریقوں سے موجودہ صورتحال پہلے کے مقابلے میں بہتر ہے۔

تیل کی قیمتوں میں کمی سے قبل حکومت کا ترقیاتی کاموں میں ویلتھ فنڈ کے استعمال کا منصوبہ تھا لیکن تیل کی قیمتوں پر جاری تکرار کی وجہ سے اسے بجٹ کو سنبھالنے کے لیے فنڈ سے رقم نکلوانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

ماسکو میں ایلفا بینک کی چیف ماہر اقتصادیات نتالیہ اورلووا کہتی ہیں: ’اگر اوپیک پلس کے ساتھ اس موسم گرما کے وسط تک کوئی نیا معاہدہ نہیں ہوا اور تیل کی قیمتیں 30 ڈالر تک رہیں تو بھی روس کو توازن برقرار رکھنے کے لیے کچھ کرنا پڑے گا۔

پوتن

اگر تیل کی قیمتوں پر کوئی بات ہوتی ہے تو روس کے اندازے کے مطابق سب سے زیادہ نقصان امریکہ کو ہو گا

اگر تیل کی قیمتوں میں کمی ہوتی رہی تو روسی حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنا پڑے گے یا ٹیکس بڑھانا پڑے گا۔

اورلووا کا کہنا ہے ’قومی دولت فنڈ ہنگامی استعمال کے لیے ہے۔ اگر معاملات بگڑتے ہیں تو، انھیں اپنا بجٹ سخت کرنا ہو گا یا ٹیکس بڑھانا ہو گا جو صرف روسی صارفین سے وصول کیا جائے گا۔‘

روس کا منصوبہ تھا کہ وہ کسی بھی طرح امریکی شیل آئل کی پیداوار کو مکمل طور پر روک دے۔

روس کی سرکاری تیل کمپنی راسنیفٹ کے سربراہ اور صدر پوتن کے قریبی سمجھے جانے والے ایگور سیچن کا خیال ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور پیداوار کو کم رکھنے سے امریکہ کو شیل آئل کی پیداوار میں اضافہ کرنے کا موقع ملا۔

روس کا مقصد تیل کی منڈی میں اپنا حصہ مستحکم کرنا ہے۔

شیل آئل بنانے میں زیادہ لاگت آتی ہے اور اس کے لیے قرض بھی لیا گیا ہے۔ روس کا اندازہ ہے کہ اگر خام تیل سستا ہو جاتا ہے تو امریکی کمپنیاں غرق ہو جائیں گی یا انھیں خود کو دوبارہ تعمیر کرنا پڑے گا۔ امریکی تیل کی منڈی کو جھٹکا دے کر روس امریکہ کی اس طاقت کو بھی کمزور کرنا چاہتا ہے جس کے تحت وہ کسی بھی ملک پر من مانی پابندی لگا دیتا ہے۔

شاہ سلمان اور پوتن

رویٹرز کے مطابق سعودی عرب اب بڑھتی کشیدگی کے پیش نظر روس کی بجائے چین اورانڈیا میں تیل خریدنے والوں کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنا چاہتا ہے

روس کا یہ منصوبہ امریکہ کی کارپوریٹ قرض مارکیٹ کو مکمل طور پر تباہ کرسکتا ہے اور شیل آئل بنانے والی کمپنیوں کو مغلوب کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اس معاملے میں کسی قسم کی ٹھوس سرکاری مداخلت کی ضرورت ہے۔

سعودی عرب کے پاس بھی اتنا بجٹ ہے کہ اگر تیل کی قیمتیں کم ہوں تو وہ معیشت کو سنبھال لے۔ اگرچہ اس کا مالی خسارہ پہلے ہی 50 بلین ڈالر ہے لیکن اگر تیل کی قیمتیں گرتی رہیں تو یہ سالانہ 70 سے 120 بلین ڈالر تک جا سکتا ہے۔

سعودی عرب میں تیل کے شعبے کے ماہر انس الحاجی نے الجزیرہ چینل کو بتایا ہے کہ اگرچہ تیل کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں لیکن سعودی عرب نے پیداوار اور برآمدات میں اچھی سبقت حاصل کر لی ہے لہٰذا اسے زیادہ نقصان ہوتا نظر نہیں آتا۔

ان کا کہنا ہے کہ تیل کی قیمتیں پہلے ہی وائرس کے اثرات اور روس کی ضد کی وجہ سے گر رہی تھیں۔ ایسی صورتحال میں سعودی عرب نے اپنی برآمدات روزانہ 70 لاکھ بیرل سے بڑھا کر 90 لاکھ بیرل یا اس سے زیادہ کر دیں۔

اس طرح سے سعودی عرب کو اب بھی اتنا پیسہ مل سکے گا۔ یہاں تک کہ اگر اسے روس کی حمایت حاصل نہیں ہوتی ہے تو بھی اس کا مارکیٹ شیئر بڑھ جائے گا۔

تیل کی قیمتوں اور مارکیٹ کو دیکھتے ہوئے دونوں ممالک ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں کہ کون پہلے جھکتا ہے۔ دونوں ممالک کے پاس اپنے آپ کو درست ثابت کرنے اور ایک دوسرے کے غلط ہونے کی وجوہات ہیں۔

دونوں ممالک آگے کا راستہ بہتر بنانے کے لیے تھوڑا سا خطرہ بھی مول لینے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32556 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp