کرونا وائرس کیسے دنیا بدل رہا ہے؟


ایک شخص اپنی ماں سے بہت بد تمیزی اور بد تہذیبی سے پیش آتا۔ ماں سے یہ بد تمیزی کبھی کبھار حد سے گزر جاتی تو وہ گالیاں دینے پر اتر آتا۔ ایک روز کسی جرم کی پاداش میں پولیس اس شخص کو گرفتار کر لیتی ہے اور جرم کے اعتراف کے لیے اپنے روایتی حربوں سے اسے ایسا دھوبی پٹکا لگاتی ہے کہ اس کے حلق سے بر آمد ہونے والی دلخراش چیخوں سے پورا تھانہ گونج اٹھتا ہے۔ دکھیاری ماں کو جب بیٹے کی گرفتاری کا پتا چلتا ہے تو بیٹے کی تمام گستاخیاں اور نا فرمانیاں ممتا کے جذبے کے سامنے مغلوب ہو جاتی ہیں۔

گرتی پڑتی جب تھانے پہنچتی ہے تو بیٹے کی فلک بوس چیخیں اس کا استقبال کرتی ہیں۔ تھانے والوں کے ہر لتر پر اس کے حلق سے ”ہائے ماں، ہائے ماں“ کی آواز بھی نکلتی۔ بیٹے کی حالت دیکھ کر ماں دل گرفتہ تو ہوئی لیکن تھانیدار سے یہ بھی کہا ”صدقے جاواں پتر تھانیدارا! توں میرے پتر تو ماں یاد دلا دتی اے“۔ اگرچہ یہ ایک لطیفہ ہے لیکن اس کی ظرافت میں ایک تلخی بھی پنہاں ہے کہ حالات انسان کو کیسے بدل دیتے ہیں۔ آج دنیا بھر میں یہی صورت کرونا وائرس کی وجہ سے ابھر رہی ہے۔

اج کی دنیا دو اڑھائی ماہ قبل کی دنیا سے یکسر مختلف ہے۔ آج جو مناظر ہماری آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں وہ چند ہفتے پہلے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے۔ کرونا وائرس نے آج پوری دنیا میں جہاں بہت کچھ بدل کر رکھ دیا وہیں پر دنیا کے ایک بڑے طبقے کو عملیت پسند اور متحرک کر دیا یے۔ اس نے بنی نوعِ انسان کو ایک عظیم انسانی کاز کے لیے مجتمع کر دیا ہے تاکہ نسل انسانی کو اس عالمی خطرے سے بچایا جا سکے جو بلا تخصیص مذہب و ملت، رنگ و نسل اور امیر و غریب کے اپنے نشانے پر رکھے ہوئے ہے۔

کرونا وائرس نے جہاں پوری دنیا کو متحرک کیا اور اسے عمیلت پسند بنایا تو اس کے ساتھ دنیا کے بڑے حصے کو صفائی پسند بنانے کی راہ پر بھی ڈالا۔ کرونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد اب ہاتھ صابن سے دھونے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ جگہ جگہ سینی ٹائزرز رکھے جا رہے ہیں تاکہ اس کے ذریعے اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ پاکستان میں ہی دیکھ لیں جہاں صاف ماحول سے لے کر انفرادی ہائی جین کا زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا وہاں بھی اب صفائی ستھرائی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

منہ اور ناک کو ہاتھ لگانے سے اس وائرس سے متاثر ہونے کے خدشے کے پیش نظر اب طبی ماہرین لوگوں کو اس سے پرہیز کے مشور ے دے رہے ہیں۔ چھینک یا کھانسنے کی صورت میں منہ اور ناک کے سامنے رومال اور ٹشو پیپر رکھنے کی تاکید کی جا رہی ہے۔ یہاں تو حالات یہ ہیں کہ بھری محفل میں ناک میں انگلی گھسانے کا شغل دھڑلے سے کیا جاتا ہے اور اس کی کسی کو مطلق پروا نہیں کہ حاضر ین محفل کی طبیعت پر یہ کتنا گراں گزرتا ہے۔ کھانسنے اور چھینکنے کا کام ہم ہر جگہ بلا تردد کرتے ہیں چاہے اس سے کسی دوسرے شخص کی طبیعت مکدر ہی کیوں نہ ہو رہی ہو۔

کورنا وائرس نے کم از کم ہمیں اس لحاظ سے کچھ مہذب بنا دیا ہے کہ کسی دوسرے شخص کے منہ پر کھانسنے یا چھینکنے کی بجائے ذرا سا ہٹ کر یہ کام انجام دیا جائے۔ اس وبا کے پھوٹنے کے بعد چہرے کے ماسک پہننے کا رجحان بھی بڑھ گیا ہے۔ صنعتی شیروں میں ماحول میں آلودگی کا تناسب اتنا بڑھ چکا ہے کہ ان میں سانس لینا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے اور ایسے شہروں میں ماسک پہننا ضروری ہو گیا ہے تاہم آلودگی جیسے خاموش قتل کر ہم نے کبھی لائق اعتنا نہیں سمجھا لیکن اب کرونا وائرس کی وجہ سے ماسک کا استعمال بے انتہا پڑھ گیا ہے۔

کرونا وائرس نے دنیا کی اقوام کو عمیلت پسند کیسے بنا دیا اس کی مظاہر ہر جگہ مل رہے ہیں۔ اس کرونا وائرس نے دنیا بھر میں اقوام کو ایک نکتے پر متفق کر دیا ہے کہ یہ وائرس کسی انسان کی لغزش، کوتاہی اور نادانی کی وجہ سے پھیلا ہے اور اب انسانوں کو ہی اس کے تدارک اور علاج کی کوئی تدبیر بروئے کار لانی پڑے گی۔ آج اکیسویں صدی میں کرونا وائرس سے پھیلنے والی وبا پر قابو پانے کے لیے انسان آسمانی قوتوں پر تکیہ کرنے کی بجائے اپنے عقل و شعور سے کام لے رہا ہے اور اس کا اغلب امکان ہے کہ جلد ہی اجتماعی انسانی شعور اس کا توڑ تلاش کرنے میں کامیاب ٹھہرے گا۔

کرونا وائرس کے بعد عملیت پسندی کا ایک اور مظاہرہ بلا تخصیص مذہب ان بڑی بڑی عبادت گاہوں پر انسانی اجتماع پر پابندی ہے جہاں کرونا وائرس کے پھیلنے کا زیادہ خدشہ ہے۔ یہ بھی انسانی شعور میں ترقی کا ثمر ہے کہ آج انسانی جان کو مقدم جانا جا رہا ہے اور ا س کے تحفظ کے لیے عظیم مذہبی عبادت گاہوں میں اجتماع پر پابندی پر کوئی چیخ و پکار نہیں ہو رہی۔ آج کی دنیا نے یہ ادراک کرلیا ہے کہ قدرت مدد کو نہیں پہنچتی بلکہ یہ انسانی فہم، شعور، کاوش اور عمل ہے جو نظام حیات کو آگے بڑھا تا ہے۔

زمانہ قدیم میں غیر مرئی قوتوں کے ذریعے شفا یاب ہونے کے نظریات کا زمانہ لد چکا۔ آج انسانی مسائل کو خود انسانوں نے حل کرنا ہے۔ اگرچہ آج بھی کچھ طبقات کرونا وائرس کو آسمانی قوتوں کی ناراضگی سے جوڑ رہے ہیں جو غضب ناک ہو کر انسانوں کو سزا دینے پر تلی ہوئی ہیں لیکن اب ان نظریات کی زیادہ پذیرائی نہیں ہو رہی۔ انسان اور انسانوں پر مشتمل اقوام، ادارے اور تنظیمیں طبی میدان میں تحقیق، اربوں ڈالر کی عالمی امداد اور عالمگیر اقدامات کی صورت میں ایک عظیم انسانی مشین میں ڈھل کر متحرک ہیں۔ شاید اسی لیے احمد ندیم قاسمی نے کہا ہے

توُ وقت ہے، روح ہے، بقا ہے

وہ حُسن ہے، رنگ ہے، صدا ہے

توُ جیسا اَزل میں تھا سو اَب ہے

وہ ایک مُسلسل اِرتقاء ہے

ھر شے کی پلٹ رہا ہے کایا

انسان عظیم ہے خدایا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments